سینٹرل اپیکس کمیٹی اجلاس، ’پاکستان اندرونی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا‘
سینٹرل اپیکس کمیٹی اجلاس میں اتفاق کیا گیا کہ دہشت گردی کا خاتمہ، معاشی بحالی اور سیاسی استحکام باہم جڑا ہوا ہے اور پاکستان داخلی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا۔
وزیراعظم شہبازشریف کی زیرصدارت سینٹرل اپیکس کمیٹی کے اجلاس کے بعد وزیراعظم ہاؤس سے جاری اعلامیے میں کہا گیا کہ سینٹرل اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں چیف آف آرمی اسٹاف جنرل عاصم منیر، وفاقی وزرا بشمول وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیر داخلہ رانا ثنااللہ، وزیر اطلاعات و نشریات، وزیر قانون، چاروں صوبوں بشمول گلگت بلتستان کے وزرائے اعلیٰ، وزیر اعظم آزاد جموں اور کشمیر، حساس سول اور عسکری اداروں کے سربراہان، سینیٹرز، وفاقی سیکریٹری وزارت داخلہ، تمام چیف سیکریٹریز، آزاد جموں اور کشمیر، گلگت بلتستان، اسلام آباد سمیت تمام صوبوں کے آئی جیز اور نیکٹا کے نیشنل کوآرڈینیٹر بھی اجلاس میں شریک تھے۔
اعلامیے میں بتایا گیا کہ اجلاس میں دہشت گردی کے واقعات خاص طور پر پشاور پولیس لائنز مسجد اور کراچی پولیس سربراہ کے دفتر میں ہونے والے دہشت گردی کے واقعات اور اس کے بعد کی صورت حال کا تفصیلی جائزہ لیا گیا۔
اجلاس نے اتفاق کیا گیا کہ دہشت گردی کا خاتمہ، معاشی بحالی اور سیاسی استحکام باہم جڑا ہوا ہے۔
بیان میں کہا گیا کہ حساس اداروں کے نمائندوں نے سیکیورٹی کی مجموعی صورت حال، دہشت گردوں کے خلاف کارروائیوں پر اجلاس کو بریفنگ دی۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ ملک بھر میں دہشت گردی کے خلاف بے مثال شجاعت اور بہادری کا مظاہرہ کرنے پر افواج پاکستان، رینجرز، ایف سی، سی ٹی ڈی، پولیس سمیت تمام قانون نافذ کرنے والے اداروں کو سلام پیش کرتے ہوئے شہید افسران اور جوانوں کو خراج عقیدت پیش کیا گیا۔
اجلاس میں کراچی پولیس اور سیکیورٹی کے لیے ماضی میں منظور ہونے والے فنڈز کی عدم دستیابی کے معاملے پر غور کیا گیا اور ہدایت کی گئی کہ پولیس، سی ٹی ڈی اور سیکیورٹی سے متعلق تمام منصوبوں کی تکمیل کی راہ میں حائل رکاوٹیں بلا تاخیر دور کی جائیں۔
اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ قومی سلامتی اور عوام کے جان و مال کا تحفظ بنیادی آئینی فریضہ ہے، جس سے قومی جذبے، خلوص نیت، توجہ اور بہترین صلاحیت سے انجام دینا ہو گا۔
اپیکس کمیٹی کے اجلاس میں کہا گیا کہ وفاق صوبوں کو امن وامان کی ذمہ داریوں کی بجا آوری میں بھرپور تعاون اور مدد فراہم کرے گا۔
بیان میں کہا گیا کہ اجلاس میں دہشت گردی کے واقعات اور سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران میڈیا خاص طورپر سوشل میڈیا کے کردار کے حوالے سے غور کیا گیا۔
