آئی ایم ایف کی شرائط پر منی بجٹ پیش، جنرل سیلز ٹیکس 18 فیصد کرنے کی تجویز
وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے عالمی مالیاتی ادارہ (آئی ایم ایف) کی شرائط پر منی بجٹ پیش کردیا، جس میں جنرل سیلز ٹیکس 18 فیصد اور لگژری آئٹمز پر سیلز ٹیکس 17 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کی تجویز دی گئی ہے تاہم بنیادی اشیائے ضروریہ پر اس کا اطلاق نہیں ہوگا۔
وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے قومی اسمبلی اور سینیٹ دونوں ایوانون میں منی بجٹ پیش کیا اور قومی اسمبلی میں بجٹ تقریر کے دوران انہوں نے کہا کہ فنانس سپلیمنٹری بل 2023 کو متعارف کرا رہا ہوں جس میں مزید ٹیکسز عائد کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ اس سے قبل کہ میں فنانس سپلیمنٹری بل پر اس ایوان کو اعتماد میں لوں، میں آپ کی اجازت سے ماضی قریب کی معاشی تاریخ کا ایک مختصر جائزہ پیش کرنا چاہتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے پانچ سالہ دور میں مجموعی قومی پیداوار کے حجم میں 112 ارب ڈالر کا اضافہ ہوا جبکہ پی ٹی آئی کے چار سالہ دور حکومت میں ناقص معاشی پالیسیوں کے نتیجے میں جی ڈی پی میں صرف 26 ارب ڈالر کا اضافہ ہو سکا۔
اہم نکات
- سگریٹ اور مشروبات پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافہ
- لگژری آئٹم پر جی ایس ٹی کی شرح 17 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کرنے کا فیصلہ
- سیمنٹ پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں ڈیڑھ سے 2 روپے فی کلوگرام اضافہ
- جنرل سیلز ٹیکس 17 فیصد سے 18 فیصد کردیا گیا
- بینظیر انکم سپورٹ پروگرام (بی آئی ایس پی) کا فنڈ 360 ارب سے بڑھا کر 400 ارب روپے کردیا گیا
- شادی کی تقریبات کے بلوں پر 10 فیصد کی شرح سے ودہولڈنگ ایڈجسٹیبل ایڈوانس انکم ٹیکس کا نفاذ
اسحٰق ڈار نے کہا کہ جب 2013 میں میاں نواز شریف کی وزارت عظمیٰ میں حکومت کی باگ ڈور سنبھالی تو پاکستان میں فی کس آمدنی 1389 ڈالر تھی، اس میں مضبوط معاشی پالیسیوں اور ہمارے قائد نواز شریف کے وژن کی بدولت یہ 379 ڈالر کے واضح اضافے کے ساتھ 1768 ڈالر تک پہنچ گئی۔
ان کا کہنا تھا کہ آنے والی حکومت اپنے سطحی قسم کے اقدامات کی وجہ سے چار سال کے عرصے میں فی کس آمدن میں صرف 30 ڈالر کا اضافہ کر کے اس آمدنی کو 1798 ڈالر تک لے جا سکی۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ پاکستان اسٹاک ایکسچینج کی 2018 میں مارکیٹ کیپیٹلائزیشن 100 ارب ڈالر کے قریب تھی اور پاکستان پر سرمایہ داروں کے اعتماد کو ظاہر کرتی تھی، اس کو پی ٹی آئی کی حکومت نے 26 ارب ڈالر پر لا کر کھڑا کیا، یہ سرمایہ داروں کے پی ٹی آئی حکومت پر عدم اعتماد کو ظاہر کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ مسلم لیگ (ن) ملکی قرضوں میں ہمیشہ کم سے کم اضافے کی کوشش کرتی ہے لیکن 2018 میں پی ٹی آئی حکومت آئی تو 1947 سے اس سال تک پاکستان کے مجموعی قرضوں کا حجم 24ہ زار 953 ارب تھا جو پی ٹی آئی کے چار سالہ دور حکومت میں بڑھ کر 44 ہزار 383ارب ہو گیا، یہ قرضوں کا حجم جو 2018 میں جی ڈی پی کا 63.7 فیصد تھا، وہ بڑھ کر 2022 میں 73.5 فیصد ہو گیا، اس کے نتیجے میں ہماری سالانہ قرضوں کی سروسنگ بدقسمتی سے پانچ ہزار ارب روپے سے تجاوز کر جائے گی۔
