• KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:42pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:00pm Isha 6:25pm
  • ISB: Maghrib 5:00pm Isha 6:28pm

لاہور ہائیکورٹ نے فواد چوہدری کی بازیابی سے متعلق درخواست خارج کردی

شائع January 25, 2023
لاہور ہائی کورٹ میں پیشی سے قبل پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری وکٹری کا نشان بنا رہے ہیں— فوٹو: اے ایف پی
لاہور ہائی کورٹ میں پیشی سے قبل پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری وکٹری کا نشان بنا رہے ہیں— فوٹو: اے ایف پی
— فوٹو: ٹوئٹر/پی ٹی آئی
— فوٹو: ٹوئٹر/پی ٹی آئی
—فوٹو: ڈان نیوز
—فوٹو: ڈان نیوز
— فوٹو: رانا بلال
— فوٹو: رانا بلال
— فوٹو: رانا بلال
— فوٹو: رانا بلال
— فوٹو: پی ٹی آئی / ٹوئٹر
— فوٹو: پی ٹی آئی / ٹوئٹر

لاہور ہائی کورٹ نے پاکستان تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کی بازیابی کے لیے دائر درخواست خارج کردی۔

لاہور ہائی کورٹ کے جسٹس طارق سلیم شیخ نے فواد چوہدری کی بازیابی کے لیے خلاف دائر درخواست خارج کرتے ہوئے کہا کہ انہیں گرفتار کیا گیا اور ریمانڈ کے لیے لاہور کی متعلقہ عدالت میں پیش کیا گیا۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے درخواست گزار سے کہا کہ اگر آپ مقدمے کا اخراج چاہتے ہیں تو اسلام آباد ہائی کورٹ فورم ہے، اگر یہ مقدمہ پنجاب میں ہوتا تو ہم دیکھ سکتے تھے کہ یہ مقدمہ درج بھی ہو سکتا تھا یا نہیں۔

فواد چوہدری کے وکیل نے کہا کہ گرفتاری غیر قانونی ہے لہٰذا عدالت اس گرفتاری کو کالعدم قرار دے، جس پر جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ میرے سامنے آپ کا یہ کیس نہیں ہے۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے کہا کہ میں شام سات، آٹھ بجے تک تو عدالت میں بیٹھ سکتا ہوں لیکن لائن کراس نہیں کر سکتا۔

لاہور ہائی کورٹ نے سماعت مکمل کرتے ہوئے فواد چوہدری کی بازیابی سے متعلق درخواست خارج کر دی۔


اہم پیش رفت

  • فواد چوہدری کو پولیس نے علی الصبح ان کے گھر سے گرفتار کیا۔
  • سیکریٹری الیکشن کمیشن عمر حمید کی شکایت پر اسلام آباد کے کوہسار تھانے میں ’آئینی اداروں کے خلاف شرانگیزی پیدا کرنے کے الزام‘ میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔
  • لاہور کی کینٹ کچہری نے راہداری ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں آج ہی اسلام آباد کی متعلقہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا۔
  • فواد چوہدری نے کہا کہ اگر تنقید بغاوت ہے تو پوری قوم کو بغاوت کرنی چاہیے۔
  • فواد چوہدری کی اہلیہ نے چیف جسٹس سے ازخود نوٹس لینے کا مطالبہ کیا۔
  • لاہور ہائی کورٹ نے فواد چوہدری کی بازیابی سے متعلق درخواست خارج کردی۔

فواد چوہدری کو آج صبح لاہور سے گرفتار کیے جانے کے بعد راہداری ریمانڈ کے لیے لاہور کی کینٹ کچہری میں پیش کیا گیا تھا جہاں پی ٹی آئی رہنما کا راہداری ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں آج ہی اسلام آباد کی متعلقہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا گیا تھا۔

ان کے خلاف الیکشن کمیشن کے اراکین کو دھمکی دینے پر اسلام آباد کے کوہسار تھانے میں عہدیدار الیکشن کمیشن کی جانب سے ایف آئی آر درج کروائی گئی تھی۔

فواد چوہدری کو محکمہ انسداد دہشت گردی اور پولیس کے اہلکار لاہور کی کینٹ کچہری میں لائے جہاں انہیں اسلام آباد منتقل کرنے کے لیے راہداری ریمانڈ کی استدعا کی گئی۔

فواد چوہدری کو ہتھکڑیاں لگا کر عدالت میں پیش کیے جانے پر پی ٹی آئی کے حامی وکلا نے اُن پر گل پاشی کی۔

