’بادی النظر میں غلام محمود ڈوگر کا تبادلہ سپریم کورٹ کے 2 دسمبر کے حکم کی خلاف ورزی ہے‘
سپریم کورٹ نے کیپٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) لاہور غلام محمود ڈوگر کے تبادلے سے متعلق کیس کے حکم نامے میں کہا ہے کہ بادی النظر میں غلام محمود ڈوگر کا تبادلہ سپریم کورٹ کے 2 دسمبر کے حکم کی خلاف ورزی ہے۔
سی پی او غلام محمود ڈوگر تبادلہ کیس کی سماعت عدالت عظمیٰ کے جسٹس اعجاز الاحسن کی سربراہی میں جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس منیب اختر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے کی تھی۔
عدالت نے اپنے تحریری حکمنامے میں لکھا ہے کہ حقائق کے جائزے کے بعد واضح ہے کہ غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کی منظوری زبانی طور پر حاصل کی گئی اور زبانی منظوری کے بعد تحریری طور پر الیکشن کمیشن سے اجازت حاصل کی گئی تھی۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ غلام محمود ڈوگر کا کیس پہلے سے سپریم کورٹ میں زیر سماعت تھا، ایسے میں غلام محمود ڈوگر کے تبادلے کے لیے دیا گیا 23 جنوری کا حکم برقرار نہیں رکھا جاسکتا لہٰذا اسے معطل کیا جاتا ہے۔
عدالتی حکم نامے میں مزید کہا گیا کہ غلام محمود ڈوگر کے کیس کی آئندہ سماعت پولیس ٹرانسفر اور پوسٹنگ کیس کے ساتھ کی جائے گی، جس کی سماعت عدالت عظمیٰ کا 5 رکنی بینچ کرتا ہے۔
خیال رہے کہ وفاقی حکومت نے 5 نومبر کو سی سی پی او لاہور غلام محمود ڈوگر کو عمران خان پر قاتلانہ حملے کے خلاف پی ٹی آئی کارکنان کے احتجاج کے دوران گورنر ہاؤس کی سیکیورٹی یقینی نہ بنانے پر معطل کردیا تھا۔
اس پر گورنر ہاؤس کے عہدیداروں نے چیف سیکریٹری اور آئی جی پی کو خط لکھا تھا جس کے بعد فیڈرل سروس ٹریبونل اسلام آباد نے غلام محمود ڈوگر کو لاہور کیپیٹل سٹی پولیس افسر (سی سی پی او) کے عہدے پر برقرار رہنے کی اجازت دی تھی، تاہم دو رکنی بینچ نے انہیں معطل کرنے کا حکم جاری کردیا تھا۔
سروس ٹریبونل اسلام آباد کے فیصلے کے خلاف غلام محمود ڈوگر نے سپریم کورٹ میں اپیل دائر کردی تھی، جس میں کہا گیا کہ ایک ہجوم نے دی مال کا مین گیٹ توڑنے کی کوشش کی، ٹائر جلائے، سی سی ٹی وی کیمروں کو نقصان پہنچایا اور احاطے میں داخل ہونے کی کوشش کی۔