انہوں نے کہا کہ 2013 سے 2018 کے دوران پائیدار بلند شرح نمو کے نتیجے میں پاکستان کی معیشت دنیا میں 24ویں نمبر پر آگئی تھی، دنیا کے معتبر ادارے پاکستان کی ترقی کے معترف تھے، جاپان کے معروف ادارے جیٹرو نے براہ راست سرمایہ کاری کے حوالے سے پاکستان کو دوسرا پسندیدہ ملک قرار دیا تھا۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ اسی طرح پاکستان اسٹاک ایکسچینج جنوبی ایشیا میں نمبر ایک پر تھی، 18-2017 میں معیشت کی شرح نمو چھ فیصد سے تجاوز کر چکی تھی، افراط زر کی شرح 5 فیصد تھی، کھانے پینے کی اشیا کی مہنگائی صرف اوسطاً دو فیصد تھی، ان حالات میں اس ملک میں اچانک ایک غیر سیاسی تبدیلی لائی گئی جس نے ایک کامیاب اور بھرپور مینڈیٹ کی حامل حکومت کو اپاہج کر کے رکھ دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ 2018 کے الیکشن میں ایک سلیکٹڈ حکومت وجود میں آئی، اس سلیکٹڈ حکومت کی معاشی ناکامیوں پر میں اتنا ہی کہنا کافی سمجھوں گا کہ جو ملک دنیا کی 24ویں معیشت بن چکا تھا وہ 2022 میں گر کر دنیا کی 47ویں معیشت بن گیا، یہ چار سالہ کارکردگی کا نچوڑ تھا، یہ اس وقت کیا گیا جب یہ کہا جا رہا تھا کہ پاکستان چند سال بعد جی20 ممالک کی فہرست میں شامل ہوگا، چاہے جو بھی جمہوری تبدیلی آتی لیکن کاش کہ ہم اسی ترقی کی شرح کو آگے لے کر جاتے تو آج ہم جی20 میں شامل ہونے کے قریب ہوتے لیکن بدقسمتی سے 2022 میں ہم دنیا کی 47ویں معیشت بن چکے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ میں اس معزز ایوان کے توسط سے مطالبہ کرتا ہوں کہ اس معاشی تنزلی کی وجوہات جاننے کے لیے ایک قومی کمیشن تشکیل دیا جائے جو اس بات کا تعین کرے کہ ملکی مفاد کے خلاف یہ سازش کیسے اور کس نے کی اور جس کے نتیجے میں آج ہماری پوری قوم بھاری قیمت ادا کر رہی ہے۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ موجودہ حکومت کو ایک بیمار معیشت ملی، پچھلے سال جب حکومت میں تبدیلی آئی تو مالیاتی خسارہ موجودہ دور کی بلند ترین شرح 7.9 فیصد پر تھا، بیرون ادائیگیوں کا خسارہ 17.4 ارب ڈالر اور تجارتی خسارہ 40 ارب ڈالر تک پہنچ چکا تھا، معیشت تباہی کے دہانے پر تھی، ہم نے 2018 تک معیشت کو مضبوط معاشی بنیادوں پر کھڑا کیا تھا لیکن ہمارے پیشرو نے اسے برباد کرکے رکھ دیا۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو آئے ابھی چند ماہ ہی گزرے تھے اور معیشت کو سنبھالا دیا جا رہا تھا کہ تاریخی سیلاب کی ناگہانی آفت نے پوری قوم کو اپنی لپیٹ میں لے لیا، اس کی شدت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سیلاب سے 3 کروڑ 30 لاکھ افراد متاثر ہوئے جس میں سے بیشتر بے گھر ہوئے اور ہمارے 1730 بہن بھائی اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ اس قدرتی آفت