اس موقع پر فواد چوہدری نے کہا کہ اتنی پولیس لگا دی ہے کہ شاید جیمز بونڈ کو پیش کرنا ہے، ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے دہشت گرد کی کیٹیگری میں رکھا گیا۔

فواد چوہدری کی بازیابی کے لیے لاہور ہائی کورٹ میں درخواست

قبل ازیں فواد چوہدری کی گرفتاری کو لاہور ہائی کورٹ میں چیلنج کیا گیا تھا جہاں عدالت نے فواد چوہدری کو پیش کرنے کا حکم دیا۔

لاہور ہائی کورٹ میں احمد پنسوٹا ایڈووکیٹ کی جانب سے دائر درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ فواد چوہدری کی گرفتاری غیر قانونی ہے، ان کو ایف آئی آر تک نہیں دکھائی گئی۔

درخواست گزار کا کہنا تھا کہ پولیس نے گرفتاری کی وجوہات نہیں بتائیں، فواد چوہدری سپریم کورٹ کے وکیل اور سابق وفاقی وزیر ہیں۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ فواد چوہدری کی گرفتاری کو غیر قانونی اور کالعدم قرار دیا جائے۔

چیف جسٹس لاہور ہائی کورٹ نے مذکورہ درخواست سماعت کے لیے جسٹس طارق سلیم شیخ کو بھجوا دی تھی۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے درخواست پر سماعت کے بعد دوپہر ڈیڑھ بجے تک فواد چوہدری کو لاہور ہائی کورٹ میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

دوپہر 2 بجے سماعت کا آغاز ہوا تو فواد چوہدری کے وکیل اظہر صدیق نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل جواد یعقوب کے مطابق فواد چوہدری کو اسلام آباد لے جایا جارہا ہے۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ میں ابھی اس پوزیشن میں نہیں ہوں کہ بتا سکوں کہ فواد چوہدری کہاں ہیں۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے ریمارکس دیے کہ میں جو حکم دیتا ہوں اس پر عمل درآمد کرواتا ہوں، اگر فواد چوہدری اسلام آباد پہنچ بھی گئے ہیں تو انہیں واپس لائیں اور اس عدالت میں پیش کریں۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ نے کہا کہ عدالتی حکم پر من و عن عمل درآمد ہو گا، مجھے تھوڑا وقت دے دیں۔

بعدازاں لاہور ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت 30 منٹ کے لیے ملتوی کر دی تھی۔

آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد کی طلبی

تحریک انصاف کے رہنما فواد چوہدری کی بازیابی کی درخواست پر سماعت دوبارہ شروع ہوئی تو جسٹس طارق سلیم شیخ نے استفسار کیا کہ فواد چوہدری کدھر ہیں؟ جس پر ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے بتایا کہ فواد چوہدری پنجاب پولیس کی تحویل میں نہیں ہیں۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے ہدایت دی کہ آئی جی پنجاب کو فوری بلائیں، اس پر ایڈوکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا کہ آئی جی پنجاب رحیم یار خان سے لاہور آ رہے ہیں، وہ راستے میں ہیں۔

ایڈووکیٹ جنرل پنجاب نے عدالت کو بتایا تھا کہ فواد چوہدری اسلام آباد پولیس کی تحویل میں ہیں، جس پر لاہور ہائی کورٹ نے آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد کو طلب کر لیا۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے ہدایت جاری کرتے ہوئے کہا کہ آئی جی پنجاب اور آئی جی اسلام آباد آج شام 6 بجے اس عدالت میں پیش ہوں۔

جسٹس طارق سلیم شیخ نے رجسٹرار کو کہا کہ عدالتی حکم سے آئی جیز کو آگاہ کریں۔

اس کے بعد لاہور ہائی کورٹ نے سماعت شام 6 بجے تک ملتوی کر دی تھی اور بعد ازاں سماعت کرتے ہوئے درخواست خارج کردی۔

آئی جی پنجاب اسلام آباد ہائی کورٹ میں پیش

مقدمے کی سماعت جب شام 6 بجے شروع ہوئی تو آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان لاہور ہائی کورٹ میں پیش ہوئے اور تصدیق کی کہ فواد چوہدری پنجاب پولیس کے بجائے اسلام آباد پولیس کی تحویل میں ہیں۔

