پاکستان ایشیا میں سری لنکا سے بھی مہنگا ملک بن گیا
پاکستان نے مہنگائی میں سری لنکا کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جس کے بعد وہ ایشیا میں سب سے تیز رفتار افراط زر کا شکار ملک بن گیا ہے۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’بلوم برگ‘ کی رپورٹ کے مطابق پاکستان میں کمزور کرنسی، خوراک اور توانائی کے بڑھتے ہوئے اخراجات نے اپریل میں قیمتوں میں اضافے کو خطے کی بلند ترین سطح تک پہنچا دیا۔
محکمہ شماریات پاکستان کی جانب سے گزشتہ روز جاری کردہ اعداد و شمار کے مطابق صارفین کے لیے اشیا کی قیمتوں میں اپریل میں ایک سال قبل کے مقابلے میں 36.4 فیصد اضافہ ہوا جو کہ 1964 کے بعد سب سے زیادہ اضافہ ہے۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ پاکستان کی مہنگائی کی شرح نے سری لنکا میں قیمتوں میں اضافے کو پیچھے چھوڑ دیا ہے جہاں اپریل میں قیمتیں کم ہو کر 35.3 فیصد پر آ گئیں اور معاشی بحران سے بحالی کے آثار نظر آنے لگے ہیں۔
پاکستانی روپیہ 2023 میں عالمی سطح پر اب تک کی بدترین کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی کرنسیوں میں سے ایک ہے جس کی قدر ڈالر کے مقابلے میں 20 فیصد کم ہوئی اور درآمدی اشیا مزید مہنگی ہو گئیں۔
اعداد و شمار کے جائزے سے پتا چلتا ہے کہ اپریل میں ٹرانسپورٹ کی قیمتوں میں 56.8 فیصد اضافہ ہوا جب کہ کھانے پینے کی اشیا کی مہنگائی میں ایک سال قبل کے مقابلے میں 48.1 فیصد اضافہ ہوا۔
اس کے علاوہ کپڑوں اور جوتوں کی قیمتوں میں 21.6 فیصد، رہائش، پانی اور بجلی کی قیمتوں میں 16.9 فیصد اضافہ ہوا۔
رپورٹ کے مطابق حکام کی جانب سے 6 ارب 50 کروڑ ڈالر قرض پروگرام کی بحالی کے لیے آئی ایم ایف کی شرائط کو پورا کرنے کے لیے ٹیکس اور ایندھن کی قیمتوں میں اضافے کے بعد پاکستان میں مہنگائی مزید بڑھنے کے خدشات ہیں۔
آئی ایم ایف بیل آؤٹ پروگرام پاکستان کو خوراک اور ایندھن جیسی ضروری درآمدات کی ادائیگی میں مدد کرنے اور آنے والے مہینوں میں ڈیفالٹ سے بچنے کے لیے بہت اہم ہوگا، تاہم آئی ایم ایف پروگرام دوبارہ شروع کرنے سے قبل فنانسنگ کی یقین دہانیاں چاہتا ہے۔
قیمتوں کے دباؤ پر قابو پانے کے لیے اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے گزشتہ ماہ شرح سود کو بڑھا کر 21% کر دیا جو کہ مرکزی بینک کے 1956 کے اعداد و شمار کے بعد سب سے زیادہ ہے، گزشتہ سال کے سیلاب کے بعد بحالی کے لیے کوشاں ملک میں مہنگائی کے باعث شرح سود میں اضافہ جاری رہ سکتا ہے، آئندہ مالیاتی پالیسی کا جائزہ 12 جون کو ہونا ہے۔
ساؤتھ ایشیا سینٹر اٹلانٹک کونسل کے ڈائریکٹر عزیر یونس کے مطابق مرکزی بینک نے گزشتہ ماہ کہا تھا کہ افراط زر کی شرح کم ہو رہی ہے لیکن حالیہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ یہ توقع غلط ہے۔
عزیر یونس نے کہا کہ حالیہ اعداد و شمار اس بات کا مزید ثبوت فراہم کرتے ہیں کہ مرکزی بینک اس وقت بھی پیچھے ہے، سب سے زیادہ تشویشناک بات خوراک کی قیمتوں میں مسلسل اضافہ ہے جبکہ ملک میں چالیس لاکھ سے زیادہ شہری خط غربت سے نیچے جا چکے ہیں اور خوراک کی بڑھتی قیمتوں کے باعث لاتعداد گھرانوں کو مزید صدمے کا سامنا کرنا پڑے گا۔
رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ مہنگائی وزیر اعظم شہباز شریف پر مزید دباؤ ڈال رہی ہے جو کہ اس وقت سیاسی بحران سے بھی نبرد آزما ہیں جب کہ ان کے سیاسی مخالف عمران خان قبل از وقت انتخابات چاہتے ہیں اور انہوں نے دھمکی دی ہے کہ اگر ان کے مطالبات نہ مانے گئے تو وہ سڑکوں پر احتجاج کریں گے۔
خیال رہے کہ پاکستان معاشی بحران کی وجہ سے کئی ماہ سے توازن ادائیگیوں کے عدم توازن کا سامنا کر رہا ہے جبکہ عالمی مالیاتی ادارے (آئی ایم ایف) سے 6.5 ارب ڈالر کے پیکیج میں شامل 1.1 ارب ڈالر کے حصول کے لیے مذاکرات جاری ہیں۔
حکومت کی جانب سے آئی ایم ایف سے فنڈنگ کے حصول کے لیے اقدامات کیے جاچکے ہیں، جس میں ایکسچینج ریٹ کو مارکیٹ کی بنیاد پر رکھنا بھی شامل ہیں، جس کے نتیجے میں روپے کی قدر میں کمی آئی، اسی طرح ٹیکس میں اضافہ، سبسڈیز کا خاتمہ اور شرح سود میں اضافہ کر کے ریکارڈ 21 فیصد کردیا گیا ہے۔
وزارت خزانہ نے کہا تھا کہ آئی ایم ایف سے معاہدے کے بعد بیرونی سرمایہ کاری اور ڈالر کی آمد ہوگی اور ایکسچینج ریٹ مستحکم ہوگی، اس کے ساتھ ساتھ مہنگائی کے دباؤ پر بھی کسی حد تک قابو پالیا جائے گا۔
ملک میں ہونے والی مہنگائی کی وجہ سے ہر شعبہ متاثر ہوا ہے اور عوام کی قوت خرید میں کمی آئی ہے اور بڑی تعداد میں شہری مدد کے خواہاں ہیں۔