• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

سالانہ بنیادوں پر مہنگائی کی شرح 44.6 فیصد تک پہنچ گئی

شائع April 15, 2023
فروری کے آخر سے سالانہ بنیادوں پر ہفتہ وار مہنگائی 40 فیصد سے اوپر رہی—فوٹو: اے پی پی
فروری کے آخر سے سالانہ بنیادوں پر ہفتہ وار مہنگائی 40 فیصد سے اوپر رہی—فوٹو: اے پی پی

ادارہ شماریات پاکستان (پی بی ایس) کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق سینسیٹو پرائس انڈیکس (ایس پی آئی) کے ذریعے پیمائش کی گئی قلیل مدتی مہنگائی 13 اپریل کو ختم ہونے والے ہفتے کے دوران سالانہ بنیادوں پر 44.61 فیصد تک پہنچ گئی۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سالانہ بنیادوں کے برعکس ہفتہ وار بنیادوں پرمہنگائی کی شرح میں 0.60 فیصد کمی ہوئی، تاہم رمضان المبارک کے دوران طلب میں اضافے کے پیش نظر اشیائے خورونوش مہنگی ہو رہی ہیں جن میں خاص طور پر پھل، آلو، پیاز، چکن، گوشت، انڈے اور کوکنگ آئل شامل ہیں۔

فروری کے آخر سے سالانہ بنیادوں پر ہفتہ وار مہنگائی 40 فیصد سے اوپر رہی تاہم 22 مارچ کو ختم ہونے والے ہفتے میں 46.7 فیصد کی بلند ترین سطح پر پہنچنے کے بعد گزشتہ 3 ہفتوں میں اس میں قدرے نرمی آئی۔

حکومت نے ملز مالکان اور پی ڈی ایم حکومت میں شامل سیاست دانوں کے دباؤ کے سبب چینی کی برآمد کی اجازت دے دی جس کے بعد مارکیٹ میں چینی کی قیمت 130 روپے فی کلو تک پہنچ گئی، اسی دوران مارکیٹ میں 20 کلو آٹے کی قیمت 3400 روپے تک پہنچ گئی، حالیہ ہفتوں میں کھانے کا تیل اور گھی کی قیمتوں میں بھی یہی رجحان دکھا گیا۔

خیال رہے کہ ضروری اشیا کی قیمتوں میں چھوٹے وقفوں سے ہونے والی تبدیلی کا اندازہ لگانے کے لیے ہر ہفتے ایس پی آئی کا جائزہ لیا جاتا ہے، انڈیکس 17 شہروں میں 50 مارکیٹوں کے سروے کی بنیاد پر 51 اشیا کی قیمتوں پر نظر رکھتا ہے۔

ان 51 اشیا میں سے 26 اشیا کی قیمتوں میں اضافہ جبکہ 9 اشیا کی قیمتوں میں کمی ہوئی تاہم 16 اشیا کی قیمتوں میں کوئی تبدیلی نہیں آئی۔

زیر جائزہ ہفتے کے دوران جن اشیا کی قیمتوں میں سالانہ بنیادوں پر سب سے زیادہ اضافہ ہوا ان میں گندم کا آٹا (126.09 فیصد)، گیس (108.38 فیصد)، ڈیزل (102.84 فیصد)، انڈے (99.37 فیصد)، لپٹن چائے (97.63 فیصد)، کیلے (90.18 فیصد)، آلو (87.18 فیصد)، باسمتی چاول (84.46 فیصد)، اری چاول 6/9 (81.31 فیصد)، پیٹرول (81.17 فیصد)، دال مونگ (67.43 فیصد)، دال ماش (58.54 فیصد) اور ڈبل روٹی (55.36 فیصد) شامل ہے۔

ہفتہ وار بنیادوں پر جن اشیا کی قیمتوں میں سب سے بڑی تبدیلی دیکھنے میں آئی ان میں آلو (8.59 فیصد)، ایل پی جی (4.47 فیصد)، انڈے (2.65 فیصد)، چکن (2.19 فیصد)، واشنگ سوپ (1.83 فیصد)، کیلے (1.64 فیصد)، دال ماش (1.45 فیصد)، گڑ (1.25 فیصد) اور پکا ہوا گائے کا گوشت (1.15 فیصد) شامل ہیں۔

جن مصنوعات کی قیمتوں میں گزشتہ ہفتے کے مقابلے میں سب سے زیادہ کمی دیکھی گئی ان میں ٹماٹر (22.43 فیصد)، پیاز (15.85 فیصد)، آٹا (2.75 فیصد)، لہسن (1.29 فیصد)، دال چنا (0.82 فیصد)، دال مونگ (0.35 فیصد)، سرسوں کا تیل (0.09فیصد)، بجلی (4.95 فیصد) اور آگ جلانے کے لیے استعمال ہونے والی لکڑی (0.09فیصد) شامل ہے۔

حکومت مالیاتی خسارہ پورا کرنے کے لیے آمدنی پیدا کرنے کے لیے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) پروگرام کے تحت ایندھن اور بجلی کے نرخوں میں اضافے، سبسڈیز کے خاتمے، مارکیٹ کی بنیاد پر ایکسچینج ریٹ اور زیادہ ٹیکس عائد کرنے جیسے سخت اقدامات کر رہی ہے، جس کے نتیجے میں معاشی ترقی کی رفتار سست اور آنے والے مہینوں میں مہنگائی میں مزید اضافے کا خدشہ ہے۔

اسٹیٹ بینک کی پالیسی ریٹ میں 21 فیصد اضافے، بیش تر اشیا پر سیلز ٹیکس 17 فیصد سے بڑھا کر 18 فیصد کرنے اور 800 سے زائد درآمدی خوراک اور نان فوڈ آئٹمز پر سیلز ٹیکس میں 25 فیصد اضافے سے اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں مزید اضافہ ہوگا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024