• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

ایک ساتھ انتخابات کا معاملہ: حکومت، پی ٹی آئی کے مذاکرات کا پہلا دور ختم، بات چیت جاری رکھنے پر اتفاق

شائع April 27, 2023 اپ ڈیٹ April 28, 2023
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات پارلیمنٹ ہاؤس میں ہو رہے ہیں — فوٹو: ٹوئٹر
حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات پارلیمنٹ ہاؤس میں ہو رہے ہیں — فوٹو: ٹوئٹر

حکومت اور پاکستان تحریک انصاف کے درمیان ملک بھر میں ایک ساتھ انتخابات کے حوالے سے مذاکرات کا پہلا دور ختم ہوگیا اور فریقین نے بات چیت جاری رکھنے کا فیصلہ کیا ہے۔

اندرونی ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ پی ٹی آئی نے میٹنگ کے دوران تین اہم مطالبات پیش کیے جو درج ذیل ہیں:


  • جولائی میں عام انتخابات کے لیے راہ ہموار کرنے کے لیے مئی میں قومی اسمبلی، سندھ اور بلوچستان کی اسمبلیاں تحلیل کردی جائیں۔
  • اگر حکومت پنجاب میں انتخابات کے لیے 14 مئی کی تاریخ سے آگے جانا چاہتی ہے تو انتخابات کو 90 دن سے زیادہ مؤخر کرنے کے لیے ایک بار کی رعایت کے لیے آئینی ترمیم منظور کرائی جائے۔
  • اسپیکرپی ٹی آئی کے اراکین کے استعفوں کی منظوری کا حکم واپس لیں تا کہ ان کی قومی اسمبلی میں واپسی ہوسکے۔

اتحادی حکومت کی جانب سے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار، وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ، وزیر تجارت نوید قمر ، وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق اور سابق وزیراعظم سینیٹر یوسف رضا گیلانی مذاکرات میں شریک تھے۔

وفاقی حکومت کی جانب سے ایم کیو ایم پاکستان کی کشور زہرہ اور محمد ابوبکر بھی مذاکراتی ٹیم میں شامل تھے۔

پاکستان تحریک انصاف کی جانب سے پی ٹی آئی کے سینئر رہنما شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور سینیٹر علی ظفر مذاکراتی کمیٹی کا حصہ تھے۔

حکومت اور پی ٹی آئی کے درمیان مذاکرات پارلیمنٹ ہاؤس میں ہو رہے تھے، فریقین کے درمیان مذاکرات شروع ہونے سے قبل حکومتی اور تحریک انصاف کی کمیٹی ارکان نے چیئرمین سینیٹ کے چیمبر میں مشاورت کی۔

آئین کے اندر رہ کر ریاست، عوام کے مفاد کے مطابق معاملہ حل کرنا ہے، اسحٰق ڈار

مذاکراتی دور کے پہلے مرحلے کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے یوسف رضا گیلانی نے کہا کہ کل دوبارہ 3 بجے اسی مقام پر مذاکرات ہوں گے اور ان کی طرف سے جو مطالبات ہوں گے وہ ہمارے سامنے رکھیں گے، ہم ان مطالبات کا جائزہ لیں گے، اس کے بعد اپنی اتحادی پارٹیوں کے ساتھ بات چیت کرکے ان کو اعتماد میں لینے کے بعد جو بھی بات چیت اور ڈیمانڈ ہوگی ان کے سامنے رکھ دیں گے۔

اس موقع پر بات چیت کرتے ہوئے وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے کہا کہ اصولی طور پر یہ طے شدہ بات ہے کہ ہم نے آئین کے اندر رہ کر معاملات کو طے کرنا ہے، ریاست اور عوام کے مفاد کو مد نظر رکھ کر سارا معاملہ کرنا ہے، کل 3 بجے اگلی نشست ہوگی، ہم اپنی پارٹی کے ساتھ بات کریں گے، وہ اپنی پارٹی کے ساتھ بات کریں گے، اس کے بعد ہم مزید تفصیل سے بات کریں گے۔

نیت صاف ہو تو سیاسی مسئلوں کا حل گفت و شنید سے نکل سکتا ہے، شاہ محمود قریشی

مذکرات کے بعد میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے شاہ محمود قریشی نے کہا کہ بات چیت کی پہلی نشست 2 گھنٹے چلی جس میں ایک دوسرے سے اپنے نقطہ نظر شیئر کیے، ہم سیاسی جماعتیں ہیں جو متفق ہیں کہ سیاسی مسئلوں کا حل گفت و شنید سے نکل سکتا ہے اگر نیتیں صاف ہوں وار ڈائیلاگ کو معنی خیز انداز میں آگے بڑھائیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم آگے بڑھنے کا راستہ تلاش کرنے کے جذبے سے مذاکرات میں بیٹھے ہیں اور ان مذاکرات کو تاخیری حربے کے طور پر استعمال نہیں کرنا چاہیے، مسائل کا حل نکالنا ہے اور پیش رفت چاہیے، ہم آئین کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے حل تجویز کریں گے، آئین سے ماورا کوئی حل ممکن نہیں ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ ہم عوام کی فلاح کو سامنے رکھ کر آگے بڑھنا چاہتے ہیں، یہ جو ہیجانی، بے یقنی کی کیفیت ہے، ہم قوم کو اس سے آزاد کرانا چاہتے ہیں، ہم نے اپنا اور انہوں نے اپنا نقطہ نظر پیش کیا، اگلی نشست ہماری دن 3 بجے ہوگی، عمران خان نے ہمیں مکمل مینڈیٹ دیا ہے لیکن اتحادی حکومت نے کہا کہ انہیں ابھی آپس میں مشاورت کرنی ہوگی اور اتحادیوں کو اعتماد میں لینا ہوگا۔