اجلاس کو بریفنگ دی گئی کہ سیکیورٹی فورسز کے آپریشن کے دوران وہ معلومات بھی میڈیا پر نشر ہوجاتی ہیں جن سے دہشت گرد اور ان کے سہولت کار فائدہ اٹھا سکتے ہیں اور سیکیورٹی آپریشن پر اثرات بھی مرتب ہوسکتے ہیں جس سے آپریشن کرنے والے افسران اور جوانوں کی زندگیاں خطرات سے دوچار ہو جاتی ہیں۔
اجلاس میں تجویز دی گئی کہ دنیا کے دیگر ممالک میں رائج سائبر اسپیس اور دہشت گردی سے متعلق ’ایس او پیز‘ اور ضابطوں سے راہنمائی لی جائے۔
اعلامیے میں کہا گیا کہ اسی تناظر میں میڈیا ہاﺅسز اور متعلقہ تمام اسٹیک ہولڈرز کی مشاورت سے مناسب طریقہ کار وضع کیا جائے تاکہ ہنگامی صورت حال میں افواہوں، گمراہ کن اطلاعات اور عوام الناس میں خوف پیدا ہونے کے تدارک کے ساتھ سیکیورٹی اداروں کے لیے دشواریاں پیدا نہ ہوں۔
اجلاس نے یہ بھی طے کیا کہ خدانخواستہ کسی ہنگامی صورت حال میں میڈیا اور عوام تک حقائق کی فراہمی کے لیے کسی ایک فوکل پرسن کو ذمہ داری تفویض کی جائے گی۔
اپیکس کمیٹی کے اجلاس نے نیشنل ایکشن پلان پر عمل درآمد اور گزشتہ اجلاس میں ہونے والے فیصلوں پر پیش رفت کا جائزہ لیا۔
اس حوالے سے وفاقی وزیر قانون و انصاف اعظم نذیر تارڈ کی سربراہی میں کمیٹی کی جانب سے دہشت گردوں کے خلاف تحقیقات، پراسیکیوشن اور سزا دلانے کے مراحل کو مؤثر بنانے کے لیے اقدامات پر پیش رفت سے آگاہ کیا گیا۔
اجلاس میں کہا گیا کہ پاکستان داخلی عدم استحکام کا متحمل نہیں ہوسکتا، قومی یک جہتی، اتحاد اور اجتماعی جدوجہد وقت کی ضرورت ہے اور ان اہداف کے حصول کی خاطر قومی اتفاق رائے پیدا کی جائے اور اس حوالے سے حائل رکاوٹیں دور کی جائیں۔
’اگر ہم خود اپنے حالات ٹھیک نہیں کریں گے تو کوئی ہماری مدد کو نہیں آئے گا، وزیراعظم‘
اس سے قبل وزیر اعظم شہباز شریف نے دہشت گردی کے خلاف جامع حکمت عملی تشکیل دینے کا عزم کرتے ہوئے کہا تھا کہ اگر ہم خود اپنے گھر کے حالات ٹھیک نہیں کریں گے تو کوئی ہماری مدد کو نہیں آئے گا اور سیاسی استحکام ہر لحاظ سے مقدم ہے ۔
اسلام آباد میں نیشنل ایکشن پلان (این اے پی) اور قومی انسداد دہشت گردی اتھارٹی (نیکٹا) سے متعلق اپیکس کمیٹی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نے کہا تھا کہ آج کا نیکٹا کے حوالے سے تھا جو کہ ایک غیر فعال ادارہ بن چکا ہے۔
انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ (ن) کی سابقہ حکومت نے اسٹیک ہولڈرز کو ایک جامع بحث کے لیے مدعو کیا تھا جس کی وجہ سے نیکٹا کا منصوبہ تشکیل پایا تھا۔
وزیر اعظم نے کہا کہ پشاور میں ہونے والے سانحے پر میں نے تمام سیاسی اسٹیک ہولڈرز کو مدعو کیا لیکن انہوں نے مناسب نہیں سمجھا کہ اس اجلاس میں تشریف لائیں۔