فواد چوہدری کے وکیل نے نشان دہی کی کہ ان کے مؤکل کو پھر عدالت میں پیش نہیں کیا گیا، یہ بڑی الارمنگ بات ہے کہ عدالت نے حکم دیا لیکن پھر بھی انہیں پیش نہیں کیا گیا، معزز عدالت کے حکم پر عمل درآمد نہ کرنا افسوس ناک ہے۔

آئی جی پنجاب نے کہا کہ میں رحیم یار خان میں تھا جہاں سگنلز کا بہت مسئلہ تھا، جب موبائل سگنل آئے تو فواد چوہدری کو پیش کرنے سے متعلق عدالتی حکم ملا۔

ان کا کہنا تھا کہ عدالت میرا ٹریک ریکارڈ چیک کراسکتی ہے، میری کوشش تھی کہ اسلام آباد پولیس سے رابطہ کر سکوں لیکن میرا ان سے رابطہ نہیں ہو سکا، میرا آپریٹر آئی جی اسلام آباد اور ڈی آئی جی اسلام سے ابھی بھی رابطہ کر رہا ہے۔

عدالت میں اپنے بیان میں آئی جی پنجاب نے کہا کہ میں کسی عدالت کی توہین کا سوچ بھی نہیں سکتا، فواد چوہدری پنجاب پولیس کی تحویل میں نہیں بلکہ اسلام آباد پولیس کی تحویل میں ہیں۔

اس موقع پر ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل جواد یعقوب نے فواد چوہدری کے خلاف درج مقدمے کی کاپی عدالت میں پیش کر دی۔

ایڈیشنل ایڈووکیٹ جنرل نے کہا کہ اس ایف آئی آر کی بنیاد پر اسلام آباد پولیس نے لاہور کے متعلقہ پولیس اسٹیشن سے رابطہ کر کے گرفتاری کی، لاہور کی مقامی عدالت نے راہداری ریمانڈ پر فیصلہ دیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری مغوی نہیں بلکہ ان کے وکلا نے ریمانڈ میں پیش ہو کر بحث کی ہے۔

فواد چوہدری کے وکیل نے کہا کہ ہم چاہتے ہیں کہ مغوی فواد چوہدری کو عدالت میں پیش کیا جائے، میں نے آج تک نہیں دیکھا کہ عدالت چار بار بلائے اور کسی کو پیش نہ کیا جائے۔

انہوں نے الزام عائد کیا کہ اس سارے عمل میں پولیس کی بدنیتی شامل ہے، کوئی تو وجہ ہے کہ فواد چوہدری کو اس عدالت میں پیش نہیں کیا جا رہا۔

ان کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری نے شام 5 بجے تقریر کی اور میڈیا سے بات کرنے پر رات 10 بجے فواد چوہدری کے خلاف مقدمہ درج کیا گیا، اس مقدمے کی تفتیش کب ہوئی، پولیس کے پاس اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔

پی ٹی آئی رہنما کے وکیل نے کہا کہ فواد چوہدری کے خلاف بغاوت کا مقدمہ سیاسی نوعیت کا ہے، پولیس رات کو آئی، انہیں کوئی دہشت گرد تو نہیں پکڑنا تھا۔

جسٹس طارق سلیم نے وکیل سے استفسار کیا کہ آپ اس عدالت سے کیا چاہتے ہیں، آپ کی استدعا کیا ہے۔

وکیل نے جواب دیا کہ ہم چاہتے ہیں عدالتی حکم پر عمل درآمد ہو اور فواد چوہدری کو اس عدالت میں پیش کیا جائے، ہم چاہتے ہیں فواد چوہدری کی گرفتاری غیر قانونی قرار دی جائے۔

عدالت نے وکیل سے استفسار کیا کہ فواد چوہدری کی گرفتاری میں غیر قانونی کیا ہے، انہیں گرفتار کیا گیا اور ریمانڈ کے لیے لاہور کی متعلقہ عدالت میں پیش کیا گیا۔

جسٹس طارق سلیم نے کہا کہ اگر آپ مقدمے کا اخراج چاہتے ہیں تو اسلام آباد ہائی کورٹ فورم ہے، اگر یہ کیس پنجاب میں ہوتا توہم دیکھ سکتے تھے کہ یہ مقدمہ درج بھی ہو سکتا تھا یا نہیں۔

فواد چوہدری کے وکیل نے کہا کہ گرفتاری غیر قانونی ہے لہٰذا عدالت اس گرفتاری کو کالعدم قرار دے۔

