بلوچستان حکومت کو 20 دن میں جبری شادی کےخلاف مجوزہ قانون کا مسودہ پیش کرنے کی ہدایت
وفاقی شرعی عدالت نے بلوچستان حکومت کے حکام کو ہدایت کی ہے کہ وہ 20 دنوں کے اندر جبری شادیوں کی حوصلہ شکنی کے لیے مجوزہ قانون کا مسودہ صوبائی کابینہ کے سامنے پیش کریں۔
ڈان اخبار میں شائع رپورٹ کے مطابق یہ ہدایت چیف جسٹس ڈاکٹر سید محمد انور اور جسٹس خادم حسین ایم شیخ پر مشتمل وفاقی شرعی عدالت کے بینچ نے بلوچستان میں 5 سالہ بچی کی جبری شادی کے حوالے سے ازخود نوٹس کی سماعت کے موقع پر دی۔
صوبہ بلوچستان کی نمائندگی کرنے والے لا افسر نے عدالت کو بتایا کہ صوبائی حکومت نے ’بلوچستان چائلڈ میریجز پروہبیشن ایکٹ 2021‘ کے عنوان سے ایک بل تیار کیا ہے اور اسے جلد از جلد کابینہ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔
تاہم عدالت نے انہیں 20 دن کے اندر مسودہ کابینہ کو پیش کرنے کی ہدایت کی، صوبہ خیبرپختونخوا کی نمائندگی کرنے والے لا افسر نے عدالت میں رپورٹ جمع کرانے کے لیے مہلت مانگ لی جس کے بعد وفاقی شرعی عدالت نے لا افسران کی درخواست پر سماعت ملتوی کر دی۔
پانچ سالہ بچی کے والد محمد نے خضدار کے ایک پولیس اسٹیشن میں ایف آئی آر درج کرائی جس میں الزام لگایا گیا تھا کہ اس کی بیٹی کی شادی ایک معاملے کے حل کے لیے جرگے کے حکم پر قتل کے ملزم کے بیٹے سے کرائی گئی، جرگے کی طرف سے کیے گئے فیصلے کے تحت اس کے بدلے محمد کا بیٹا ملزم کی بیٹی سے شادی کرے گا۔
نابالغ لڑکی کے والد نے اکتوبر میں وفاقی شرعی عدالت میں درخواست بھی دی تھی۔
1929 کا چائلڈ میرج ریسٹرینٹ ایکٹ کسی بچے کی شادی کرنے والے افراد کے لیے چھ ماہ تک کی سزا تجویز کرتا ہے۔
بینچ نے کہا کہ پاکستان کے بہت سے حصوں میں ظالمانہ، غیر اسلامی اور بے رحمانہ رسم پائی جاتی ہے جہاں تنازعات بالخصوص قتل کے معاملات کے حل کے لیے معاوضے کے طور پر لڑکیوں کی شادی متاثرہ خاندان کے فرد سے کردی جاتی ہے۔
قانون کے مطابق اس رواج کے تحت عورت کی ذاتی آزادی کو انصاف کے تمام اصولوں کے خلاف اس کی ساری زندگی کے لیے سلب کر لیا جاتا ہے جو اسلامی احکامات اور آئین کے آرٹیکل 9 کے منافی ہے۔