ان کا کہنا تھا کہ چند لوگ ایک کمرے میں بیٹھ کر ایسے معاملات پر بات کرنے سے انکار کرتے ہیں اور آج جب ہم ایک کمرے میں بیٹھے ہیں تو ایک حصہ سڑکوں پر جانا چاہتا ہے اور معاملات خراب کرنے کی پوری کوشش کی جارہی ہے جس کی جتنی مذمت کی جائے کم ہے۔
انہوں نے کہا کہ آج پاکستان معاشی چیلنجز کا سامنا کر رہا ہے اور عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) سے معاملات بھی ہفتوں میں طے پاجائیں گے جس کی کڑی شرائط منظور کرنے کے لیے ہم مجبور ہوگئے ہیں کیونکہ ریاست سب سے پہلے اور باقی چیزیں بعد میں ہیں۔
شہباز شریف نے کہا کہ تمام سیاسی شراکت داروں نے اپنا سیاسی اسٹیک داؤ پر لگایا ہے اور ریاست بچانے کے لیے خلوص سے پوری کوشش کر رہے ہیں۔
’آئی ایم ایف معاہدے سے قبل دوست ملک کی جانب سے مدد ملی‘
انہوں نے کسی ملک کا نام لیے بغیر کہا کہ ’پاکستان کا ایک دوست ملک ہے، جس کے بارے میں ہم سب کا خیال تھا کہ وہ آئی ایم ایف سے معاہدے کا انتظار کر رہے ہیں اور پھر اپنا حصہ ڈالیں گے لیکن اس دوست ملک نے چند دن پہلے آگاہ کیا ہے کہ ہم آپ کی مدد کریں گے‘۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ چیزیں بھلائی نہیں جاتیں کیونکہ ماضی میں بھی پاکستان کے لیے انہوں نے اپنا حصہ ڈالا ہے اس لیے ان نیکیوں کو تاقیامت نہیں بھلانا چاہیے۔
وزیراعظم نے زور دیا کہ اگر ہم خود اپنے گھر کے حالات ٹھیک نہیں کریں گے تو کوئی ہماری مدد کو نہیں آئے گا اس لیے سیاسی استحکام ہر لحاظ سے مقدم ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں جب چین گیا تھا تو وزیر خارجہ میرے ساتھ تھے جہاں چین کے جواب میں کہا تھا کہ ان کی سیکیورٹی سے اگر ہماری سیکیورٹی زیادہ نہیں تو کم بھی نہیں ہے اس لیے چین کو ہمیشہ یہ احساس رہا کہ پاکستان ہمارا بہترین دوست ملک ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ آج تمام سیاسی قیادت اور عسکری قیادت بیٹھی ہے، یہ کہاں کا انصاف تھا کہ ایک اچھا بھلا ملک چل پڑا تھا، امن و سکون قائم ہوگیا تھا، پاکستان کے 83 ہزار سپوت شہید ہوئے، ماؤں، بہنوں، والدین اور بیٹوں سمیت افواج پاکستان کے افسران، نوجوان، قانون نافذ کرنے والے اداروں، سیاست دان، ان کے بچوں نے قربانیاں دیں اور اس طرح صرف پاکستان کا امن نہیں بلکہ پوری دنیا کے لیے امن قائم ہوا۔
انہوں نے کہا کہ قربانیاں ہم نے دی ہیں، اس سے زیادہ کوئی مثال نہیں ہو سکتی کہ 80 ہزار پاکستانیوں نے جام شہادت نوش کیا اور پوری دنیا کے لیے امن کا بندوبست کیا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر پاکستان کو ترقی کی راہ پر لانا ہے، معاشی ترقی دلانی ہے، غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ کرنا ہے اور پاکستان کو اپنا کھویا ہوا مقام دلانا ہے تو ہمیں اپنی تمام ذاتی پسند اور ناپسند سمیت انا کو ایک طرف کرکے اکٹھے ہوکر تمام توانائیاں استعمال کرنا ہوں گی۔