• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

خاتون جج دھمکی کیس: عمران خان کے قابل ضمانت وارنٹ جاری

شائع April 18, 2023
عدالت نے عمران خان کے خلاف خاتون جج کو دھمکی دینے کےکیس کی سماعت 25 مئی تک ملتوی کردی—فائل فوٹو: اے ایف پی
عدالت نے عمران خان کے خلاف خاتون جج کو دھمکی دینے کےکیس کی سماعت 25 مئی تک ملتوی کردی—فائل فوٹو: اے ایف پی

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد نے خاتون جج کو دھمکی دینےکےکیس میں سابق وزیراعظم اور چیئرمین پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) عمران خان کے قابل ضمانت وارنٹ جاری کردیے۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں عمران خان کے خلاف خاتون جج کو دھمکی دینے کے کیس کی سماعت جوڈیشل مجسٹریٹ ملک امان نےکی۔

عدالت میں پراسیکوٹر راجا رضوان عباسی جبکہ عمران خان کی جانب سے ان کے وکلا علی بخاری اور فیصل چوہدری پیش ہوئے۔

پراسیکوٹر راجا رضوان عباسی نےکہا کہ عمران خان کو عدالت نے ذاتی حیثیت میں طلب کیا ہے، عمران خان کی گزشتہ سماعت پر حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور نہیں ہوئی، عمران خان کی آج بھی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست منظور نہیں ہونی چاہیے اور عمران خان کے ناقابل ضمانت وارنٹ گرفتاری جاری ہونے چاہئیں، عمران خان کے قابل ضمانت وارنٹ گرفتاری ویسے ہی جاری ہیں۔

پراسیکیوٹر نے عمران خان کے قابلِ ضمانت وارنٹ جاری کرنے کے ساتھ ضمانتی مچلکے جمع کروانے کی استدعا کرتے ہوئے کہا کہ عمران خان کے علاوہ کسی اور ملزم کے ساتھ بھی ایسا ہی رویہ ہوتا؟ وارنٹ پر عمران خان کی جانب سے ہمیشہ اپیل دائر ہوجاتی ہے، عمران خان اپیل دائر کرتے ہیں لیکن خود عدالت پیش نہیں ہوتے، توشہ خانہ کیس میں وارنٹ کی تعمیل کے لیے جانے والے ایس پی کو تحریک انصاف نے تشدد کا نشانہ بنایا۔

فیصل چوہدری نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ اسلام آباد ہائی کورٹ میں عمران خان کے دیگر مقدمات کی ضمانت کا معاملہ زیر التوا ہے، عمران خان کی جان کو خطرہ ہے، عمران خان ابھی مکمل طور پر ٹھیک طرح نہیں چل پا رہے، عدالت کو عمران خان کی سیکیورٹی سےمتعلق بھی انتظامات دیکھنے ہیں۔

عمران خان کے وکیل علی بخاری کا کہنا تھا کہ توشہ خانہ کیس میں اسلام آباد انتظامیہ نے عدالت شفٹ کرنےکا نوٹیفکیشن جاری کیا تھا، عمران خان کی سیکیورٹی واپس لینے سے متعلق وفاقی حکومت سے عدالت نے جواب طلب کر رکھا ہے، عمران خان کو ان کی مرضی کی سیکیورٹی مہیا کرنے کی ہدایت کی گئی تھی، عمران خان کو عدالت میں پیش ہونے سے محبت ہے۔

جج نے کہا کہ عمران خان کی حاضری سے استثنیٰ کی درخواستیں دوبار خارج ہوچکی ہیں، اس پر فیصل چوہدری کا کہنا تھا کہ آج نیا دن ہے تو نئی حاضری سے استثنیٰ کی درخواست بنتی ہے، عمران خان اس سے قبل کچہری بھی آتے رہتے تھے، ملک کی تاریخ میں سابق وزرائے اعظم کو سیکیورٹی نہ دینےکے باعث ان کی جانیں چلی گئیں۔