جسٹس طارق سلیم نے کہا کہ میرے سامنے آپ کا یہ کیس نہیں ہے، میں شام سات آٹھ بجے تک تو عدالت میں بیٹھ سکتا ہوں لیکن لائن کراس نہیں کر سکتا۔

لاہور ہائی کورٹ نے سماعت کے بعد پی ٹی آئی کی جانب سے فواد چوہدری کی بازیابی سے متعلق دائر کی درخواست خارج کر دی۔

راہداری ریمانڈ کی درخواست پر سماعت

علاوہ ازیں فواد چوہدری کے راہداری ریمانڈ کی درخواست پر لاہور کی مقامی عدالت میں سماعت کا آغاز ہوا تو سابق وزیر اطلاعات نے فاضل جج سے ایف آئی آر کی کاپی فراہم کرنے کی استدعا کی، عدالتی حکم پر پی ٹی آئی رہنما کو مقدمے کی کاپی دے دی گئی۔

دوران سماعت تفتیشی افسر عدالت کے روبرو پیش ہوئے، اس دوران پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر بھی کمرہ عدالت میں پہنچ گئے۔

فواد چوہدری نے عدالت میں بیان دیا کہ جو مقدمہ مجھ پر درج ہوا ہے اس پر فخر ہے، نیلسن منڈیلا پر بھی یہی مقدمہ تھا۔

انہوں نے کہا کہ کہا جارہا ہے میں نے بغاوت کی، میں نے الیکشن کمیشن سے متعلق جو بات کی سارا پاکستان وہی بات کر رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ میں سابق وفاقی وزیر اور سپریم کورٹ کا وکیل ہوں، مجھے عزت و احترام کے ساتھ ٹریٹ کیا جائے، جس طرح گرفتار کیا گیا وہ مناسب نہیں تھا، مجھے یہ فون کرتے میں خود ہی آ جاتا۔

دوران سماعت عدالت نے فواد چوہدری کے میڈیکل کرانے کی ہدایت کردی۔

تحریک انصاف کے وکلا نے فواد چوہدری کی ہتھکڑیاں کھولنے کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری کی حبس بےجا کی درخواست ہائی کورٹ میں زیر التوا ہے، جب تک ہائی کورٹ کا فیصلہ نہیں آجاتا یہ عدالت راہداری ریمانڈ کی درخواست پر سماعت نہ کرے۔

سماعت کچھ دیر کے لیے ملتوی کی گئی جس کے بعد جوڈیشل مجسٹریٹ نے فواد چوہدری کا سروسز ہسپتال سے میڈیکل کرانے کا حکم دے دیا۔

عدالت کی جانب سے حکم دیا گیا کہ میڈیکل کے بعد فواد چوہدری کو آج ہی اسلام آباد کی متعلقہ عدالت میں پیش کیا جائے۔

جوڈیشل مجسٹریٹ کی جانب سے پولیس کی راہداری ریمانڈ کی درخواست نمٹائے جانے کے بعد پولیس حکام فواد چوہدری کو لے کر عدالت سے روانہ ہوگئے۔

آرمی چیف، ڈی جی آئی ایس آئی اور چیف جسٹس نوٹس لیں، فواد چوہدری

فواد چوہدری نے عدالت میں پیشی کے موقع پر میڈیانمائندوں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر، ڈائریکٹر جنرل (ڈی جی) انٹرسروسز انٹیلی جینس (آئی ایس آئی) جنرل ندیم انجم، چیف جسٹس پاکستان تینوں سے میرا بہت احترام کا تعلق ہے، میں ان سے درخواست کرنا چاہتا ہوں کہ وہ نوٹس لیں کہ ملک میں کیا ہو رہا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ کبھی بھی زیادتی کے خلاف بولنا بغاوت نہیں ہے، یہاں لوگوں کے منہ بند کیے جا رہے، لوگوں کو دبایا جا رہا ہے، الیکشن کمیشن پر ہمارے سنگین اعتراضات ہیں، وہ نہیں سنیں گے اور جب اس پر تنقید کریں گے تو اس پر بغاوت کا مقدمہ کیا جائے گا۔

فواد چوہدری نے کہا کہ یہ ملک ہے یا بنانا ری پبلک بن گیا ہے، اس لیے آپ تینوں حضرات سے درخواست ہے کہ اس پر نوٹس لیں۔

