سرکاری کمپنیوں کا بینکوں سے لیا گیا قرض 2 کھرب 82 ارب روپے کی سطح تک جاپہنچا
رواں مالی سال کے ابتدائی 10 ماہ میں سرکاری کمپنیوں (پی ایس ایز) کا قرضہ بڑھ کر 2 کھرب 82 ارب روپے ہوگیا جو گزشتہ سال کی اسی مدت میں صرف 14 ارب روپے تھا جو سرکاری اداروں کی انتہائی خراب مالی صورتحال کی عکاسی کرتا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق اسٹیٹ بینک آف پاکستان کی جانب سے جاری کردہ اعداد و شمار سے پتا چلتا ہے کہ پی ایس ایز کے قرضے کی نمو مالی سال 2022 کے آخر میں 43 ارب روپے اور مالی سال 2021 میں 53 ارب روپے کے مقابلے میں غیر معمولی طور پر زیادہ ہے۔
بینکرز نے کہا کہ قرضوں کا بہاؤ ان سرکاری اداروں کے نازک معاشی حالات کی عکاسی کرتا ہے۔
زیادہ تر پی ایس ایز کئی سال سے خسارے کا شکار ہیں اور حکومت نے انہیں ٹیکس دہندگان کے پیسے سے فعال رکھا ہوا ہے۔
ایک سینئر بینکر نے کہا کہ خسارے میں چلنے والی پاکستان انٹرنیشنل ایئر لائنز (پی آئی اے) نے پی ایس ایز کے مجموعی بینک قرضے میں بڑا حصہ ڈالا۔
قومی ایئرلائن گزشتہ ایک دہائی سے زائد عرصے سے خسارے کا شکار ہے لیکن کووڈ 19 اور تیل کی آسمان چھوتی قیمتوں نے اس کی مالی حالت کو مزید خراب کر دیا ہے۔
بینکر نے مالی سال 23 کے جولائی تا اپریل پی آئی اے کی جانب سے ادھار لی گئی رقم نہیں بتائی لیکن کہا کہ پاور سیکٹر کی کمپنیاں بھی خسارے کی وجہ سے بہت زیادہ قرض لے رہی ہیں۔
ٹیرف میں بڑے پیمانے پر اضافے کے باوجود پاور سیکٹر کی کمپنیوں کے نقصانات میں مسلسل اضافہ ہوتا رہا کیونکہ یہ کمپنیاں اپنے دائرہ اختیار سے واجب الادا رقم وصول کرنے میں ناکام رہیں۔
بینکر نے کہا کہ بڑھتے ہوئے گردشی قرض کے دوران پاور سیکٹر کی تقسیم کار کمپنیاں بڑے پیمانے پر قرض لے رہی ہیں۔
گردشی قرضے کے بارے میں دستیاب آخری اعداد و شمار کے مطابق یہ قرض رواں مالی سال کے ابتدائی 8 ماہ کے دوران 26 کھرب 70 ارب روپے تھا۔
مالی سال کے آغاز پر مجموعی گردشی قرض 22 کھرب 53 ارب روپے تھا جس میں 4 کھرب 19 ارب روپے کا اضافہ ہوا۔
بڑھتا ہوا گردشی قرضہ کرنٹ اکاؤنٹ خسارے جیسا ایک اور سنگین مسئلہ پیدا کر رہا ہے جب کہ چین کی کئی پاور کمپنیاں حکومت سے اپنے واجبات ادا کرنے کا کہہ رہی ہیں۔
گزشتہ 20 سال کے دوران ماضی کی تقریباً تمام حکومتوں نے خسارے میں جانے والے سرکاری اداروں کو بحال کرنے پر مناسب توجہ نہیں دی، پی ڈی ایم حکومت نے لیکویڈیٹی کی شدید کمی کا سامنا کرنے کے باوجود اس مسئلے کو حل کرنے کی کوشش نہیں کی۔
سب سے بڑی تشویش یہ ہے کہ خسارے میں جانے والی ان سرکاری کمپنیوں کے 45 ہزار سے زائد ملازمین ہیں اور واضح وجوہات کی بنا پر کوئی بھی حکومت سیاسی شور سے بچنے کے لیے ٹیکس دہندگان کے پیسوں سے ان کا پیٹ بھرنا بند نہیں کرسکتی۔