دوران سماعت عمران خان کی وارنٹ کی عدم تعمیلی رپورٹ عدالت میں جمع کرادی گئی۔

وکیل علی بخاری کا کہنا تھا کہ عمران خان کی وارنٹ تعمیلی رپورٹ بنی گالا بھیجی گئی ہے، عمران خان بنی گالا رہتے ہی نہیں، آئندہ رپورٹ زمان پارک بھیجیں۔

دریں اثنا عمران خان کے وکلا کی جانب سے آج حاضری سے استثنیٰ کی درخواست بھی دائر کردی گئی۔

بعد ازاں عدالت نے عمران خان کے خلاف خاتون جج کو دھمکی دینے کےکیس کی سماعت 25 مئی تک ملتوی کرتے ہوئے ان کے قابل ضمانت وارنٹ جاری کردیے اور وارنٹ کی تعمیل زمان پارک میں کرنےکی ہدایت کردی۔

جوڈیشل مجسٹریٹ ملک امان نے عمران خان کو 20 ہزار روپے کے ضمانتی مچلکے جمع کرانے کی ہدایت کی۔

خیال رہے کہ گزشتہ برس 20 اگست کو سابق وزیر اعظم عمران خان کے خلاف اسلام آباد کے علاقے صدر کے مجسٹریٹ علی جاوید کی مدعیت میں تھانہ مارگلہ میں انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

ایف آئی آر میں کہا گیا تھا کہ 20 اگست کو پاکستان تحریک انصاف کے رہنما شہباز گِل کی گرفتاری کے خلاف عمران خان کی قیادت میں ریلی نکالی گئی جس کا راستہ زیرو پوائنٹ سے ایف 9 پارک تک تھا، اس دوران عمران خان کی تقریر شروع ہوئی جس میں انہوں نے اسلام آباد پولیس کے اعلیٰ ترین افسران اور ایک معزز خاتون ایڈیشنل جج صاحبہ کو ڈرانا اور دھمکانا شروع کیا۔

ریلی سے خطاب میں عمران خان نے اسلام آباد پولیس کے آئی جی اور ڈی آئی جی کے خلاف مقدمہ درج کرنی کے دھمکی دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’ہم تم کو چھوڑیں گے نہیں‘، اس کے بعد انہوں نے عدلیہ کو اپنی جماعت کی طرف متعصب رویہ رکھنے پر بھی خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ اب وہ بھی نتائج کے لیے تیار ہوجائیں۔

ویڈیو لنک کے ذریعے پیشی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ

دوسری جانب عمران خان کی ویڈیو لنک پر عدالتوں میں پیشی کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ میں چیف جسٹس عامر فاروق نے سماعت کی۔

عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا ویڈیو لنک پر عدالت پیش ہوئے، دلائل کا آغاز کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں میشا شفیع کیس پر انحصار کرنا چاہوں گا، اس پر چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ کرمنل کیسز میں مختلف اسٹیجز پر ملزم کی حاضری کی مختلف صورت ہوتی ہے۔

سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میشا شفیع کیس میں ویڈیو لنک کے ذریعے ملزم کی حاضری کی اجازت دی گئی، عمران خان کو عدالتوں میں حاضری کے وقت سیکیورٹی مسائل کا بھی سامنا ہے، ان کے خلاف روزانہ کی بنیاد پر مقدمات کا اندراج ہو رہا ہے، اس وقت تک 120 سے زائد مقدمات درج ہو چکے ہیں۔

