بلدیاتی انتخابات کرانے کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلیں قابل سماعت قرار
اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلدیاتی الیکشن 31 دسمبر کو کرانے کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلیں قابل سماعت قرار دیتے ہوئے فریقین کو نوٹس جاری کرکے 9 جنوری کو جواب طلب کر لیا۔
قبل ازیں اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس عامر فاروق اور جسٹس ثمن رفعت امتیاز پر مشتمل 2 رکنی بینچ نے وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن کی جانب سے دائر انٹراکورٹ اپیلوں پر سماعت کرتے ہوئے وفاقی دارالحکومت میں 31 دسمبر کو بلدیاتی انتخابات کرانے کے حوالے سے سنگل رکن بینچ کے فیصلے کے خلاف درخواست کے قابل سماعت ہونے پر فیصلہ محفوظ کیا تھا۔
محفوظ فیصلہ جاری کرتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ نے بلدیاتی انتخابات کے حوالے سے سنگل رکنی بینچ کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلیں قابل سماعت قرار دیں اور فریقین کو نوٹس جاری کرکے 9 جنوری کو جواب طلب کر لیا۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے اپنے فیصلے میں الیکشن کمیشن کی سنگل رکنی بینچ کا فیصلہ آج معطل کرنے کی استدعا مسترد کرتے ہوئے الیکشن کمیشن اور وفاقی حکومت کی اپیلوں پر نوٹس جاری کردیے۔
دوران سماعت الیکشن کمیشن کی جانب سے ایڈووکیٹ میاں عبد الرؤف عدالت میں پیش ہوئے۔
چیف جسٹس نے کہا کہ ’فیڈریشن کہاں ہے؟ فیڈریشن کو بھی یاددہانی کروا دیں‘۔
اس دوران ڈی جی لا الیکشن کمیشن روسٹرم پر آگئے، چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ ڈی جی صاحب پہلے آپ کے وکیل کو سن لیں، پھر آپ کو بھی س لیں گے۔
وفاقی حکومت کی جانب سے قانونی ٹیم عدالت میں پیش ہوئی، ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل اور ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد عدالت پہنچے، ڈپٹی اٹارنی جنرل ارشد محمود کیانی بھی عدالت میں پیش ہوئے۔
وکیل الیکشن کمیشن نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمنٹ سے یونین کونسلز کی تعداد بڑھانے کا بل منظور ہوا ہے۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ یہ بل تو ابھی تک ایکٹ بنا ہی نہیں ہے، کیا الیکشن کمیشن کے فیصلے سے قبل یہ بل منظور ہو چکا تھا، سوال یہ ہے کہ ایک بل کی بنیاد پر تو الیکشن ملتوی نہیں ہو سکتا، ابھی تو قانون بنا ہی نہیں۔
وکیل الیکشن کمیشن نے کہا کہ دونوں ایوانوں سے بل منظور ہو چکا تھا، ممکنات تھیں کہ میئر اور ڈپٹی میئر کے انتخابات کس قانون کے تحت ہوں گے۔
ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ 19 دسمبر کا نوٹی فکیشن چیلنج نہیں کیا گیا، اب والی پٹیشن میں بھی اسے چیلنج نہیں کیا گیا۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پٹیشن میں 19 دسمبر کا نوٹی فکیشن چیلینج کیا گیا ہے، جو آئینی سوالات اس میں شامل ہیں اُس جانب وہ آرہے ہیں نہ آپ آرہے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ معذرت کے ساتھ آپ دونوں اپنے ساتھ ظلم کر رہے ہیں، کوئی ایک چیز بھی عدالت کے سامنے نہیں لائے، اسی لیے کہہ رہا ہوں تیاری کر لیں، کل پرسوں کے لیے رکھ لیتے ہیں۔
چیف جسٹس عامر فاروق نے کہا کہ پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس میں جسٹس محسن اختر کیانی نے تیس دن میں سماعت مکمل کرنے کا کہا تھا، دو رکنی بینچ نے آبزرویشن دی ہوئی ہے کہ باڈی کو ہدایت نہیں دی جاسکتی، الیکشن کمیشن کو ہائی کورٹ ہدایات جاری نہیں کرسکتی، پی ٹی آئی فارن فنڈنگ کیس میں یہ اصول طے ہوا تھا۔
انہوں نے کہا کہ معذرت کے ساتھ جس چیز کے لیے الیکشن کمیشن کو کیس بھیجا گیا تھا اس کے بجائے بل پر چلے گئے، ہر ایک نے اپنا کام قانون کے دائرے میں رہ کر کرنا ہے، ہم اس معاملے پر ابھی غور کر رہے ہیں کہ آئینی باڈیز کو ہدایات دے سکتے ہیں یا نہیں۔