سے ورلڈ بینک، ایشیائی ترقیاتی بینک، یورپی یونین، اقوام متحدہ کی تنظیموں اور وزارت منصوبہ بندی کی جانب سے لگائے گئے تخمینے کے مطابق پاکستان کو ان سیلابوں سے 8 ہزار ارب روپے سے زیادہ کا نقصان ہوا، پاکستان کی جانب سے کاربن کا اخراج ایک فیصد سے کم ہے اور پاکستان اس وقت موسمیاتی تبدیلی کے حوالے سے دنیا کا آٹھواں سب سے زیادہ متاثرہ ملک ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس سیلاب کی وجہ سے متاثرہ علاقوں میں بیماریاں پھوٹ پڑیں، کھڑی فصلیں تباہ ہو گئیں خصوصاً کپاس کی قیمتی فصل کا بڑے پیمانے پر نقصان ہوا، قلیل مالی وسائل کے باوجود موجودہ حکومت نے 100 ارب روپے فوری ریلیف اور بحالی پر خرچ کیے، 300 ارب سے زائد کے وسائل ازسرنو تعمیرات کے لیے موجودہ مالی سال میں وسائل مختص کیے گئے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ عمران خان حکومت نے 2019 میں آئی ایم ایف سے ایک معاہدہ کیا تھا، جن لوگوں نے وہ معاہدہ نہیں پڑھا وہ ایک مرتبہ اسے ضرور پڑھیں، اس معاہدے نے آج کے حالات میں جلتی پر تیل کا کام کیا ہے، یہ ایک حکومت کا نہیں بلکہ ریاست کا معاہدہ ہوتا ہے اور ستم ظریقی یہ کہ عمران خان حکومت نے اپنے ہی کیے ہوئے معاہدے سے انحراف کیا، جب تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی تو معاہدے کے کلیدی نکات کے برعکس انہوں نے فیصلے کر دیے اور اس کو ماننے سے انکار کردیا، اس کے نتیجے میں آئی ایم ایف کا معاہدہ تعطل کا شکار ہوا اور آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان بھروسے کے حوالے سے ایک وسیع خلیج آگئی۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ ایک حکومت نہیں بلکہ ریاست کا معاہدہ ہوتا ہے اور اسی کی روح پر عمل کرتے ہوئے ہماری حکومت نے عمران خان حکومت کی جانب سے کیے گئے معاہدے کو من و عن تسلیم کیا، ناصرف اس معاہدے کو بحال کروایا بلکہ اس بات سے قطع نظر اس معاہدے پر عملدرآمد بھی یقینی بنایا کہ اس سے ان کو کتنا سیاسی نقصان اٹھانا پڑے گا، آج تمام سیاسی جماعتوں کو اس وجہ سے عوامی سطح پر بے پناہ نقصان ہوا لیکن ہمیں اس بات پر پختہ یقین ہونا چاہیے کہ ریاست کو سیاست پر فوقیت ہونی چاہیے، اگر ریاست ہے تو سیاست ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ اسی پس منظر میں آئی ایم ایف کا نواں مشن پاکستان آیا اور اس سے ہماری معاشی ٹیم کے 31 جنوری سے 9 فروری تک 10 دن مذاکرات ہوئے، اس کے نتیجے میں ایک مفاہمت ہوئی اور ہم نے مختلف معاملات پر مزید عملدرآمد کرنے کا عندیہ دیا، ان معاملات میں سب سے اہم نکتہ اضافی 170 ارب روپے کے محصولات کی وصولی کا ہے۔
انہوں نے کہا کہ آئی ایم ایف کی ٹیم نے اس بات پر اطمینان کا اظہار کیا کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) اس مالی سال کے اہداف پورے کرے گا، ان اضافی محصولات کا حکومت کی مالی کارکردگی سے کوئی تعلق نہیں ہے، پاکستان میں بجلی کے گردشی قرضوں کا دیرینہ بحران کئی سالوں سے چل رہا ہے لیکن اس کا حجم بڑھتا جارہا ہے، بجلی کی چوری، لائن لاسز، بلوں کی عدم ادائیگی کے نتیجے میں 3 ہزار ارب روپے کے لگ بھگ بجلی کے بلوں کے عوض صرف 1600 ارب وصول کیا جاتا ہے اور باقی 1400 ارب سالانہ نقصان ہے، یہ کسی بھی معیشت کے لیے لمحہ فکریہ ہے، اس قسم کے نقصان کی کوئی بھی ریاست متحمل نہیں ہو سکتی۔