پی ٹی آئی رہنما نے کہا کہ ہم نے انہیں کہا کہ آپ مشاورت کریں اور تجویز لے کر آئیں، اگر وہ آئین کے دائرے کے اندر ہوئیں تو ہم اسے ضرور تسلیم کریں گے۔

واضح رہے کہ اس سے قبل پی ٹی آئی رہنما فواد چوہدری نے کہا تھا کہ حکومت نے تحریک انصاف کی مذاکراتی کمیٹی کو 6 بجے پارلیمنٹ ہاؤس میں ملنے کی دعوت دی ہے، شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور سینیٹر علی ظفر تحریک انصاف کی نمائندگی کریں گے۔

اس سے قبل آج صبح چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی نے حکومت کی تجویز پر ملک میں جاری سیاسی جمود توڑنے کے لیے مذاکراتی کی کوششیں شروع کردیں تھیں اور اس حوالے سے کمیٹی تشکیل دینے کے لیے سینیٹ میں قائد ایوان اور قائد حزب اختلاف کو الگ الگ خطوط لکھے تھے۔

صادق سنجرانی نے اپنے خطوط میں کہا کہ موجودہ سیاسی اور معاشی صورت حال میں سیاسی جماعتوں میں رابطے کا فقدان ہے۔

انہوں نے کہا کہ بحیثیت ایوان بالا کے چیئرمین حکومت اور اس کے اتحادیوں نے معاشی اور سیاسی بحران بشمول عام انتخابات کے انعقاد پر سیاسی مذاکرات کے آغاز کے لیے سہولت کاری فراہم کرنے کے لیے مجھ سے رابطہ کیا ہے، ان کا کہنا ہے کہ اس حوالے سے حکومت اور اپوزیشن اراکین سینیٹ پر مشتمل کمیٹی تشکیل دینے کی تجویز دی گئی ہے۔

سینیٹ میں اپوزیشن لیڈر ڈاکٹر شہزاد وسیم نے چیئرمین سینیٹ صادق سنجرانی کو جوابی خط لکھتے ہوئے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی عمران خان نے پہلے تین رکنی اعلیٰ اختیاری کمیٹی تشکیل دے رکھی ہے، حکومت سے معنی خیز مذاکرت کے لیے شاہ محمود قریشی، فواد چوہدری اور سینیٹر علی ظفر کا نام تجویز کیا، کمیٹی آئینی دائرہ کار میں رہ کر اور سپریم کورٹ احکامات کے عین مطابق مذکرات کرےگی۔

خط میں مزید کہا گیا کہ حکومت کو پی ٹی آئی کے تین رکنی کمیٹی سے آگاہ کیا جائے، حکومت عام انتخابات سے متعلق تجاویز سپریم کورٹ کے سامنے رکھے اور عام انتخابات کو تاخیر کا شکار نہ کرے۔

خیال رہے کہ 20 اپریل کو ہونے والی گزشتہ سماعت میں سپریم کورٹ نے سیاسی جماعتوں سے کہا تھا کہ وہ 26 اپریل تک مذاکرات کریں اور اسٹیک ہولڈرز کے درمیان اتفاق رائے پیدا ہونے کے بعد 27 اپریل (آج) تک جواب جمع کروائیں۔

سیاسی جماعتوں سے کہا گیا تھا کہ وہ اس معاملے پر جلد فیصلہ کریں کیونکہ انتخابات کے لیے 14 مئی کی تاریخ دی جاچکی ہے اور اس کی پابندی کا حکم تمام حکام پر لازم ہے۔

تاہم اس حوالے سے تاحال کوئی مذاکرات نہ ہوسکے اور حکومت نے بھی عدالت کی جانب سے 4 اپریل کو جاری کردہ ہدایت کی تعمیل سے انکار کر دیا ہے، لہٰذا اب تمام نظریں عدالت کے اگلے اقدام پر جمی ہوئی ہیں۔

گزشتہ سماعت کے بعد جاری تحریری حکمنامے میں کہا گیا تھا کہ عدالت کو بتایا گیا کہ 26 اپریل کو سیاسی جماعتوں کے درمیان ایک اجلاس ہوگا، 27 اپریل تک سیاسی رابطوں اور ڈائیلاگ کی پیش رفت رپورٹ جمع کروائی جائے گی۔

آج دوران سماعت چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا تھا کہ حکومت مذاکرات میں سنجیدہ ہے تو خود اقدام اٹھاتی، مذاکرات کرنے پر عدالت مجبور نہیں کر سکتی، عدالت صرف آئین پر عمل چاہتی ہے تاکہ تنازع کا حل نکلے، عدالت کو کوئی وضاحت نہیں چاہیے، صرف حل بتائیں، چیئرمین سینیٹ اجلاس بلائیں گے اس میں بھی وقت لگے گا۔

اس دوران پیپلزپارٹی کی جانب سے وکیل فاروق ایچ نائیک نے کہا کہ تمام حکومتی اتحادی جماعتیں پی ٹی آئی سے مذاکرات پر آمادہ ہیں، سینیٹ واحد ادارہ ہے جہاں تمام جماعتوں کی نمائندگی موجود ہے۔

فاروق نائیک نے مزید کہا کہ چیئرمین سینیٹ کا کردار صرف سہولت فراہم کرنا ہے، مذاکرات سیاسی جماعتوں کی کمیٹیوں نے ہی کرنے ہیں، سیاسی ایشو ہے اس لیے سیاسی قائدین کو ہی مسئلہ حل کرنے دیا جائے، سیاست کا مستقبل سیاستدانوں کو ہی طے کرنے دیا جائے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024