• KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am
  • KHI: Fajr 5:34am Sunrise 6:54am
  • LHR: Fajr 5:12am Sunrise 6:37am
  • ISB: Fajr 5:20am Sunrise 6:47am

عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی جلد سماعت کیلئے الیکشن کمیشن کی درخواست مسترد

شائع April 11, 2023
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث، فیصل چوہدری اور علی بخاری بھی کمرہ عدالت پہنچے—فائل فوٹو: اے ایف پی
عمران خان کے وکیل خواجہ حارث، فیصل چوہدری اور علی بخاری بھی کمرہ عدالت پہنچے—فائل فوٹو: اے ایف پی

اسلام آباد کی ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ نے سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے خلاف توشہ خانہ کیس کی جلد سماعت مقرر کرنے کے لیے الیکشن کمیشن کی درخواست خارج کردی۔

ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے الیکشن کمیشن کی درخواست پر سماعت کی، الیکشن کمیشن کی جانب سے وکیل امجدپرویز اور سعد حسن عدالت میں موجود تھے جبکہ عمران خان کے وکیل خواجہ حارث، فیصل چوہدری اور علی بخاری بھی کمرہ عدالت پہنچے۔

ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے سماعت کے آغاز پر عمران خان کے وکلا سے سوال کیا کہ توشہ خانہ کیس کی جلد سماعت مقرر کرنے کی درخواست پر کیا کہتے ہیں؟

خواجہ حارث نے کہا کہ جلد سماعت مقرر کرنے کا جواز کیاہے؟ پیسہ ضائع ہوتاہے، آج کل تحریک انصاف کے کیسز کی وجہ سے بہت مصروفیات ہیں، کیسز کی بھرمار کے باعث وکلا کو تیاری کے لیے بھی وقت چاہیے ہوتا ہے، گزشتہ سماعت پر وکلا کی جانب سے ہڑتال بھی تھی، مشترکہ طور پر وکلا کی ہڑتال کے باعث سماعت ملتوی کی گئی تھی۔

عمران خان کے دوسرے وکیل فیصل چوہدری نے کہا کہ الیکشن کمیشن کی مرضی سے 29 اپریل کی تاریخ لی، 2 دن بعد الیکشن کمیشن کو خیال آیا ہے کہ تاریخ جلد مقرر کرانی ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ ہم تو 2، 2 ماہ کی تاریخ مانگ رہے تھے، ایک ماہ کی نہیں۔

خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان کے خلاف کیس ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر نے دائر کیا، علی حیدر گیلانی کے خلاف بھی الیکشن کمیشن نے پرائیویٹ شکایت دائر کی ہوئی ہے، علی حیدر گیلانی کے خلاف کیس گزشتہ سال دائر کیا گیا تھا، ایک سال ہو گیا اور علی حیدر گیلانی کے کیس میں اب تک فردِ جرم عائد نہیں ہوئی، کیا بات ہے کہ الیکشن کمیشن عمران خان کے خلاف کیس میں زیادہ دلچسپی ظاہر کر رہا ہے؟

انہوں نے کہا کہ علی حیدر گیلانی کے خلاف کیس میں ڈیڑھ ماہ کی تاریخ دی گئی، الیکشن کمیشن کی جانب سے علی حیدر گیلانی کے خلاف کیس میں تو جلد سماعت مقرر کرنی کی درخواست دائر نہیں ہوئی، علی حیدر گیلانی پر بھی ابھی تک فرد جرم عائد نہیں ہو سکی، الیکشن کمیشن کی جلد سماعت کی درخواست میرٹ پر نہیں ہے۔

خواجہ حارث نے کہا کہ عمران خان کی سکیورٹی کی درخواست ابھی بھی عدالت میں زیر سماعت ہے، عمران خان کی درخواست ہے کہ خطرات کے باعث حاضری سے استثنیٰ دیا جائے یا ویڈیو لنک پر سماعت کرلی جائے، کیس سے کوئی بھی بھاگ نہیں رہا ہے۔

الیکشن کمیشن کے وکیل امجدپرویز نے درخواست پر دلائل دیتے ہوئے کہا کہ عمران خان اور علی حیدرگیلانی کے کیسز دونوں مختلف نوعیت کے کیسز ہیں، ڈسٹرکٹ الیکشن کمشنر کے پاس پرائیویٹ کمپلینٹ دائر کرنے کا اختیار ہے، رشوت دینا اور گوشواروں میں اثاثے ظاہر نہ کرنا دو مختلف نوعیت کے کیسز ہیں۔

انہوں نے مزید کہا کہ الیکشن کمیشن پر امتیازی سلوک کرنے کا الزام لگانا غلط ہے، سپریم کورٹ نے فیصلہ دیاکہ کرپٹ پریکٹسز پر 3 ماہ کے اندر ٹرائل کورٹ فیصلہ کرے، سپریم کورٹ نے کہا ایک بار شکائت دائر ہو تو شکائت پر 3 ماہ کے اندر فیصلہ کیاجائے، الیکشن کمیشن کی درخواست میرٹ اور سپریم کورٹ کے فیصلوں پر دائر کی گئی، مجھے سپریم کورٹ نے کرپٹ پریکٹسز پر درخواست دائر کرنے کا حق دیا ہے۔