’ہتھکڑیاں ہمارا زیور ہیں، آزمائشوں میں پورا اتریں گے‘

سماعت کے بعد پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ پر شیئر کیے گئے ویڈیو پیغام میں فواد چوہدری نے کہا کہ یہ مقدمہ الیکشن کمیشن کے خلاف توہین کے الزام میں درج کرایا گیا ہے، الیکشن کمیشن کا یہ رویہ ہے اور کہتے ہیں کہ تنقید بھی نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ بغاوت کا مقدمہ بنایا گیا ہے، اس ملک میں تو بغاوت فرض ہے، 22 کروڑ عوام سڑکوں پر نکلیں اور بغاوت کریں ورنہ آپ کے بچے بھی اس نظام میں پِس جائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ آج عمران خان اور تحریک انصاف آپ کے حقوق کے لیے کھڑے ہیں، ہم جیل جا رہے ہیں لیکن یہ ہتھکڑیاں تو ہمارے لیے زیور ہیں۔

پی ٹی آئی رہنما کا کہنا تھا کہ ہم ان شا اللہ آزمائشوں میں پورا اتریں گے لیکن یہ عوام کا فرض ہے کہ اس نظام کو بدلنے کے لیے اپنا حصہ ڈالیں۔

فواد چوہدری کی گرفتاری

قبل ازیں پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی جانی والی ٹوئٹ میں کہا گیا تھا کہ ’فواد چوہدری کو درجنوں پولیس، محکمہ انسداد دہشت گردی اور نامعلوم گاڑیوں کے حصار میں کینٹ کچہری کی طرف روانہ کر دیا گیا ہے‘۔

اسلام آباد پولیس کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا تھا کہ ’فواد چوہدری نے آئینی اداروں کے خلاف شرانگیزی پھیلانے اور لوگوں کے جذبات مشتعل کرنے کی کوشش کی ہے، مقدمے پر قانون کے مطابق کارروائی عمل میں لائی جارہی ہے‘۔

ٹوئٹر پر جاری بیان میں اسلام آباد پولیس کا کہنا تھا کہ مقدمہ سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان کی درخواست پر تھانہ کوہسار میں درج کیا گیا ہے، فواد چوہدری نے چیف الیکشن کمشنر اور اراکین کو ان کے فرائض منصبی سے روکنے کے لیے ڈرایا دھمکایا۔

واضح رہے کہ گزشتہ شب چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان کی گرفتاری کے مبینہ حکومتی منصوبے کو ناکام بنانے کے لیے پی ٹی آئی کارکنان عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک کے باہر جمع ہوئے تھے جس کے چند گھنٹوں بعد پی ٹی آئی کی جانب سے فواد چوہدری کی گرفتاری کا دعویٰ سامنے آیا تھا۔

پی ٹی آئی رہنما فرخ حبیب کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے کی جانے والی ٹوئٹ میں یہ دعویٰ سامنے آیا تھا کہ فواد چوہدری کو پولیس نے ان کے گھر سے گرفتار کرلیا ہے۔

انہوں نے لکھا کہ امپورٹڈ حکومت بوکھلاہٹ کا شکار ہوگئی ہے۔

پی ٹی آئی رہنما نے اپنی ایک اور ٹوئٹ میں 2 ویڈیوز بھی شیئر کرتے ہوئے کہا تھا کہ پولیس کی یہ گاڑیاں فواد چوہدری کو گرفتار کرکے لے جا رہی ہیں۔

بعدازاں پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے بھی فواد چوہدری کی گرفتاری کے دعوے کی توثیق کی گئی۔

پی ٹی آئی کی جانب سے کہا گیا کہ فواد چوہدری کو گھر کے باہر سے نامعلوم افراد نے گرفتار کر لیا ہے۔

ایف آئی آر

پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری کے خلاف سیکریٹری الیکشن کمیشن آف پاکستان عمر حمید کی شکایت پر اسلام آباد کے تھانہ کوہسار میں ایف آئی آر درج کی گئی ہے۔

ایف آئی آر میں فواد چوہدری کے ٹی وی انٹرویو کا حوالہ دیتے ہوئے بتایا گیا کہ ’انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کی حیثیت ایک منشی کی ہوگئی ہے، نگران حکومت میں جو لوگ شامل کیے جا رہے ہیں، سزا ہونے تک ان کا پیچھا کریں گے اور حکومت میں شامل لوگوں کو گھر تک چھوڑ کر آئیں گے‘۔

ایف آئی آر کی دستیاب کاپی کے مطابق ’فواد چوہدری نے الیکشن کمیشن کے ارکان اور ان کے خاندان والوں کو بھی ڈرایا دھمکایا‘۔