اسحٰق ڈار کا کہنا تھا کہ 2013 سے 2018 کے دوران ہماری پچھلی حکومت نے اس سنگین معاملے کو سنبھالنے کی بھرپور کوشش کی اور اس کے نتیجے میں گردشی قرضوں کے بڑھنے کی رفتار میں خاطر خواہ کمی آئی، شومئی قسمت کہ پچھلی حکومت نے اس مسئلے پر بھی کوئی توجہ نہیں دی اور ان کی نااہلی کے سبب چار سالہ حکومت کے دوران گردشی قرضہ 2018 میں 1148 ارب سے بڑھ کر 2467 ارب روپے تک پہنچ چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ بجلی کے شعبے میں اصلاحات ہمارے اپنے معاشی مستقبل کے لیے کلیدی حیثیت رکھتی ہے، اس دگرگوں صورتحال سے نمٹنے کے لیے لازم ہے کہ ہم چند مشکل فیصلے کریں جو آج ہمیں گراں معلوم ہوتے ہیں لیکن بجلی کے شعبے کی اصلاح اور معاشی استحکام کے لیے انتہائی ناگزیر ہیں، اس تناظر میں عالمی مالیاتی اداروں نے بھی اس شعبے کی اصلاحات کو یقینی بنانے پر بہت زور دیا ہے، حکومت نے جن اصلاحات کا فیصلہ کیا ہے اس کے نتیجے میں اس سال شامل ہونے والے 855 ارب روپے کے گردشی قرضوں کو کم کر کے 336ارب روپے کیا گیا ، یہ ہمارا نیا ہدف ہے کیونکہ 570 ارب روپے اس معزز ایوان نے بجٹ میں منظور کیے ہوئے ہیں، یہ اس کے علاوہ ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے علاوہ باقی ماندہ فرق کو پورا کرنے کے لیے بجٹ سے رقم مختص کی جائے گی جس کی وجہ سے بجٹ میں آنے والے مزید خسارے کے کچھ حصے کو نئے محصولات سے حاصل کیا جائے گا، لہٰذا اس فنانس بل کے ذریعے کابینہ نے 170 ارب روپے کے اضافی ٹیکس لگانے کی منظوری دی ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ صرف ایسے ٹیکس لگائے جائیں جس کا براہ راست غریب اور متوسط طبقے پر کم سے کم بوجھ آئے اس لیے روزمرہ کی اشیا پر اضافی ٹیکس عائد نہیں کیا گیا، اس تناظر میں اس معزز ایوان میں مندرجہ ذیل ٹیکس تجاویز پیش کی جارہی ہیں۔
وزیر خزانہ نے تجاویز پیش کرتے ہوئے کہا کہ حکومت نے امیر طبقے پر اضافی ٹیکس لگانے کی حکمت عملی کے تحت اب لگژری آئٹمز پر جی ایس ٹی کی شرح کو 17 فیصد سے بڑھا کر 25 فیصد کی بلند سطح پر لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ اسی طرح ہوائی سفر میں فرسٹ کلاس اور بزنس کلاس میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی ٹکٹ کا 20 فیصد یا 50 ہزار روپے میں سے جو بھی زیادہ ہو، وہ عائد کی جائے گی، اس طرح پرتعیش شادی ہالز میں منعقدہ شادی بیاہ میں اصراف دیکھنے کو ملتا ہے لیکن ہم سب کو سادگی اپنانی چاہیے اس لیے فیصلہ کیا گیا ہے کہ شادی کی تقریبات کے بلوں پر 10 فیصد کی شرح سے ودہولڈنگ ایڈجسٹیبل ایڈوانس انکم ٹیکس نافذ کیا جائے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ عالمی ادارہ صحت نے چند ایسی اشیا کی قیمتیں بڑھانے کی سفارش کی ہے جو انسانی صحت کے لیے مضر