اس موقع پر عمران خان کے وکیل خواجہ حارث نے جواب الجواب دلائل بھی دیے اور عدالت میں عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست دائر کی گئی، تاہم جج ظفر اقبال نے درخواست واپس کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست کی ضرورت نہیں، صرف نوٹس موصول کروانا تھا۔

خواجہ حارث نے کہا کہ الیکشن کمیشن کو تو کوئی مسئلہ نہیں، وکیل تو عمران خان کے مختلف عدالتوں میں بھاگم دوڑی کر رہے، مجبوری ہوسکتی ہے، جلد سماعت مقرر کرنے کی درخواستوں کی ضرورت نہیں۔

الیکشن کمیشن کے وکیل امجد پرویز نے کہا کہ علی گیلانی نے کبھی ٹیلی ویژن پر بیٹھ کر الیکشن کمیشن کو جھوٹا نہیں کہا، توشہ خانہ کیس دو سماعتوں کی بات ہے، 3 سے 4 ماہ سے الیکشن کمیشن کے کیس کو جھوٹا کہہ رہے، سچے ہیں تو عدالت آئیں، عمران خان کی بریت کی کوئی درخواست اب تک نہیں آئی۔

فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد عدالت نے توشہ خانہ کیس کی جلد سماعت کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کر لیا، بعدازاں عدالت نے محفوظ فیصلہ سناتے ہوئے الیکشن کمیشن کی مذکورہ درخواست مسترد کردی۔

واضح رہے کہ 9 اپریل کو اسلام آباد کی عدالت نے توشہ خانہ فوجداری کارروائی کیس میں الیکشن کمیشن کی درخواست پر عمران خان کو (آج) 11 اپریل کو طلب کر لیا تھا۔

ایڈیشنل سیشن جج ظفر اقبال نے توشہ خانہ کیس کی جلد سماعت کرنے سے متعلق الیکشن کمیشن کی درخواست پر طلبی کے سمن جاری کیے تھے۔

خیال رہے کہ اسلام آباد کی سیشن عدالت نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کی 30 مارچ کو حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور کرتے ہوئے سماعت 29 اپریل تک ملتوی کردی تھی۔

تاہم 6 اپریل کو الیکشن کمیشن کے وکیل نے ایڈیشنل سیشن جج ظفراقبال کی عدالت میں توشہ خانہ کیس کی جلد سماعت کے لیے درخواست دائرکردی تھی۔

توشہ خانہ ریفرنس

خیال رہے کہ الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ کیس میں عمران خان کو نااہل قرار دینے کا فیصلہ سنانے کے بعد ان کے خلاف فوجداری کارروائی کا ریفرنس عدالت کو بھیج دیا تھا جس میں عدم پیشی کے باعث ان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہوچکے ہیں۔

گزشتہ برس اگست میں حکمراں اتحاد کے 5 ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر اسپیکر قومی اسمبلی نے سابق وزیراعظم عمران خان کی نااہلی کے لیے توشہ خانہ ریفرنس الیکشن کمیشن کو بھجوایا تھا۔

ریفرنس میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ عمران خان نے توشہ خانہ سے حاصل ہونے والے تحائف فروخت کرکے جو آمدن حاصل کی اسے اثاثوں میں ظاہر نہیں کیا۔

آئین کے آرٹیکل 63 کے تحت دائر کیے جانے والے ریفرنس میں آرٹیکل 62 (ون) (ایف) کے تحت عمران خان کی نااہلی کا مطالبہ کیا گیا تھا۔

کیس کی سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے مؤقف اپنایا تھا کہ 62 (ون) (ایف) کے تحت نااہلی صرف عدلیہ کا اختیار ہے اور سپریم کورٹ کے مطابق الیکشن کمیشن کوئی عدالت نہیں۔

عمران خان نے توشہ خانہ ریفرنس کے سلسلے میں 7 ستمبر کو الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا، جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران وزیر اعظم اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔

بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، دیوار کی آرائش کا سامان، چھوٹے قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم، پیپر ویٹ اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔

جواب میں بتایا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انہوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادا کر کے خریدا۔

اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انہوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں 4 تحائف فروخت کیے تھے۔

سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انہوں نے 2 کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے تحائف کی فروخت سے تقریباً 5 کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے، ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک مہنگا قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر 3 تحائف میں 4 رولیکس گھڑیاں شامل تھیں۔

چنانچہ 21 اکتوبر 2022 کو الیکشن کمیشن آف پاکستان (ای سی پی) نے سابق وزیر اعظم اور پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے خلاف دائر کردہ توشہ خانہ ریفرنس کا فیصلہ سناتے ہوئے انہیں نااہل قرار دے دیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024