فواد چوہدری کے خلاف مذکورہ ایف آئی آر پاکستان پینل کوڈ کے سیکشن 153-اے (گروہوں کے درمیان دشمنی کو فروغ دینا)، 506 (مجرمانہ دھمکیاں)، 505 (عوامی فساد کو ہوا دینے والا بیان) اور 124-اے (بغاوت) کے تحت درج کی گئی ہے۔

گرفتاری غیر قانونی ہے، عدالتی جنگ لڑیں گے، فیصل چوہدری

فواد چوہدری کے چھوٹے بھائی فیصل حسین چوہدری نے بھی اپنی ٹوئٹ میں بتایا کہ ان کے بڑے بھائی کو کچھ دیر قبل بغیر نمبر پلیٹ والی گاڑیوں میں نامعلوم افراد نے غیر قانونی طریقے سے لاہور میں واقع گھر سے اٹھالیا ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ ’اغوا کنندگان نے وارنٹ دکھائے نہ اپنی شناخت ظاہر کی‘۔

فیصل چوہدری نے ڈان سے ٹیلی فونک گفتگو کرتے ہوئے بتایا تھا کہ فواد چوہدری کو آج صبح ساڑھے 5 بجے گھر کے باہر سے اٹھایا گیا، 4 بغیر نمبر پلیٹ گاڑیوں میں فواد چوہدری کو لے جایا گیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری کی لوکیشن کیا ہے ہمیں نہیں بتایا جارہا، فواد چوہدری پر کون سی ایف آئی آر ہے ہمیں معلومات نہیں دی جارہی ہیں۔

انہوں نے عدالتی کارروائی کا عندیہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ فواد چوہدری کی گرفتاری غیر قانونی ہے، ہم عدالتی جنگ لڑیں گے۔

یہ گرفتاری نہیں اغوا ہے، اہلیہ فواد چوہدری

فواد چوہدری کی اہلیہ حبہ فواد نے نجی ٹی وی چینل ’ہم نیوز‘ سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ یہ گرفتاری نہیں اغوا ہے، ہمیں کوئی ایف آئی آر نہیں دکھائی گئی، 8 سے 10 پولیس والے گیٹ کھول کر ہمارے گھر کے اندر گھس آئے اور فواد چوہدری کو پکڑ کر لے گئے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں معلوم ہی نہیں کہ فواد چوہدری کو اس وقت کہاں لے جایا گیا ہے، کم از کم ہمیں بتایا جائے کہ انہیں کس قانون کے تحت اٹھایا گیا ہے، ہم سے کسی نے رابطہ نہیں کیا، بس انہیں 4 ڈالوں میں بٹھایا اور ان کا فون قبضے میں لے کر وہ لوگ چلے گئے۔

انہوں نے بتایا کہ ہم نے آئی جی پنجاب سے بھی رابطہ کیا وہاں سے بھی کوئی جواب نہیں آیا، متعلقہ تھانوں سے بھی رجوع کیا لیکن کسی کو معلوم ہی نہیں ہے کہ ان کو کہاں لے کر گئے ہیں۔

فواد چوہدری کی اہلیہ نے مزید کہا کہ یہ سراسر اغوا ہے کہ آپ اپنے گھروں میں بھی محفوظ نہیں ہیں، لوگ آکر آپ کو اٹھا کر لے جاتے ہیں، یہ کس طرح کا ملک اور کس طرح کا قانون ہے۔

انہوں نے کہا کہ اگر ٹارچر کیا گیا تو ہم اس کی سخت مذمت کریں گے، فواد چوہدری کوئی ایسی شخصیت نہیں ہیں جن کو آپ اٹھا کر غائب کردیں اور ہمیں کچھ نہ بتائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ چیف جسٹس، وزیراعظم اور تمام عہدیداران سے میری اپیل ہے کہ ہمیں بتایا جائے کہ فواد چوہدری کو کیوں اٹھایا گیا، انہیں کہاں لے جایا گیا ہے، ورنہ پھر ہماری ایف آئی آر درج کرلیں کہ انہیں اغوا کیا گیا ہے۔