بعدازاں ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دُگل نے جوابی دلائل کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ دیکھنا ہو گا کیا کریمنل کیس میں کوئی رُول ویڈیو لنک کی اجازت دیتا ہے؟، کریمنل ٹرائل میں تو فیصلہ سننے بھی ملزم کی موجودگی لازم ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے ریمارکس دیے کہ ’دُگل صاحب سی آر پی سی 1898 کی ہے، اُس وقت ظاہر ہے ویڈیو لنک نہیں تھا اس کا قانون میں ذکر نہیں، قانون ساز اگر چاہتے تو جدید تقاضوں کے مطابق اسے بدل سکتے تھے، ذاتی طور پر میں سمجھتا ہوں ٹیکنالوجی کا جہاں ہو سکے استعمال ہونا چاہیے، بھارتی سپریم کورٹ تو ویڈیو لنک پر فیصلہ دے چکی ہے۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ بھارت میں 2005 سے لے کر سسٹم انسٹال کیا گیا، پورا سسٹم لگانا ہوگا کہ کیا ویڈیو لنک پر موجود ملزم کمرے میں اکیلا ہے، عمران خان کو ویڈیو لنک کی سہولت دینا ایک تفریق پیدا کرنا ہو گا، ایک اور سابق وزیر اعظم کو اپیل میں بھی ویڈیو لنک کی سہولت نہیں ملی۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ آپ نے یہاں سیاسی پہلو پر دلائل نہیں دینے، عمران خان ایک بڑی یا سب سے بڑی پارٹی کے سربراہ ہیں، کوئی اس بات کو پسند کرے یا نہ کرے الگ بات ہے، کیا بھارت میں ویڈیو لنک ٹرائل ہو رہے ہیں؟ کیا برطانیہ، امریکا میں کوئی فیصلہ آیا ویڈیو لنک پر؟ کیا ان ممالک میں کسی عدالت نے کہا ویڈیو ٹرائل ہو سکتا ہے یا نہیں؟، اس پر منور دُگل نے کہا کہ امریکی اور برطانوی عدالت نے کہا کہ ’کیس ٹُو کیس‘ دیکھا جا سکتا ہے۔

چیف جسٹس اسلام آباد ہائی کورٹ نے استفسار کیا کہ اگر ویڈیو لنک پر تمام تقاضے پورے ہو رہے ہیں تو ٹرائل ہو سکتا ہے نا؟ فرد جرم میں ملزم نے دستخط کرنا ہوتے ہیں وہ بھی الیکٹرانک ہو سکتے ہیں، ویڈیو لنک کی درخواست منظور ہونے کا فائدہ صرف عمران خان کو نہیں ہوگا، اس فیصلے کا فائدہ تو سب کو ہو گا، اب تو امتحانات آن لائن ہو رہے ہیں، میرے بیٹے کا ہوا۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ دیکھنا ہو گا کیا کسی بیرون ملک موجود ملزم کو اپیل میں بھی یہ سہولت ملے گی؟ یا کل کسی بیرون ملک موجود ملزم کو بھی یہ سہولت دی جا سکے گی؟

عمران خان کے وکیل سلمان اکرم راجا نے کہا کہ اگر کوئی ملزم پاکستان میں ہی رہنے کی انڈرٹیکنگ دے تو اسے سہولت ویڈیو لنک مل سکتی ہے، اگرکوئی ملزم اشتہاری نہیں ہے تو اسے بھی سہولت مل سکتی ہے، یہاں بات عمران خان کی ہے جو روز کئی عدالتوں میں جا رہے ہیں، یہ عدالت عمران خان کو لاہور میں کسی اپنی بتائی جگہ پر آنے کا کہہ سکتی ہے۔

انہوں نے مزید کہا کہ یہ عدالت عمران خان کو لاہور ہائیکورٹ سے آکر ویڈیو لنک پر آنے کا کہہ سکتی ہے، کسی بھی ’کنٹرولڈ ماحول‘ والی جگہ پر بلا کر ویڈیو لنک پر کیا جا سکتا ہے۔

بعدازاں عدالت نے فریقین کے دلائل سن کر عمران خان کی ویڈیو لنک کے ذریعے عدالتوں میں پیشی کی درخواست پر فیصلہ محفوظ کرلیا۔

واضح رہے کہ رواں ماہ 8 اپریل کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے عمران خان کے اسلام آباد میں درج مقدمات میں ویڈیو لنک کے ذریعے پیش ہونے کی درخواست سماعت کے لئے مقرر کر دی تھی

