• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

قمر باجوہ نے کہا 5 منٹ میں مارشل لا لگا سکتا ہوں، انہيں کہا بسم اللہ کریں، آصف زرداری

شائع April 14, 2023 اپ ڈیٹ April 15, 2023
سابق صدر نے کہا کہ عمران خاان مقبول نہیں، غربت مقبول ہے—فوٹو:جیو نیوز اسکرین گریب
سابق صدر نے کہا کہ عمران خاان مقبول نہیں، غربت مقبول ہے—فوٹو:جیو نیوز اسکرین گریب

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین اور سابق صدر پاکستان آصف زرداری نے کہا ہے کہ سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے کہا تھا 5 منٹ میں مارشل لا لگا سکتا ہوں جس پر انہيں کہا بسم اللہ کریں کیونکہ شیر پر چڑھنا آسان ہے، اُترنا نہيں۔

نجی نیوز چینل ’جیو‘ کے پروگرام ’کیپیٹل ٹاک‘ میں اینکر حامد میر سے خصوصی گفتتگو کرتے ہوئے سابق صدر نے کہا کہ مسئلہ یہ نہیں ہے کہ ہم الیکشن سے ڈرتے ہیں، مسئلہ ٹائمنگ کا ہے، اگر ایک دن میں ملک بھر میں الیکشن ہوں تو وہ آئینی طور پر درست ہے۔

انہوں نے کہا کہ ایک وقت تھا جب قومی اسمبلی اور صوبائی اسمبلی کے الیکشن، الیکشن ہوتے تھے، قومی اسمبلی کے الیکشن پہلے ہوتے تھے تو اس پر بھی اعتراض کیا جاتا تھا کہ ایم این اے، ایم پی اے کے الیکشن پر اثر انداز ہوتا ہے، اس کے بعد آپ نے فیصلہ کیا کہ انتخابات نگران سیٹ اپ کے تحت ہوں گے جبکہ پوری دنیا میں نگران حکومت کا تصور نہیں ہے، بر سرِاقتدار حکومت ہی الیکشن کراتی ہے، ہمیں الیکشن پر نہیں بلکہ اس کی ٹائمنگ پر اعتراض ہے۔

آصف زرداری نے کہا کہ ہم قانون کو سمجھتے ہیں لیکن ججز سیاست کو نہیں سمجھتے، کچھ چیزیں ایسی ہوتی ہیں جن کا لوگوں کو پتا نہیں ہوتا، یہ جب نعرے لگائے جاتے تھے کہ ریاست بنے کی ماں کے جیسی، اب بن گئی ریاست ماں کے جیسی، آپ کو یاد ہے میں نے کہا تھا کہ یہ جج (افتخار چوہدری ) سیاست دان ہے اور یہ سیاسی جماعت بنائے گا، آپ لوگ مجھ پر دباؤ ڈال رہے تھے کہ اس کو بحال کرو، اس دوران چوہدری اعتزاز احسن مجھ سے رابطے میں نہیں تھا، وہ کسی اور سے رابطے میں تھا۔

سابق صدر نے کہا کہ ہم نے اتحادی جماعتوں سے مذاکرات کے لیے ایک ٹیم بنالی ہے تاکہ مذاکرات کے دروازے کھلیں، اگر پی ٹی آئی سے مذاکرات ہوتے ہیں تو ہم انتخابات سے انکاری نہیں ہیں، میں تو صرف اس کی تاریخ پر معترض ہوں، کوئی سیاسی قوت انتخابات سے نہیں ڈرتی، میرا نکتہ صرف یہ ہے کہ اس وقت ملک کے حالات ٹھیک نہیں ہیں، آئی ایم ایف کا قرض آنا ہے، اس کی شرائط پر عمل کرنا ہے، اس لیے ہمیں کچھ وقت دیں، بات صرف اتنی ہے، ہم نے جمہوریت کے لیے قربانیاں دیں، جدوجہد کی ہے، باقی الیکشن کیوں اور کیسے نہیں ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ موجودہ قومی اسمبلی کی مدت میں توسیع ممکن نہیں ہے، یہ چھوٹی سوچ ہے، اتفاق رائے کے ساتھ جتنی جلدی ممکن ہوسکے انتخابات ہونے چاہییں، جس بھی تاریخ پر اتفاق رائے ہوجائے چاہیے وہ اکتوبر ہو، اس کے بعد کی ہو، اگست ہو یا اس سے بھی پہلے کی کوئی تاریخ ہو، لیکن یکساں مواقع کے ساتھ ایک دن ہی ملک بھر میں انتخابات ہونے چاہئیں۔

ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی سیاسی جماعت کے لیے لڑنا، ہتھیار اٹھانا جائز نہیں ہے، آپ کو لڑنا ہے تو جیلوں میں جائیں، سڑکوں پر آئیں، احتجاج کریں لیکن ہتھیار نہیں اٹھائیں۔

شریک چیئرمین نے کہا کہ ہم نے جیلیں کاٹیں لیکن عمران خان ایک دن جیل نہیں گئے، یہ ڈومیسائل کا فرق ہے، وہ مجھ سے اچھی پنجابی نہیں جانتے، وہ مجھ سے اچھی بلے شاہ کی شاعری نہیں جانتے مگر میرا ڈومیسائل کمزور ہے، اس وقت جاری لڑائی پنجاب کی ضرور ہے لیکن وہ پورے پاکستان کو متاثر کرتی ہے۔