اہلکاروں نے عدالتی احکامات ماننے سے انکار کیا، فرخ حبیب

لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے پی ٹی آئی کے رہنما فرخ حبیب نے کہا کہ یہ حکومت حواس باختہ ہوگئی ہے، الیکشن کمیشن نے جس طرح جانب داری کا مظاہرہ کیا اور زرداری کے بچے کے زیرانتظام جو سیٹ اپ لے کر آئے ہیں اور 25 مئی کے ذمہ داران کو لگا کر یہاں کارروائیاں کی جارہی ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ فواد چوہدری کو صبح ان کے گھر سے اغوا کیا گیا اور لاہور ہائی کورٹ نے 12 بجے پہلا حکم دیا کہ ان کو عدالت کے سامنے پیش کیا جائے لیکن سروسز ہسپتال سے سیدھے ان کو کینٹ کچہری لے کر گئے۔

انہوں نے کہا کہ کینٹ کچہری سے دھرم پورہ، گڑھی شاہو، مغل پورہ اور وہاں سے انٹرچینج کالاشاہ کاکو کے ذریعے اسلام آباد لے کر گئے ہیں، عدالت کے تین حکم نامے آئے کہ 6 بجے ان کو پیش کیا جائے گا۔

فرخ حبیب نے کہا کہ نامعلوم لوگ تھے اور ان کو پنجاب پولیس سیکیورٹی دے رہے تھی، عدالت میں انہوں نے جھوٹ بولا کہ فواد چوہدری کو اسلام آباد پولیس لے کر گئی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اسلام آباد پولیس کی ایک ادھ گاڑی تھی باقی پنجاب پولیس کی ایلیٹ فورس کے جوان ان کے ساتھ تھے اور ان کو میں نے کہا کہ عدالت کے احکامات ہیں کہ فواد چوہدری کو عدالت میں پیش کریں اور اسلام آباد نہیں لے کر جاؤ، یہ غیرقانونی کام اور توہین عدالت کر رہے ہو۔

رہنما پی ٹی آئی کا کہنا تھا کہ پاکستان کے اندر کیا بنیادی انسانی حقوق معطل ہوگئے ہیں، کیا پاکستان میں آئین اور قانون کی حاکمیت ختم ہوگئی ہے، کیا پاکستان کے اندر کوئی اتنا طاقت ور ہے کہ وہ عدالتوں کے احکامات نظر انداز کرکے فواد چوہدری کو اسلام آباد لے کر جاتا ہے۔

انہوں نے کہا کہ میں نے اہلکاروں سے پوچھا تو وہ کہتے ہیں ہم عدالت کے احکامات نہیں مانتے، ہمیں اوپر سے احکامات آرہے ہیں، تو وہ کون ہے جو عدالت سے بھی طاقت ور ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ عدلیہ کے سامنے بہت بڑا سوال کھڑا ہوگیا ہے، چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطابندیال ہمارے لیے بہت قابل احترام ہیں، پورا پاکستان سپریم کورٹ اور عدلیہ کی طرف دیکھ رہا ہے، کب تک انسانی حقوق کی خلاف ورزیاں ہوتی رہیں گی اور جعلی مقدمے بنا کر لوگوں کو یوں پکڑتے رہیں گے۔

انہوں نے کہا کہ کب تک طاقت ور لوگ طاقت کے نشے میں انسانی حقوق سلب کرتے رہیں گے۔

فواد چوہدری کے بھائی کو بھی گرفتار کیا گیا، مسرت چیمہ

پی ٹی آئی پنجاب کی رہنما مسرت چیمہ نے ٹوئٹر پر بیان میں کہا کہ ’فواد چوہدری کے اغوا کے بعد بزدلوں نے فواد چوہدری کے بھائی فراز چوہدری کو بھی گرفتار کر لیا ہے‘۔

مسرت چیمہ نے کہا کہ ’یہ سمجھتے ہیں بھائی کو گرفتار کر کے فواد چوہدری کو دبایا جائے گا تو یہ یاد رکھیں آج سارا پاکستان ہی فواد چوہدری کا بھائی ہے، کس کس کو گرفتار کرو گے‘۔

پی ٹی آئی کا اظہارِ مذمت

سابق وزیر خارجہ اور رہنما پی ٹی آئی شاہ محمود قریشی نے فواد چوہدری کی گرفتاری کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ’فواد چوہدری کی علی الصبح بغیر وارنٹ گرفتاری اس ملک کی جمہوریت اور قانون کی بالادستی پر ایک زوردار طمانچہ ہے۔

انہوں نے سوال کیا کہ ’فواد کا کیا قصور ہے؟ کس جرم کے تحت اٹھایا گیا؟

انہوں نے اپنی ٹوئٹ میں مزید کہا کہ ’خدارا پاکستان کے ساتھ کھلواڑ بند کیا جائے ورنہ حالات کسی کے قابو میں نہیں رہیں گے‘۔

پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر نے لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ فواد چوہدری کو بغیر نمبر پلیٹ ڈالے میں اغوا کیا گیا، یہ بزدلی ہے، فواد کو ایسے حراست میں لیا گیا جیسے دہشت گرد پکڑے جاتے ہیں۔

حماد اظہر نے کہا کہ گزارش ہے بتائیں فواد چوہدری کو کہاں رکھا گیا ہے، متنازع نگران وزیراعلیٰ کو کیا اس مقصد کے لیے لگایا گیا تھا، بتائیں کہ کیا مارشل لا لگ چکا اور اس کا اعلان باقی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اعظم سواتی کو اٹھایا تھا، کیا اس کی آواز دبالی گئی؟ اس ظلم اور بربریت کو ختم کرنا ہوگا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان کی رہائش گاہ کے باہر خیمے نصب کر دیے گئے ہیں، فواد چوہدری کی فوری رہائی نہ ہونے کی صورت میں ہر چوک تحریر چوک بنانے کی وارننگ بھی ہے۔

پی ٹی آئی رہنما علی زیدی نے بھی پارٹی کے سینئر رہنما کی گرفتاری کی شدید مذمت کرتے ہوئے کہا کہ حکومت اس ملک کو انتشار کی طرف دھکیلنے پر تلی ہوئی ہے۔

انہوں نے کہا کہ ’پاکستان ان قانون شکن قانون سازوں اور قانون نافذ کرنے والے کرپٹ افسران کے ہاتھوں لاقانونیت کا شکار ہو گیا ہے‘۔

واضح رہے کہ گزشتہ شب پی ٹی آئی کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے عمران خان کی گرفتاری کے خدشہ کا اظہار کیا گیا تھا۔

ٹوئٹ میں کہا گیا تھا کہ ’اطلاعات ہیں کہ کٹھ پتلی حکومت آج رات چیئرمین عمران خان کو گرفتار کرنے کی کوشش کرے گی‘۔

ٹوئٹ میں مزید بتایا گیا تھا کہ ’تحریک انصاف کے کارکنان اپنے لیڈر کی حفاظت کے لیے زمان پارک پہنچ رہے ہیں‘۔

قبل ازیں گزشتہ شب لاہور میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے فواد چوہدری نے کہا تھا کہ موجودہ حکومت میں الیکشن کمیشن کی حیثیت صرف ایک منشی جیسی ہوگئی ہے، الیکشن کمیشن کو فون کیا جاتا ہے اور الیکشن کمشنر کلرک کی طرح اسی وقت سائن کرکے بھیج دیتا ہے۔

انہوں نے کہا تھا کہ الیکشن کمیشن کو ہدایت دی گئی کہ محسن نقوی نگران وزیر اعلیٰ ہوگا اور وہ محسن نقوی کے نام پر دستخط کر دیتے ہیں، اگر آپ اتنے کمزور ہیں تو گھر جاکر بیٹھیں۔

فواد چوہدری نے کہا تھا کہ آج ہم نے الیکشن کمیشن میں درخواست دی ہے کہ جو لوگ 25 مئی کے واقعات میں ملوث تھے، ان کو پنجاب میں تعینات نہیں کیا جائے، اس کے باوجود وہ یہاں تعینات رہے یا تعینات کیے گئے تو پھر ہم الیکشن کمیشن اور ان کے اراکین، ان کے خاندانوں اور ان لوگوں کو خبردار کرتے ہیں کہ اگر ہمارے ساتھ زیادتیوں کا سلسلہ ہوا تو آپ کو واپس سامنا کرنا پڑے گا۔

ان کا کہنا تھا کہ ان لوگوں کو راتوں رات مائنس عمران خان کا خیال آجاتا ہے، سارے لوگ یہاں کھڑے ہیں، جس جس نے جیلوں میں ڈالنا ہے ڈال دے، بعد میں ہم بھی دیکھ لیں گے۔

فواد چوہدری کے آفیشل ٹوئٹر اکاؤنٹ سے لاہور میں عمران خان کی رہائش گاہ زمان پارک کی ویڈیو بھی شیئر کی گئی تھی جہاں پی ٹی آئی چیئرمین کی گرفتاری کے خدشے کے پیش نظر پارٹی کارکنان کی بڑی تعداد جمع ہوگئی تھی۔

کارٹون

کارٹون : 26 نومبر 2024
کارٹون : 25 نومبر 2024