یاد رہے کہ عمران خان نے سلمان اکرم راجا اور فیصل چوہدری کے ذریعے مذکورہ درخواست دائر کر رکھی ہے جس میں سیکیورٹی تھریٹ کی وجہ سے ویڈیو لنک کے ذریعے حاضری کی استدعا کی گئی ہے۔

الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف احتجاج پر سماعت 4 مئی تک ملتوی

دریں اثنا الیکشن کمیشن کے فیصلے کے خلاف احتجاج پر عمران خان کے خلاف تھانہ سنجانی میں درج مقدمہ پر اسلام آباد کی انسداد دہشتگردی عدالت کے جج راجا جواد عباس حسن نے سماعت کی

عمران خان کے وکیل نعیم حیدر پنجوتھہ اور شیر افضل مروت عدالت کے روبرو پیش ہوئے اور عمران خان کی حاضری سے استثنی کی درخواست دائر کی۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ اسلام ہائی کورٹ میں دائر درخواستوں پر آج سماعت ہے، ہائی کورٹ کے فیصلے تک وقفہ کر دیتے ہیں، اسلام آباد ہائی کورٹ میں بھی استثنی ہے اور یہاں بھی استثنی کی درخواست دائر کی گئی ہے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا درخواست میں جو مؤقف اختیار کیا ہے کیا اس کے علاؤہ دلائل دینے ہیں؟، نعیم حیدر پنجوتھہ نے جواب دیا کہ جی اس کے علاوہ بھی کوئی گراؤنڈز ہیں جو دلائل میں دوں گا۔

عدالت نے استفسار کیا کہ آپ نے درخواست میں وجہ کیوں نہیں لکھی، نعیم حیدر پنجوتھہ نے کہا کہ پنچاب میں 70 اور پاکستان بھر میں 121 کیسز کو لاہور ہائی کورٹ میں عمران خان کی جانب سے چیلنج کر رکھا ہے۔

عدالت نے ریمارکس دیے کہ آپ کی جانب سے 28 فروری کو پیش ہوئے اور اس کے بعد ہر سماعت پر استثنی مانگا گیا، اس پر نعیم حیدر پنجوتھہ نے کہا کہ سیکیورٹی وجوہات ہیں، حکومت کی جانب سے سیکیورٹی بھی فراہم نہیں کی جارہی، گزشتہ سماعت پر بھی دیکھا کہ حالات کیسے ہو گئے تھے، نا وکلا کو نا ہی صحافیوں کو داخل ہونے دیا جا رہا تھا، آپ کی ہدایت پر مجھے کورٹ آنے کی اجازت ملی۔

انہوں نے استدعا کی کہ عمران خان کی استثنی کی درخواست منظور کی جائے، اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ استثنیٰ کے لیے آپ کو بیان حلفی دینا ہو گا، اس کیس میں دیگر تمام ملزمان کی ضمانت ہو چکی ہے۔

شیر افضل مروت نے استدعا کی کہ عید کا موقع ہے استثنیٰ منظور کیا جائے، عید کے بعد کی کوئی تاریخ رکھ لی جائے، اس پر عدالت نے ریمارکس دیے کہ ہائی کورٹ کا فیصلہ دیکھ لیتے ہیں، اِس کے فیصلے کے مطابق فیصلہ کر لیتے ہیں، جوڈیشل پالیسی کے مطابق ہم پابند ہیں، فیصلہ کرنا ہو گا۔

بعدازاں عدالت نے ہائی کورٹ کے فیصلے تک سماعت میں وقفہ کردیا، دریں اثنا شریک ملزم عاطف خان عدالت کے روبرو پیش ہوگئے جس کے بعد عدالت نے عاطف خان کی حد تک سماعت 4 مئی تک ملتوی کردی۔

واضح رہے کہ عمران خان کےخلاف دہشت گردی کی دفعات کے تحت تھانہ سنگجانی میں مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان کی نااہلی کے خلاف احتجاج کرنے پر سابق وزیر اعظم، اسد عمر اور علی نواز سمیت 100 سے زائد کارکنان کے خلاف دہشت گردی کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024