ہیں، اس لیے سگریٹ، ایریٹڈ، شوگری ڈرنکس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی کی شرح میں اضافہ تجویز کیا جارہا ہے، یہ ڈیڑھ روپے فی کلو گرام تھی اور اسے بڑھا کر 2 روپے فی کلو گرام کرنے کی تجویز ہے، کووڈ سے پہلے بھی یہ دو روپے فی کلو گرام ہی تھی لیکن کووڈ کے دوران اسے کم کیا گیا تھا۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ جی ایس ٹی کی شرح کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کیا جا رہا ہے، اضافی محصولات عائد کرتے ہوئے ہم نے کوشش کی ہے کہ عام استعمال کی اشیا مثلاً گندم، چاول، دودھ، دالیں، سبزیاں، پھل ، مچھلی، انڈوں، کھلے گوشت اور مرغی پر یہ اضافی ٹیکس عائد نہ کیا جائے۔
انہوں نے کہا کہ موجودہ حکومت کو اس بات کا احساس ہے کہ مہنگائی نے ہمارے غریب بہن بھائیوں کی مشکلات میں اضافہ کیا ہے، اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے حکومت نے فیصلہ کیا ہے کہ بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام سے مستفید ہونے والے افراد کے ماہانہ وظیفے میں اضافہ کیا جائے اور اس کے لیے 40 ارب روپے مزید مختص کیے جارہے ہیں، یعنی ایوان کی جانب سے مختص 360 ارب روپے کو بڑھا کر 400 ارب روپے کیا جارہا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم پاکستان شہباز شریف نے فیصلہ کیا ہے کہ وہ اور ان کی کابینہ سادگی اپنائے گی اور عوام کو ایسا کرنے کی تلقین کرے گی، اس سلسلے میں وزیر اعظم عنقریب قوم کو اعتماد میں لیں گے۔
انہوں نے معیشت میں استحکام لانے کے لیے لائی جانے والی اصلاحات کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ابتدا میں معیشت کی رفتار سست ہو گی لیکن رفتہ رفتہ پیداوار میں اضافہ ہو گا ، زراعت، انڈسٹری اور انفارمیشن ٹیکنالوجی میں ترقی کے ذریعے جی ڈی پی کی شرح نمو کو اگلے مالی سال میں 4 فیصد سے دوبارہ اوپر لے کر جائیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ پاکستان کی معیشت دو بڑے مسائل سے دوچار ہے، ایک مالی خسارہ اور دوسرا کرنٹ اکاؤنٹ خسارہ ہے، ہم ان دونوں خساروں کو کم کرنے کے پروگرام پر عمل پیرا ہیں، آئی ایم ایف پروگرام کے ذریعے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر میں اضافہ ہو گا، روپیہ مستحکم ہو گا اور درآمدات اور ترسیلات زر میں بھی بہتری آئے گی اور ایل سی نہ کھلنے کے مسائل بھی دور ہوں گے۔
وفاقی وزیر نے کہا کہ ہماری ملکی برآمدات کا بڑا حصہ برآمدی خام مال پر منحصر ہے، ایل سی کے معاملے میں آسانی سے برآمدات میں بھی اضافہ ہوگا، جہاں مالی خسارے کا تعلق ہے کہ تو یہ امر تسلی بخش ہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریونیو اس سال اپنے محصولات کے ہدف کو احسن طریقے سے پورا کرے گا۔
