• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:42pm
  • LHR: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:23pm Maghrib 5:00pm

حکومت کا اسٹیٹ بینک سے خلافِ قانون 239 ارب روپے قرض لینے کا انکشاف

شائع April 20, 2023
حکومت نے رواں برس جنوری اور فروری میں اسٹیٹ بینک سے 239 ارب روپے کا قرض لیا—فائل فوٹو: اے پی پی
حکومت نے رواں برس جنوری اور فروری میں اسٹیٹ بینک سے 239 ارب روپے کا قرض لیا—فائل فوٹو: اے پی پی

اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے قانون سے واضح انحراف کرتے ہوئے جنوری تا فروری میں مسلم لیگ (ن) کی زیرقیادت مخلوط حکومت کو 239 ارب روپے کا قرضہ دیا ہے تاکہ مقامی کمرشل بینکوں کے قرضوں کی ادائیگی کی ضروریات کو پورا کیا جا سکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کی ہدایت پر 2022 میں ترمیم شدہ اسٹیٹ بینک آف پاکستان ایکٹ کے تحت اسٹیٹ بینک سے حکومت کا قرض لینا ممنوع ہے، قانون کا سیکشن سی-9 کہتا ہے کہ ’اسٹیٹ بینک حکومت، کسی سرکاری ادارے یا کسی دوسرے عوامی ادارے کو براہ راست کریڈٹ نہیں دے گا اور نہ ہی کسی ادائیگی کی ضمانت دے گا‘۔

اسلام آباد میں قائم ایک اقتصادی تھنک ٹینک ’پرائم انسٹی ٹیوٹ‘ نے اپنی تازہ ترین سہ ماہی رپورٹ میں کہا ہے کہ حکومت نے رواں برس جنوری اور فروری میں اسٹیٹ بینک سے 239 ارب روپے کا قرض لیا تھا کیونکہ ملکی قرضوں کی ادائیگی لاگت میں اضافے کے پیش نظر ملک کا مالیاتی خسارہ بڑھ گیا تھا۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ معیشت میں ضرورت سے زیادہ حکومتی اثرات اور اخراجات معاشی بحران کو ہوا دے رہے ہیں۔

مالیاتی خسارہ جولائی تا فروری میں 18 کھرب 70 ارب روپے یا جی ڈی پی کا 2.3 فیصد پر پہنچ گیا جب اخراجات 50 کھرب روپے اور محصولات 30 کھرب روپے تھے، لہذا حکومت نے مالی سال 2023 کی تیسری سہ ماہی کے پہلے 2 مہینوں میں 13 کھرب 90 ارب کا قرضہ لیا جس میں سے 239 ارب روپے اسٹیٹ بینک سے اور 11 کھرب 50 ارب کمرشل بینکوں سے لیے گئے تھے۔

یوں حکومت کی جانب سے اسٹیٹ بینک سے لیے گئے قرضوں کا حجم جنوری میں 52 کھرب 60 ارب روپے سے بڑھ کر فروری میں 55 کھرب 97 ارب ہو گیا، فروری 2022 میں یہ 48 کھرب 77 ارب روپے تھا، اس لحاظ سے یہ ایک سال میں 720 ارب روپے کا اضافہ ظاہر کرتا ہے۔

’پرائم انسٹی ٹیوٹ‘ کے چیف ایگزیکٹیو نے کہا کہ اسٹیٹ بینک سے حاصل کی گئی رقم مقامی بینکنگ انڈسٹری کو قرض کی ادائیگی کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔

رپورٹ میں اس بات پر روشنی ڈالی گئی کہ پاکستان کے معاشی چیلنجوں کا نتیجہ ملک میں سیاسی عدم استحکام اور اصلاحات میں حکومتوں کی ہچکچاہٹ کی صورت میں نظر آتا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ درآمدات پر حکومت کی پابندیاں جولائی تا فروری میں بڑھتے ہوئے کرنٹ اکاؤنٹ خسارے کو گزشتہ سال 12 ارب ڈالر سے کم کر کے 3 ارب 80 کروڑ ڈالر پر لے آئیں، اس نے بڑے پیمانے پر مینوفیکچرنگ (ایل ایس ایم) کو روکنے میں بھی کردار ادا کیا جہاں پیداوار میں 8 ماہ کے دوران گزشتہ سال کے مقابلے میں 5.56 فیصد کمی واقع ہوئی، اس سست روی نے مہنگائی اور آنے والے مہینوں میں مہنگائی میں مزید اضافے کے امکانات میں اہم کردار ادا کیا۔

