• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

پاکستان میں افراط زر 33 فیصد تک جاسکتی ہے، ماہر اقتصادیات موڈیز

شائع February 15, 2023
موڈیز نے 2023 میں معاشی ترقی کی شرح 2.1 فیصد کے گرد ہونے کی توقع ظاہر کی ہے — فائل فوٹو:رائٹرز
موڈیز نے 2023 میں معاشی ترقی کی شرح 2.1 فیصد کے گرد ہونے کی توقع ظاہر کی ہے — فائل فوٹو:رائٹرز

موڈیز کی ماہر اقتصایات نے کہا ہے کہ سال 2023 کے ابتدائی 6 ماہ میں پاکستان کی افراط زر 33 فیصد کی بلند ترین سطح تک جانے کا امکان ہے۔

غیر ملکی خبر رساں ایجنسی ’رائٹرز‘ کے مطابق موڈیز سے تعلق رکھنے والی ماہر اقتصادیات کترینا ایل نے کہا کہ پاکستان میں سال 2023 کے ابتدائی 6 ماہ میں مہنگائی اوسط 33 فیصد تک جاسکتی ہے اور صرف عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے قرض سے ملکی معیشت بحال نہیں ہوسکتی۔

کترینا ایل نے ایک انٹرویو میں کہا کہ ’ہمارا خیال ہے کہ آئی ایم ایف بیل آؤٹ ملکی معیشت کو بحال کرنے کے لیے کافی نہیں ہے اور معیشت کو واپس ٹریک پر لانے کے لیے مسلسل اور مضبوط معاشی طریقہ کار کی ضرورت ہے۔‘

انہوں نے کہا کہ آگے بھی ناگزیر سخت حالات کا سامنا ہے اور مالی سال 2024 میں بھی مالیاتی اور معاشی بحران اسی طرح جاری رہنے کا امکان ہے۔

ماہر اقتصادیات نے کہا کہ اگرچہ معیشت گہری کساد بازاری میں ہے جبکہ آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کے لیے سخت شرائط کے باعث افراط زر ناقابل یقین حد تک زیادہ ہے۔

انہوں نے کہا کہ ہمیں جو توقع ہے وہ یہ ہے کہ رواں سال کے ابتدائی 6 ماہ میں افراط زر اوسط 33 فیصد تک بڑھنے کا امکان ہے پھر اس کے بعد تھوڑی کمی کا رجحان ہو سکتا ہے۔

جنوری میں کنزیومر پرائس انڈیکس (سی پی آئی) میں سالانہ 27.5 فیصد کا اضافہ ہوا ہے جو کہ اس نصف صدی میں اپنی بلند ترین سطح پر ہے۔

بلند افراط زر کے نتیجے میں کم آمدنی والے گھرانے شدید دباؤ کا شکار رہیں گے۔

کترینا ایل کا کہنا تھا کہ اشیا کی قیمتیں اپنی بلند ترین سطح پر ہیں اور کم آمدنی والے گھرانے یہ قیمت ادا کرنے سے گریز نہیں کر سکتے، لہٰذا ہم غربت کی بلند ترین شرح کا سامنا کرنے کے ساتھ ساتھ مہنگی خوراک لینے پر بھی مجبور ہوں گے۔

’راتوں رات کچھ ٹھیک نہیں ہوگا‘

انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کے پاس جانے سے قبل بھی پاکستان کا کوئی اچھا ٹریک ریکارڈ نہیں تھا، لہٰذا اس لیے صرف اضافی فنڈز جمع کرنا بہت کم فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی بہتری کا انتظار ہے تو یہ بہت بتدریج ہوگی کیونکہ راتوں رات کچھ ٹھیک نہیں ہوگا۔

ماہر اقتصادیات نے کہا کہ مقامی کرنسی کمزور ہونے سے درآمد شدہ اشیا کی قیمتوں میں اضافہ ہو رہا ہے جبکہ ٹیرف میں اضافے کی پشت پر مقامی سطح پر توانائی کی لاگت میں اضافہ اور ابھی تک خوراک کی بڑھتی ہوئی قیمتوں سے مہنگائی کی سطح بلند رہنے کا امکان ہے۔

موڈیز نے 2023 میں معاشی ترقی کی شرح 2.1 فیصد کے گرد ہونے کی توقع ظاہر کی ہے۔

کترینا ایل نے امکان ظاہر کیا کہ ممکن ہے کہ پاکستان میں مہنگائی کو مستحکم کرنے کی کوشش میں مزید مالیاتی سختی کا سامنا ہو اور زرمبادلہ کے ذخائر میں کمی کے ساتھ کسی قسم کی مداخلت کر کے استحکام کی کوشش کی جاسکتی ہے، لیکن اس سے بھی کوئی مثبت نتائج نہیں نکلیں گے۔

گزشتہ ماہ اسٹیٹ بینک پاکستان نے مہنگائی پر قابو پانے کی کوشش میں شرح سود میں اضافہ کرکے 16 سے 17 فیصد کردیا تھا، جبکہ بینک نے جنوری 2022 سے شرح سود میں 725 بیسس پوائنٹس کا اضافہ کیا ہے۔

کترینا ایل نے کہا کہ اہم کساد بازاری کے شرائط کے ساتھ آسمان کو چھونی والی بڑھتی ہوئی قیمتیں مقامی سطح پر طلب میں اضافہ کر سکتی ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ’آپ (پاکستان) کو حقیقت میں مستحکم میکرو اکنامک مینجمنٹ پر غور کرنے کی ضرورت ہے، اور صرف معقول معاونت کے بغیر مزید فنڈز لانے سے وہ نتائج حاصل نہیں ہوں گے جن کی آپ تلاش میں ہیں۔‘

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے آئی ایم ایف کا وفد پروگرام کی بحالی پر مذاکرات کے لیے اسلام آباد پہنچا تھا لیکن مذاکرات غیرنتیجہ خیز اختتام پر پہنچے، تاہم 10 دن کے بعد یعنی رواں ہفتے آنلائن مذاکرات ہونے کا امکان ہے کیونکہ پاکستان کو معاشی بحران سے نکلنے کے لیے فنڈز کی شدید ضرورت ہے۔

آئی ایم ایف سے نویں جائزے پر اتفاق کے بعد پروگرام کی بحالی سے پاکستان کو 2.5 ارب ڈالر کے پیکج میں سے 1.1 ارب ڈالر کی قسط جاری ہونے کا امکان ہے جس کا معاہدہ جون 2019 میں ہوا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024