انہوں نے کہا کہ مختلف شعبوں میں بھی اصلاحات پر کام کیا جارہا ہے، زراعت کم سے کم عرصے میں معیشت پر صحت مند اثرات مرتب کر سکتی ہے، اس سلسلے میں وزیراعظم شہباز شریف نے تقریباً 2 ہزار ارب روپے کے کسان پیکج کا حال ہی میں اعلان کیا ہے جس کے اہم خدوخال یہ ہیں کہ اس سال مالی سال میں اسٹیٹ بینک نے زرعی قرضوں کا ہدف 1819 ارب مقرر کیا ہے اور اس میں 400 ارب کا اضافہ کیا گیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ وزیر اعظم نے یوتھ بزنس اینڈ ایگریکلچرل لون اسکیم کے تحت آسان شرائط پر قرضوں کی اسکیم کی منظوری دی ہے جس کے تحت اس سال 30 ارب روپے کے قرضہ جات فراہم کیے جائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ زرعی مشینری کی فراہمی کے لیے 6.4 ارب روپے کی سبسڈی مختص کی گئی ہے ، اس اسکیم کے تحت کسانوں کو ٹریکٹر، تھریشر اور ہارویسٹرز کے آسان قرضے کم شرح پر مہیا کیے جائیں گے۔
اسحٰق ڈار نے کہا کہ کھاد اور یوریا کے ساتھ ڈی اے پی بہت اہم ہے، اس کی قیمتوں میں کمی کی گئی ہے اور درآمد کی جانے والی ڈی اے پی کو فکس رقم پر فراہم کیا جا رہا ہے۔
انہوں نے کہا کہ درآمد کردہ یوریا کو کسانوں کے لیے قابل خرید بنانے کے لیے 30 ارب روپے کی سبسڈی دی جائے گی جبکہ زراعت سے منسلک چھوٹے اور درمیانی کاروباروں کو سہل بنانے کے لیے 10 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ پانچ سال تک پرانے ٹریکٹرز کی درآمد کی اجازت بھی کسٹم ڈیوٹی کی رعایتی شرح پر دے دی گئی ہے، پہلے اس کی اجازت نہیں تھی جبکہ سولر انرجی سے ٹیوب ویل لگانے کے لیے رعایتی شرح پر قرضے دینے کا بھی فیصلہ کیا ہے، رواں مالی سال میں 75 ہزار ٹیوب ویل لگانے کا ہدف رکھا گیا ہے تاکہ وہ بجلی کے بجائے سولر پر ٹیوب ویل چلائیں۔
مسلم لیگ (ن) کے رہنما نے کہا کہ دنیا میں چوتھا صنعتی انقلاب برپا ہو چکا ہے اور انہی عوامل کو مدنظر رکھتے ہوئے آئی ٹی اور آئی ٹی کی حامل سروسز کے لیے خصوصی مراعات کا اعلان کیا گیا ہے جس سے اس شعبے کی مشکلات حل ہوں گی اور اس شعبے سے منسلک افراد اپنے نجی یا کمپنی کے اکاؤنٹ میں اپنی وصول ہونے والی غیرملکی کرنسی میں سے 35 فیصد تک اپنے اکاؤنٹ میں رکھنے کے مجاز ہوں گے۔
انہوں نے آئی ٹی کے شعبے کے ٹیکس کے معاملات کو خوش اسلوبی سے طے کرنے کے لیے لاہور، اسلام آباد اور کراچی میں انکم ٹیکس کے مخصوص دفاتر قائم کردیے ہیں اور ہمیں امید ہے کہ ان اقدامات کی بدولت آئی ٹی کا شعبہ ملکی ترقی میں ہراول دستے کا کردار ادا کرے گا، حکومت نے رواں مالی سال میں آئی ٹی کی ترسیلات کا ہدف چار ارب ڈالر رکھا ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں نے کہا تھا کہ ملک میں نیشنل اکنامک ایجنڈے کی ضرورت ہے، ہمیں مل کر ایک قومی معاشی ایجنڈے کو مرتب کرنا چاہیے، چاہے کوئی بھی حکومت آئے ہمیں اس پر یکجا ہو کر عمل کرنا چاہیے لیکن چارٹر پر کوئی تبدیلی نہیں آنی چاہیے البتہ میں اس پر اپنا ہدف حاصل نہیں کر سکا۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بات سے قطع نظر کہ کس جماعت کی حکومت ہے، ریاست اس راہ پر گامزن ہے جو ایک مستقبل کے روڈمیپ کا تعین کرے، آج سب سے زیادہ ضرورت ہے کہ ہم ایک ہو کر ایک روڈمیپ کا تعین کریں کہ پاکستان کو ہمیں کس طرف لے کر جانا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ میں سب کو دعوت دیتا ہوں کہ سب مل کر بیٹھیں ، ملک کے معاشی مستقبل کے بارے میں ایک قومی سوچ اپنائیں تو مجھے قوی امید ہے کہ ان اقدامات کی تکمیل میں ہمیں ریاست کے تمام اداروں کی مکمل حمایت حاصل رہے گی۔