سابق صدر نے کہا کہ عمران خان مقبول نہیں، غربت مقبول ہے، بیچارے بچے ہیں جن کو تنخواہ دیتا ہے، جب بجلی نہیں آتی تو عوام کو تکلیف ہوتی ہے اور مخالف جماعت کو اس کا فائدہ ہوتا ہے۔

آصف علی زرداری نے کہا کہ جب گزشہ سال تحریک عدم اعتماد جمع کرائی گئی تو سابق آرمی چیف جنرل (ر) قمر جاوید باجوہ نے ہمیں بلایا اور کہا کہ اگر آپ چاہتے ہیں تو میں عمران خان کو کہتا ہوں وہ ابھی استعفیٰ دے گا اور آپ الیکشن میں چلے جائیں، اس پر میں نے منع کیا، مولانا فضل الرحمٰن نے منع کیا، آپ کو دیکھنا چاہیے جو بات بلاول بھٹو نے کی ہے کہ آپ نے صرف ایک عمران خان کو نکالا ہے، اس کے سات حواری وہ نکلے نہیں ہیں، وہ ابھی بھی موجود ہیں، وہ ابھی بھی گیم کھیل رہے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ تو ہمیں پتا تھا کہ یہ 2035 تک رہنے کا منصوبہ بنا کر آئے ہیں، یہ اپنا چیف لا کر ایسا کرنا چاہتے تھے، اگر نگران حکومت ہوتی تو بھی وہ یہ کرسکتے تھے، نگران حکومت تو کمزور ہوتی، اس کو جیسا کہا جاتا، ویسا وہ کرتی، ہم نے اس نظریے کے تحت، سیاسی سوچ سوچتے ہوئے وہ فیصلہ کیا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم بیوقوف ہیں، ہمیں نہیں پتا کہ مہنگائی ہے، ہمیں نہیں پتا تھا کہ یہ سب سے غیرمقبول وزیراعظم ہے، ہمیں سب پتا ہے، یہ باتیں بعد میں ہوئیں، یہ کم بیک سب ڈرامہ ہے، یہ سب بعد کی بات ہے، اس لیے کہ جب اس نے اربوں ڈالرز کا نقصان کرلیا، ہمیں دلدل میں ڈال کر جب یہ باہر نکلا تو اس نے کہا کہ یہ چور آئے ہیں، اس لیے ایسا ہوا، آپ اسٹیٹ بینک کی دستاویزات پڑھیں، کسی نے ملک کی تاریخ میں اتنا قرض نہیں لیا جتنا عمران حکومت نے لیا، ان کی تو منصوبہ بندی ہی کچھ اور تھی۔

سابق صدر نے کہا کہ اس دوران جنرل باجوہ اپنی باڈی لینگوج سے اس طرح کے کچھ اشارے دے رہے تھے کہ میں 5 منٹ میں مارشل لا لگا سکتا ہوں، آپ کو یاد نہیں ہے آپ کو کہا تھا کہ میں 5 منٹ میں لگا سکتا ہوں، لگانا صحیح ہے، شیر پر چڑھنا آسان ہے، اترنا مشکل ہے، تو ہم نے اس کو کہا بسم اللہ کر بھائی، ہمیں بھی چھوڑ، ہم جا کر کھیتی باڑی کریں، تو جا کر ملک چلا، پھر وہ پیچھے ہٹا کہ یہ کیسے ہوسکتا ہے، میں تو نہیں کر سکتا، نہیں کرسکتا تو پھر چھوڑو۔

اس سوال پر کہ مئی 2021 میں جنرل (ر) فیض حمید چاہتے تھے کہ آپ بھی ملک سے باہر چلیں جائیں، تو آصف زرداری نے کہا کہ مجھے بھی طبی بنیادوں پر باہر بھیجنے کی کوشش کی گئی، یہ ہمیشہ توازن کرتے ہیں، بچارے چھوٹی سوچ کے لوگ ہیں، جب نواز شریف کو پہلے ملک سے باہر بھیجا گیا تو اس وقت بھی کوشش کی گئی تھی کہ میں بھی ملک سے باہر چلا جاؤں۔

انہوں نے کہا اس وقت ملک میں سیاسی کشیدگی ہے، سپریم کورٹ اور پارلیمنٹ کی لڑائی ہو رہی ہے، اس میں بھی دشمن فائدہ اٹھا رہا ہے، عمران خان اگر اس صورتحال کا فائدہ اٹھا رہا ہے تو دشمن ہی فائدہ اٹھا رہا ہے، ہم نے پہلے بھی سسٹم، جمہوریت، اداروں اور ملک کو بچایا، اب بھی بچائیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ مجھ سے اسعتفیٰ مانگا جاتا تھا کیونکہ میں نے اٹھارویں ترمیم دی، خیبر پختونخوا کو شناخت دی، جنوبی پنجاب صوبہ بنانے کے لیے قرارداد سینیٹ میں پیش کی، مجھے تاریخ میں زندہ رہنا ہے، استعفیٰ مانگنے والوں کو تاریخ کا نہیں پتا تو میں کیا کروں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024