• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

اداروں کے اختیارات میں مداخلت کو عدالتی مارشل لا سے تعبیر کرتے ہیں، مولانا فضل الرحمٰن

شائع April 15, 2023
مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد میں پریس کانفرنس کررہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز
مولانا فضل الرحمٰن اسلام آباد میں پریس کانفرنس کررہے تھے— فوٹو: ڈان نیوز

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا ہے کہ سپریم کورٹ دیگر اداروں کے دائرہ اختیار میں مداخلت کررہی ہے، آپ نے الیکشن شیڈول دے کر پورے الیکشن کمیشن کے اختیارات پر قبضہ کر لیا ہے، پارلیمنٹ کے اختیارات پر قبضہ، الیکشن کمیشن کے اختیارات پر قبضہ، انتظامیہ کے اختیارات پر قبضہ، اگر سپریم کورٹ اس طرح ہے تو ہم اسے ادارہ کہنے کے بجائے ایک عدالتی مارشل لا سے تعبیر کر سکتے ہیں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ سب کا اس بات پر اتفاق تھا کہ 2018 کے الیکشن میں دھاندلی ہوئی اور عمران خان دھاندلی کی بنیاد پر برسراقتدار آئے تھے، آج عمران خان کہتا ہے کہ الیکشن کو تسلیم کرنے یا نہ کرنے کا فیصلہ نتیجہ آنے کی صورت میں کروں گا۔

انہوں نے کہا کہ عمران خان یہ بھی کہہ چکا ہے کہ اگر میری دو تہائی اکثریت نہ آئی تو میں نتیجہ تسلیم نہیں کروں گا، اگر سادہ اکثریت سے کامیاب ہوا تو دوبارہ اسمبلیاں توڑ دوں گا، اس کی ملک کی سیاست میں حیثیت کیا ہے، دھاندلی کی بنیاد پر نااہل، ناکام اور نالائق حکومت کرنا اور ساڑھے تین سال میں اپنی کارکردگی بتائیں کہ انہوں نے کیا کیا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ملک جس بھنور میں پھنسا ہے اس کشتی کو کنارے لگانا ہمارے لیے مشکل ہو گیا ہے، کیا ہم نے اس ملک کو توڑنا ہے، کیا ہم نے فیصلہ کر لیا ہے کہ اس ملک کا خاتمہ کرنا ہے، اگر یہ دوبارہ اقتدار میں آتا ہے کہ اس کا نامکمل ایجنڈا مکمل کرنا ہے۔

پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ سپریم کورٹ تضادات کا شکار ہے، ایک طرف وہ کہتے ہیں کہ آئین کا تقاضا ہے کہ 90دن میں الیکشن ہوں گے اور دوسری طرف وہ ہمیں کہتے ہیں کہ آپس میں بات کر کے طے کریں، اگر بات کر کے طے کریں اور اکتوبر کے بعد کریں، دسمبر کے بعد کریں یا اگلے مارچ کے بعد تو پھر آئین کہاں ہو گا اور آئین کے 90 دن کہاں ہوں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے خلاف فیصلہ دینے کے بعد ہمیں کہتے ہیں کہ بات کریں تو اس کا مطلب ہے کہ سپریم کورٹ بھی ہمیں بلیک میل کررہا ہے، وہ ڈائیلاگ کی بات کر کے خود آئین کی نفی کر رہا ہے، ایسی صورتحال میں ہماری جماعت اور پی ڈی ایم ایسے لوگوں کے ساتھ بات کرنے میں ملک کا کسی قسم کا مفاد نہیں دیکھ رہی البتہ اگر ہم نے کسی کو خوش کرنا ہے تو یہ ایک لاگ بات ہے۔

انہوں نے کہا کہ اسمبلی قانون پاس کررہی ہے، ابھی وہ ایکٹ بنا نہیں ہے اور چیف جسٹس نے فوری طور پر آٹھ رکنی بینچ بلا لیا، کیا جج نے دوسرے فریق کی بات نہیں سننی؟، انہوں نے حکومت کو بلایا؟، ان کی بات سنی؟ اور ایک ہی نشست میں فیصلہ دے دیا، پھر کہتے ہیں فیصلہ تسلیم کرو، ہم کیسے تسلیم کریں۔

مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ آئینی طور پر اختیارات تقسیم ہیں، ہر کسی کا ایک دائرہ اختیار ہے، عدلیہ کا اپنا دائرہ اختیار ہے، انتظامیہ کا اپنا دائرہ اختیار ہے، مقننہ کا اپنا دائرہ اختیار ہے، آپ اس میں کیوں مداخلت کررہے ہیں، کسی کو چھوڑا ہے آپ نے، الیکشن کمیشن کے اختیارات آپ نے سلب کر لیے ہیں، یہاں تک کے لیے پورا الیکشن شیڈول دے دیا، پورے الیکشن کمیشن کے اختیارات پر قبضہ کر لیا۔

انہوں نے کہاکہ سپریم کورٹ کے رجسٹرار کو ہٹانا ایک انتظامی معاملہ ہے لیکن سپریم کورٹ نے کہا کہ نہیں ہٹایا جائے گا، آپ کیوں ان تمام میں کیوں مداخلت کرتے ہیں، پارلیمنٹ کے اختیارات پر قبضہ، الیکشن کمیشن کے اختیارات پر قبضہ، انتظامیہ کے اختیارات پر قبضہ، اگر سپریم کورٹ اس طرح ہے تو ہم اسے ادارہ کہنے کے بجائے ایک عدالتی مارشل لا سے تعبیر کر سکتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ میں پہلے دن سے کہہ رہا ہوں کہ میں عمران خان کو پاکستان کی سیاست کا غیرضروری عنصر سمجھتا ہوں، یہ لانچ کیا ہوا ہے اور ہم ان سے مذاکرات کی بات کرتے ہیں، پاکستانی سیاست اور پاکستانی قوم اتنی گر گئی ہے لہٰذا یہ ابت دل سے نکال دی جائے کہ ہم اس طرح کے شخص کو کہیں گے کہ آپ بتا دیں کہ ہم کب انتخابات کرائیں، ایسی سیاست کو ہمیں چھوڑ دینا چاہیے۔

ایک سوال کے جواب میں پی ڈی ایم کے سربراہ نے کہا کہ پیپلز پارٹی کا اپنا فلسہ ہے، انہوں نے ہم عدم اعتماد کے ذریعے حکومت ہٹانے کی بات کی تھی، میں نے تحریک کے ذریعے حکومت ہٹانے کی بات کی تھی جس میں سندھ کی صوبائی اسمبلی توڑ کر تمام ہمارے تمام اسمبلی کے اراکین مستعفی ہو جاتے اور تحریک کی قوت سے اس نظام کو تبدیل کرنے کی بات کی تھی، آج الیکشن ہو جاتے تو ملک میں کوئی ہیجان یا اضطراب نہ ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ اس وقت سب اس بات پر متفق ہو گئے کہ ہمیں عدم اعتماد کے ذریعے ہٹانا ہے تو ہٹا دیا، ہم نے بھی اس وقت سیاست میں تقسیم پسند نہیں کی لیکن آج ہم اسی کو بھگت رہے ہیں یا نہیں بھگت رہے ہیں، اسی کی مہنگائی کو ہم بھگت رہے ہیں اور اسی مہنگائی کو یہ اپنی اڑان کے لیے استعمال کررہا ہے، تحریک عدم اعتماد ہماری سوچ کے مطابق نہیں تھی اور ہمارا تصور کچھ اور تھا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہمارے ساتھ اکتوبر میں بھی مذاکرات ہوئے، باجوہ صاحب نے پورا اختیار جنرل فیض حمید کو دیا، جنرل فیض حمید کے ساتھ چوہدری چوہدری شجاعت اور چوہدری پرویز الٰہی بیٹھے تھے، میرے ساتھ اکرم درانی اور طلحہ محمود بیٹھے تھے، چھ آدمیوں کے مذاکرات میں باقاعدہ اسمبلیوں کو توڑنے کی بھی تاریخ متعین ہوئی اور الیکشن کے نئے شیڈول کی بھی تاریخ متعین ہوئی اور اگلے سال مارچ میں الیکشن توڑنے کی بھی بات طور ہو گئی۔

جمعیت علمائے اسلام(ف) کے قائد نے کہا کہ جب ہم نے دھرنا ختم کردیا تو کہا جی ہم نے تو بات ہی نہیں کی، کیا اتنے ذمے دار عہدوں پر بیٹھنے والے لوگ بھی اس طرح کی کچی باتیں کرتے ہیں، نہ چوہدری صاحبان کو اس بات کا کوئی احساس ہوا ، یہ طے ہوا تھا کہ انتخاب ہوں گے اور وعدہ نہیں پورا کیا گیا، باجوہ صاحب کی ہم کس کس بات کو روئیں، جنرل فیض حمید کی ہم کس کس بات کو روئیں گے، اب ان کے اپنے ادارے کا فرض بنتا ہے کہ وہ اس بارے میں سوچیں۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024