• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

کیا عدالت یہ کہہ کر نیب کو بحال کر سکتی ہے کہ احتساب ختم ہوگیا؟ جسٹس منصور علی شاہ

شائع January 19, 2023
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ   اگر پارلیمنٹ نیب کو ہی ختم کردے تو کیا اسے چیلنج کیا جاسکتا ہے — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ
جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ اگر پارلیمنٹ نیب کو ہی ختم کردے تو کیا اسے چیلنج کیا جاسکتا ہے — فائل فوٹو: سپریم کورٹ ویب سائٹ

سپریم کورٹ کے جج جسٹس منصور علی شاہ نے قومی احتساب بیورو (نیب) قانون میں ترامیم کے خلاف پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کی درخواست پر سماعت کے دوران ریمارکس دیے ہیں کہ کیا عدالت یہ کہہ کر نیب کو بحال کر سکتی ہے کہ احتساب ختم ہوگیا؟

چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجازالاحسن اور جسٹس منصور علی شاہ پر مشتمل سپریم کورٹ کے 3 رکنی بینچ نے نیب ترامیم کے خلاف درخواست پر سماعت کی۔

وفاقی حکومت کے وکیل مخدوم علی خان نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ پارلیمان کو ثابت کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ اسے قانون سازی کا اختیار ہے، کالعدم کرنے پر عدالت کو بتانا ہوگا نیب ترامیم جیسی قانون سازی کیوں نہیں ہوسکتی، صرف وہی قانون کالعدم ہو سکتا ہے جو بنانے پر آئینی ممانعت ہو، عدلیہ کے اختیارات کم کرنے کے لیے کی گئی قانون سازی کالعدم ہوسکتی ہے۔

اس دوران جسٹس منصور علی شاہ نے استفسار کیا کہ کیا پھانسی کی سزا ختم کرنا آئینی عمل ہوگا؟ اگر پارلیمنٹ نیب کو ہی ختم کردے تو کیا اسے چیلنج کیا جاسکتا ہے؟ جس پر مخدوم علی خان نے کہا کہ پارلیمان کو قانون سازی کے ساتھ قانون واپس لینے کا بھی اختیار ہے۔

جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ کیا عدالت یہ کہہ کر نیب کو بحال کر سکتی ہے کہ احتساب ختم ہوگیا؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کیا تعزیرات پاکستان ختم ہونے سے بنیادی حقوق متاثر نہیں ہوں گے؟ نیب پبلک پراپرٹی کے مقدمات بناتا ہے جو عوام کی ملکیت ہوتی ہے۔

مخدوم علی خان نے مؤقف اپنایا کہ برطانیہ میں سزائے موت کسی جرم میں نہیں دی جاتی، سزائے موت کے خاتمے کے قانون کا اطلاق زیر التوا مقدمات پر بھی ہوا تھا، برطانیہ ان ممالک کے ساتھ ملزمان حوالگی کا معاہدہ نہیں کرتا جہاں سزائے موت دی جاتی ہے۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ شرعی قانون میں سزائے موت موجود ہے، کیا شرعی اصولوں کے خلاف قانون سازی کی جاسکتی ہے؟ مخدوم علی خان نے کہا کہ اسلام میں دیت اور قصاص کا تصور بھی موجود ہے، ورثا دیت کے عوض جرم معاف کر سکتے ہیں۔

جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ درخواست گزار کے مطابق احتساب اسلام اور آئین کا بنیادی جزو ہے، جسٹس منصور علی شاہ نے کہا کہ عدالت قوانین کا جائزہ آئین اور بنیادی حقوق کے تناظر میں ہی لے سکتی ہے، کیا عدالت کچھ اور نہ ملنے پر شرعی تناظر میں قوانین کا جائزہ لے سکتی ہے؟

مخدوم علی خان نے کہا کہ شریعت کے تحت قوانین کا جائزہ صرف شرعی عدالت لے سکتی ہے، نیب ترامیم کا جائزہ اسلامی اصولوں کے تناظر میں نہیں لیا جاسکتا، اجماع اور اجتہاد کے اصول ریاستی ادارہ پارلیمان استعمال کر رہا ہے۔

چیف جسٹس نے کہا کہ قرآن میں امانت اور خیانت کے اصول واضح ہیں، خائن کے لیے قرآن کریم میں سخت الفاظ استعمال ہوئے ہیں، عدالت میں بحث جرم کی حیثیت تبدیل کرنے کی ہے، سزا کچھ بھی ہو جرم تو جرم ہی رہتا ہے۔

مخدوم علی خان نے کہا کہ احتساب کے تمام قوانین کا اطلاق ہمیشہ ماضی سے ہوا ہے، نیب ترامیم کا ماضی سے اطلاق ہونا کوئی اچمبے کی بات نہیں ہے۔

اس کے ساتھ ہی عدالت نے درخواست پر مزید سماعت 7 فروری تک ملتوی کردی۔

نیب ترامیم

خیال رہے کہ رواں سال جون میں مسلم لیگ (ن) کی زیر قیادت اتحادی حکومت نے نیب آرڈیننس میں 27 اہم ترامیم متعارف کروائی تھیں، لیکن صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے ان کی منظوری نہیں دی تھی، تاہم اس بل کو پارلیمنٹ کے مشترکہ اجلاس میں منظور کیا گیا اور بعد میں اسے نوٹیفائی کیا گیا تھا۔

نیب (دوسری ترمیم) بل 2021 میں کہا گیا ہے کہ نیب کا ڈپٹی چیئرمین، جو وفاقی حکومت کی جانب سے مقرر کیا جائے گا، چیئرمین کی مدت ملازمت پوری ہونے کے بعد بیورو کا قائم مقام چیئرمین بن جائے گا، بل میں چیئرمین نیب اور بیورو کے پراسیکیوٹر جنرل کی 4 سال کی مدت بھی کم کر کے 3 سال کردی گئی ہے۔

قانون کی منظوری کے بعد نیب وفاقی، صوبائی یا مقامی ٹیکس کے معاملات پر کارروائی نہیں کر سکے گا، مزید یہ کہ ملک میں کام کرنے والے ریگولیٹری اداروں کو بھی نیب کے دائرہ کار سے باہر نکال دیا گیا ہے۔

بل میں کہا گیا ہے کہ اس آرڈیننس کے تحت افراد یا لین دین سے متعلق زیر التوا تمام پوچھ گچھ، تحقیقات، ٹرائلز یا کارروائیاں متعلقہ قوانین کے تحت متعلقہ حکام، محکموں اور عدالتوں کو منتقل کی جائیں گی، بل نے احتساب عدالتوں کے ججوں کے لیے 3 سال کی مدت بھی مقرر کی ہے، یہ عدالتوں کو ایک سال کے اندر کیس کا فیصلہ کرنے کا پابند بھی بنائے گا۔

مجوزہ قانون کے تحت نیب کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ ملزم کی گرفتاری سے قبل اس کے خلاف شواہد کی دستیابی کو یقینی بنائے، بل میں شامل کی گئی ایک اہم ترمیم کے مطابق یہ ایکٹ قومی احتساب آرڈیننس 1999 کے شروع ہونے اور اس کے بعد سے نافذ سمجھا جائے گا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024