اسحٰق ڈار نے امید ظاہر کی کہ ان اقدامات کی بنا پر ہماری معیشت بہتر ہو گی اور ہم جلد دوبارہ ترقی کی راہ پر گامزن ہوں گے، ہمیں پاکستان کو دوبارہ ترقی کی راہ پر واپس لے کر جانا ہے اور ہم اکٹھے ہو کر کام کرتے ہیں تو مجھے کوئی مشکل نظر نہیں آتی ہے، ہم ان شااللہ اسی ترقی کی راہ پر گامزن ہو گا اور پاکستان خوشحال ہو گا۔
واضح رہے کہ گزشتہ روز صدر مملکت کی جانب سے آرڈیننس جاری کرنے سے ’انکار‘ کے فوری بعد وفاقی کابینہ کا اجلاس ہوا جس میں ٹیکس ترمیمی بل، فنانس بل 2023 کی منظوری دی گئی تھی۔
ابتدا میں حکومت نے ایک کھرب 70 ارب روپے کے فنڈز اکٹھے کرنے کے لیے ’ٹیکس اور نان ٹیکس اقدامات‘ متعارف کرانے کا منصوبہ بنایا تھا۔
تاہم آخری لمحات میں اس نے نان ٹیکس اقدامات بالخصوص ایک کھرب روپے اکٹھے کرنے کے لیے فلڈ لیوی کی تجویز چھوڑنے کا فیصلہ کیا۔
رات گئے ہونے والی پیش رفت میں فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) نے مقامی سطح پر تیار ہونے والی سگریٹس پر فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی بڑھانے کے لیے ایس آر او 178 جاری کیا جس سے تمباکو کی مصنوعات پر عائد ٹیکس سے 60 ارب روپے اکٹھے ہوں گے۔
اس کے علاوہ حکومت جنرل سیلز ٹیکس کو 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے سے مزید 55 ارب روپے حاصل کرے گی۔
اس کے علاوہ بقیہ 55 ارب روپے ہوائی جہاز کے ٹکٹس، چینی کے مشروبات پر ایکسائز ڈیوٹی بڑھا کر اور ودہولڈنگ ٹیکس کی شرح میں اضافہ کر کے اکٹھے کیے جائیں گے۔
سینیٹ میں منی بجٹ پیش
وزیرخزانہ اسحٰق ڈار قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کرنے کے بعد سینیٹ میں پہنچے اور بل پیش کیا۔
چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کی زیر صدارت ایوان کا اجلاس آگے نہیں بڑھ سکا جہاں اپوزیشن اراکین نے شدید نعرے بازی کی اور چیئرمین کی ڈائس کا گھیراؤ کیا۔
اپوزیشن کے احتجاج کے دوران وزیرخزانہ اسحٰق ڈار نے بل پیش کردیا۔
اس دوران اپوزیشن اراکین ’امپورٹڈ حکومت نامنظور، پی ڈی ایم حکومت نامنظور‘ کے نعرے لگا رہے تھے۔
چیئرمین صادق سنجرانی نے کہا کہ ’اراکین منی بل پر سفارشات کے لیے تجاویز جمعرات 16 فروری 2023 تک سینیٹ سیکریٹریٹ میں جمع کراسکتے ہیں‘۔
انہوں نے کہا کہ ’سفارشات مذکورہ بل سےمتعلق ہونی چاہیئں، بل سے غیرمتعلقہ سفارشات آئین کے آرٹیکل 73 کے ذمرے میں آئیں گے اور ناقابل قبول ہوں گی‘۔
ان کا کہنا تھا کہ منی بل پر سفارشات کے لیے موصول تجاویز سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے فنانس اور ریونیو کو بھیج دی جائیں گی جو اپنی رپورٹ 17 فروری 2023 کو پیش کرے گی۔
چیئرمین سینیٹ نے کہا کہ جمعے کو سینیٹ میں کمیٹی کی رپورٹ کا جائزہ لیا جائے اور قومی اسمبلی کے لیے تجاویز دی جائیں گے۔
سینیٹ کا بل جمعے کو 10:30 بجے تک ملتوی کردیا گیا۔