خواتین سے متعلق نرم پالیسیوں پر قائل کرنے کیلئے اقوام متحدہ کا طالبان حکومت کو تسلیم کرنے پرغور
افغانستان میں طالبان کو خواتین سے متعلق نرم پالیسیاں اپنانے پر قائل کرنے کے لیے اقوام متحدہ نے طالبان حکومت کو تسلیم کرنے پر غور شروع کردیا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوٹیرس اس آپشن اور اس کے اثرات کا جائزہ لینے کے لیے یکم مئی کو دوحہ میں دنیا بھر سے افغانستان کے لیے خصوصی سفرا کے اجلاس کی میزبانی کریں گے۔
اقوام متحدہ کی ڈپٹی سیکریٹری جنرل آمنہ محمد نے رواں ہفتے پرنسٹن اسکول آف پبلک اینڈ انٹرنیشنل افیئرز میں خطاب کرتے ہوئے سامعین کو بتایا کہ طالبان کی خود کو تسلیم کروانے کی خواہش ہمیں ان سے مختلف امور پر بات چیت کے لیے راضی کرنے کا موقع فراہم کرتی ہے۔
انہوں نے کہا اب ہم انہیں خطے میں آئندہ 2 ہفتوں میں دنیا بھر سے آئے سفرا اور سیکریٹری جنرل کی موجودگی میں اکٹھا کریں گے، اس سے ہم امید کرتے ہیں کہ ہم ان درمیانے اقدامات کی راہ تلاش کرسکیں گے جو ہمیں تسلیم کرنے کی راہ پر واپس لے جا سکیں، مگر یہ معلوم نہیں کہ کیا یہ واقعی ممکن ہے؟
اسکول کے ڈین جمال امانی نے حیران ہو کر سوال کیا کہ ’کس کو تسلیم؟‘، جواب میں انہوں نے کہا کہ ’طالبان کو تسلیم، اصولی طور پر تسلیم، دوسرے لفظوں میں میری مراد ایسی شرائط ہیں جو اس کی راہ ہموار کرسکیں‘۔
ڈپٹی سیکریٹری جنرل نے کہا کہ ’عالمی برادری میں کچھ ایسی آوازیں بھی ہیں جو یہ یقین رکھتی ہیں کہ ایسا کبھی نہیں ہو سکتا جبکہ کچھ ایسے بھی ہیں جو کہتے ہیں کہ یہ بالآخر ہونا ہی ہے‘۔
ان سے سوال کیا گا کہ کیا طالبان حکومت خود کو تسلیم کروانے کی خواہاں ہے؟، آمنہ محمد نے جواب دیا کہ ’ہاں، طالبان واضح طور پر خود کو تسلیم کروانا چاہتے ہیں اور یہی وہ رعایت ہے جو انہیں خواتین سمیت دیگر مسائل پر اپنا رویہ بدلنے پر آمادہ کرنے کے لیے ہمارے پاس ہے۔
آمنہ محمد نے اجلاس کی کوئی مخصوص تاریخ نہیں بتائی لیکن افغانستان کے لیے امریکا کے سابق خصوصی سفیر زلمے خلیل زاد نے کہا کہ یہ اجلاس یکم مئی کو دوحہ میں ہوگا۔
سلسلہ وار ٹوئٹس میں انہوں نے اجلاس کے لیے 4 امور پر غور کرنے کی سفارش کی، جس میں اس معاہدے کا ’مکمل نفاذ‘ شامل ہے جس پر انہوں نے مذاکرات کیے تھے۔
انہوں نے لکھا کہ معاہدے پر پوری طرح سے عمل درآمد نہیں ہوا ہے، اور کسی متبادل راستے کو وسیع حمایت حاصل نہیں ہے’۔
انہوں نے سیکرٹری جنرل اور سفیروں پر زور دیا کہ وہ طالبان کے ساتھ ایک اجلاس منعقد کریں تاکہ معاہدے پر عمل درآمد کے لیے ایک روڈ میپ پر غور کیا جا سکے، اس روڈ میپ میں خواتین کی تعلیم اور روزگار کے مسئلے کا حل شامل ہونا چاہیے۔
انہوں نے سیکریٹری جنرل اقوام متحدہ پر زور دیا کہ وہ اس روڈ میپ کو تیار کرنے اور لاگو کرنے میں افغان اور متعلقہ عالمی شخصیات کے ساتھ کام کرنے کے لیے علیحدہ طور پر ایک ذاتی سفیر مقرر کریں۔