رواں مالی سال کی تیسری سہ ماہی کے پہلے 2 ماہ میں نجی شعبے کے قرضوں میں 219 ارب روپے کی کمی کے نتیجے میں ایل ایس ایم میں بھی سست روی آئی اور کل قرضہ 74 کھرب روپے رہا، پالیسی ریٹ میں 300 بیسس پوائنٹس اضافے اور خام مال کی عدم دستیابی کی وجہ سے کام میں تعطل کی وجہ سے ایکسپورٹ پروسیسنگ اسکیم کے تحت نجی شعبے کے قرضے میں بھی 7 ارب روپے کی کمی واقع ہوئی۔

رپورٹ میں دلیل دی گئی کہ پاکستان کا ٹیکس نظام روایتی ہے جس میں بالواسطہ ٹیکسوں پر زیادہ انحصار ہے کیونکہ حکومت ٹیکس بیس کو وسیع کرنے میں ناکام رہی ہے اور لوگ ٹیکس کی حد سے زیادہ شرح کی وجہ سے تذبذب کا شکار ہیں۔

بھاری ٹیکسوں سے پیدا ہونے والی بگاڑ کو اس حقیقت سے ظاہر کیا جا سکتا ہے کہ مارچ میں اسمگل شدہ سگریٹ کی فروخت میں 30 فیصد سے زیادہ اضافہ ہوا اور ضمنی فنانس بل 2023 میں فیڈرل ایکسائز ڈیوٹی میں اضافے کے بعد سگریٹ کی فروخت میں 60 فیصد سے زیادہ کمی واقع ہوئی۔

مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج ریٹ اپنانے سے زرمبادلہ میں کچھ استحکام آیا لیکن کمزور معاشی بنیادوں کے سبب روپے کی قدر بےیقینی کا شکار ہے، قرض کی ادائیگی اور درآمدی ادائیگیوں نے رواں مالی سال کی تیسری سہ ماہی میں مقامی کرنسی اور شرح مبادلہ پر دباؤ برقرار رکھا، روپے کی قدر دسمبر 2022 کے آخر میں 225 روپے کے مقابلے میں 25 فیصد کم ہو کر مارچ 2023 کے آخر میں 281 روپے ہو گئی، مزید برآں زرمبادلہ ذخائر مارچ کے آخر میں 5.6 ارب ڈالر سے کم ہو کر 4.2 ارب ڈالر رہ گئے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ پاکستان میں حکومتیں سیاسی عدم استحکام اور سیاسی مقبولیت میں ممکنہ گراوٹ کے خوف سے ہچکچاہٹ کا شکار ہوکر اصلاحات کرنے میں ناکام رہیں، تاہم حالیہ سیاسی انتشار نے لوگوں کو تقسیم در تقسیم کر دیا ہے اور نمایاں پالیسی اصلاحات پر کوئی اتفاق رائے تاحال ناپید ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ طے شدہ معاہدے سے حکومت کے مسلسل انحراف کے نتیجے میں پروگرام تعطل کا شکار ہو گیا ہے اور 9ویں جائزے کی تکمیل میں نمایاں تاخیر ہوئی ہے۔

نتیجتاً مارکیٹ بیسڈ ایکسچینج ریٹ، یوٹیلیٹی قیمتوں میں اضافے اور منی بجٹ جیسی شرائط کی تکمیل کے باوجود حکومت اعتماد بحال نہیں کر سکی اور آئی ایم ایف اس وقت پاکستان کے دوست ممالک کی جانب سے مالی امداد کی تصدیق کا منتظر ہے۔

کارٹون

کارٹون : 25 نومبر 2024
کارٹون : 24 نومبر 2024