الیکشن کمیشن کے وکیل کی جانب سے استدعا کی گئی کہ عدالت سنگل بینچ کا فیصلہ معطل کر دے۔
بعد ازاں عدالت نے سنگل بینچ کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلوں پر دلائل مکمل ہونے کے بعد فیصلہ محفوظ کرلیا۔
واضح رہے کہ 31 دسمبر کو وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن نے اسلام آباد میں اسی روز بلدیاتی انتخابات کرانے کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلیں دائر کی تھیں۔
وفاقی حکومت کی جانب سے دائر اپیل میں ہائی کورٹ کا فیصلہ معطل کرنے کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ سنگل رکنی بینچ نے معاملے کے حقائق اور قانونی پہلوؤں کو مدنظر نہ رکھتے ہوئے فیصلہ سنایا، الیکشن کمیشن کی آئینی حیثیت کو بھی ملحوظ خاطر نہ رکھا گیا، الیکشن کمیشن ایگزیکٹو نہیں بلکہ ایک آئینی ادارہ ہے۔
درخواست میں کہا گیا کہ سنگل رکنی بینچ نے حکومت کو اپنا جواب جمع کرانے کے لیے مناسب وقت نہیں دیا، فیصلہ قانون اور حقائق کی غلط تشریح پر مبنی ہے اور برقرار رکھنے کے قابل نہیں ہے۔
الیکشن کمیشن کی جانب سے انٹراکورٹ اپیل پر اسی روز سماعت کی استدعا کرتے ہوئے مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ ’موجودہ صورتحال میں آج انتخابات کا انعقاد ممکن ہی نہیں تھا لہٰذا ایک رکنی بینچ کا فیصلہ کالعدم قرار دیا جائے‘۔
دوسری جانب رہنما مسلم لیگ (ن) طارق فضل چوہدری کا کہنا تھا کہ ’وفاقی حکومت نے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیل دائر کردی ہے، آگے جو عدالت کا حکم ہوگا اس پر ہم عمل کریں گے‘۔
پس منظر
واضح رہے کہ 20 دسمبر کو وزارت داخلہ نے وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد اسلام آباد میں یونین کونسلز کی تعداد میں اضافے کا نوٹی فکیشن جاری کردیا تھا، جس کے بعد بلدیاتی انتخابات میں تاخیر کا خدشہ ظاہر کیا جارہا تھا۔
22 دسمبر کو قومی اسمبلی نے اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کے قانون میں ترامیم کے بل کی منظوری دے دی تھی، قومی اسمبلی کے بعد 24 دسمبر کو سینیٹ نے بھی اسلام آباد کے بلدیاتی انتخابات کے قانون میں ترامیم کے بل کی منظوری دے دی تھی۔
21 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے واضح کردیا تھا کہ انتخابات شیڈول کے مطابق 31 دسمبر کو ہی ہوں گے، الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف اسلام آباد ہائی کورٹ میں درخواستیں دائر کی گئی تھیں۔
23 دسمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے یونین کونسلز بڑھانے کا حکومتی فیصلہ مسترد کرنے کا نوٹی فکیشن کالعدم قرار دیتے ہوئے الیکشن کمیشن کو تمام فریقین کو سن کر دوبارہ فیصلہ کرنے کا حکم دے دیا تھا۔
عدالت نے فیصلے میں کہا تھا کہ الیکشن کمیشن 27 دسمبر کو یونین کونسلز کی تعداد بڑھانے سے متعلق فریقین کو سن کر فیصلہ کرے۔
27 دسمبر کو الیکشن کمیشن نے اسلام آباد میں 31 دسمبر کو ہونے والے بلدیاتی انتخابات ملتوی کردیے تھے، بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات ملتوی کرنے کے فیصلے پر عدالت کو مطمئن کرنے کی ہدایت کی تھی۔
30 دسمبر کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے الیکشن کمیشن کو اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات 31 دسمبر کو ہی کروانے کا حکم دے دیا تھا، تاہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے حکم کے برعکس الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کروانے سے معذرت کرلی تھی۔
بعد ازاں 31 دسمبر کو وفاقی حکومت اور الیکشن کمیشن نے اسلام آباد میں بلدیاتی انتخابات کرانے کے حوالے سے اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلے کے خلاف انٹراکورٹ اپیلیں دائر کردی تھیں۔