’غیر معمولی حالات میں غیر معمولی بجٹ ہونا چاہیے تھا‘
وفاقی وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے مالی سال 24-2023 کے لیے 145 کھرب روپے حجم کا بجٹ پیش کردیا، جس پر کاروباری حلقوں کی جانب سے ملا جلا ردعمل دیکھنے میں آرہا ہے۔
وفاقی بجٹ کو صدر لاہور چیمبر آف کامرس کاشف انور نے سراہا تاہم پشاور چیمبر آف کامرس نے اس پر عدم اطمینان کا اظہار کرتے ہوئے محض الفاظ کا گورکھ دھندہ قرار دیا۔
لاہور چیمبر آف کامرس کے عہدیداران کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے کاشف انور نے کہا کہ حکومت نے نان فائلرز کو فائلر بننے کی ترغیب اور زراعت کے شعبے کی ترقی کے لیے بہت سی مراعات کا اعلان کیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ تازہ بجٹ میں سب سے زیادہ توجہ آئی ٹی سیکٹر کو دی گئی ہے، فری لانسرز پر ٹیکس کی شرح کو کم کردیا گیا ہے، آئی ٹی کے شعبے میں ایکسپورٹ کرنے والی کمپنیوں کو کمپیوٹر وغیرہ درآمد کرنے پر چھوٹ دی گئی ہے، ایس ایم ای سیکٹر کو بھی بہت ریلیف دیا گیا ہے۔
کاشف انور نے کہا کہ حکومت، برآمدی شعبے کے فروغ کی بھی خواہشمند ہے، حکومت چاہتی ہے کہ اس بار ہماری برآمدات 30 ارب ڈالر تک چلی جائیں، ٹیکسٹائل انڈسٹری کے فروغ کے لیے بھی پاکستان میں نہ بننے والے دھاگے کی ڈیوٹی کو 5 فیصد کردیا گیا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ابھی میں رائے اس بنیاد میں پر دے رہا ہوں جو میں نے سنا ہے لیکن جب ایس آر اوز آئیں اور کسٹم ڈیوٹی کے ایس آر اوز آئیں گے تب واضح طور پر پتا چلے گا کہ کون کون سے شعبوں، انڈسٹری اور مشینری پر رعایت ملی ہے۔
دوسری جانب پشاور چیمبر آف کامرس اینڈ انڈسٹری کے قائم مقام صدر اعجاز خان آفریدی نے پریس کانفرنس کرتے ہوئے کہا کہ ملک میں بدترین معاشی صورتحال ہے، تاریخی مہنگائی ہے، لوگ ملک چھوڑ کر بھاگ رہے ہیں، غیر معمولی حالات میں ایک غیر معمولی بجٹ ہونا چاہیے تھا تاکہ لوگوں کا اعتماد بحال ہو سکے مگر ایسا نہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ تازہ بجٹ میں ٹیکسز بڑھائے گئے ہیں، ہدف 7 ہزار 200 سے بڑھا کر 9 ہزار 200 ارب روپے رکھا گیا ہے حالانکہ درآمدات ابھی بھی بند ہیں، ریونیو کہاں سے ملے گا۔
ان کا کہنا تھا کہ تازہ بجٹ محض اعدادوشمار کا گورکھ دھندہ ہے، اس میں کوئی ایسی بات نہیں ہے جس سے ہم موجودہ جمود سے نکل سکیں اور بحران ختم ہوسکے۔