9 مئی کے ذمہ داروں کو ملکی قوانین کا سامنا کرنا پڑے گا، دفتر خارجہ
پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کے بارے میں محتاط بات کرتے ہوئے دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے کہا ہے کہ پاکستان 9 مئی کے واقعات کے ذمہ دار افراد کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے لیے اپنے قوانین اور بین الاقوامی ذمہ داریوں پر عمل کرے گا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق دفتر خارجہ کی ترجمان سے کہا گیا تھا کہ وہ پاکستان میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں، حراست کے دوران تشدد کے الزامات، اور آزادی اظہار، میڈیا اور سیاسی اجتماعات پر پابندیوں کے بارے میں بجنے والی خطرے کی گھنٹی پر تبصرہ کریں۔
9 مئی کے مشتبہ افراد کے خلاف کارروائی کا بالواسطہ دفاع کرتے ہوئے انہوں نے ہفتہ وار پریس بریفنگ میں بتایا کہ حکومت قانون اور آئین کے تحت اپنی ذمہ داریوں پر عمل کرتی رہے گی۔
یہ ریمارکس فوج کی اعلیٰ قیادت کی جانب سے انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے الزامات کو مسترد کرنے اور 9 مئی کے پرتشدد مظاہروں کے منصوبہ سازوں اور ماسٹر مائنڈز کے گرد گھیرا تنگ کرنے کے عزم کے بعد سامنے آئے۔
9 مئی کے واقعات کے دوران کچھ افغان شہریوں کی گرفتاری کی اطلاعات کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ ان اطلاعات کی تصدیق کی جا رہی ہے اور ان کے تخریبی سرگرمیوں میں ملوث ہونے کی صورت میں پاکستان کا قانون اپنا راستہ اختیار کرے گا۔
ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ ریاض میں ایران کے سفارت خانے کا قیام سفارتی تعلقات کو معمول پر لانے کے سلسلے میں ایک خوش آئند اور اہم پیش رفت ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ نے کہا کہ ہمارے خیال میں دونوں جانب سے سفارتی مشن کا دوبارہ کھلنا اعتماد سازی کا ایک ٹھوس اقدام ہے، یہ نہ صرف ایران اور سعودی عرب کے درمیان مثبت تعلقات میں اہم کردار ادا کرے گا بلکہ خطے میں امن اور استحکام پر بھی مثبت اثرات مرتب کرے گا’۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کی تاریخ ہے کہ اس نے اپنے دوستوں اور برادر ممالک ایران اور سعودی عرب کے درمیان خلیج کو ختم کرنے کی سفارتی اور پرامن کوششوں کی بھرپور حمایت کی ہے’۔
جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا سابق آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے ساتھ ناروا سلوک کا معاملہ فرانس کے ساتھ اٹھایا گیا ہے تو انہوں نے کہا کہ میڈیا پر ایک ویڈیو گردش کر رہی ہے جس کی ابھی تصدیق ہونا ہے۔
ممتاز زہرہ بلوچ نے یہ بھی کہا کہ ایران پاکستان گیس پائپ لائن ایک اہم منصوبہ ہے اور پاکستان اس کے لیے پرعزم ہے، تاہم اس کے نفاذ کے حوالے سے کچھ پیچیدگیاں ہیں۔