• KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm
  • KHI: Maghrib 5:43pm Isha 7:02pm
  • LHR: Maghrib 5:01pm Isha 6:26pm
  • ISB: Maghrib 5:01pm Isha 6:28pm

واضح الفاظ میں دہشت گردی کی مذمت کی جانی چاہیے، وزیر اعظم کا ایس ای او سربراہی اجلاس سے خطاب

شائع July 4, 2023
شہباز شریف نے توانائی اور غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کو عالمی مسئلہ قرار دیا — فوٹو: ڈان نیوز
شہباز شریف نے توانائی اور غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کو عالمی مسئلہ قرار دیا — فوٹو: ڈان نیوز

وزیراعظم شہباز شریف نے شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کی کونسل آف ہیڈز آف اسٹیٹ (سی ایچ ایس) کے 23ویں اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا ہے کہ دہشت گردی کی تمام شکلوں اور اقسام کی واضح اور غیر مبہم الفاظ میں مذمت کی جانی چاہیے۔

بھارتی وزیراعظم کی میزبانی میں جاری ورچوئل سمٹ سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ ایس سی او رکن ممالک کے خطے میں امن اور استحکام کو یقینی بنانے کے مشترکہ مفادات ہیں جب کہ دنیا کے کسی بھی خطے میں معاشی ترقی کے لیے پیشگی شرط ہے۔

انہوں نے کہا کہ خطے میں پائیدار امن شنگھائی تعاون تنظیم کے تمام رکن ممالک کی ذمہ داری ہے، ریاستی دہشت گردی سمیت ہر قسم کی دہشت گردی کے ساتھ پورے عزم سےمل کر لڑنے کی ضرورت ہے، ’کنکٹیویٹی‘ کو جدید عالمی معیشت میں کلیدی اہمیت حاصل ہوگئی ہے، اس کے فروغ کے ذریعے معاشی استحکام حاصل کیا جاسکتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ سی پیک معاشی خوشحالی، امن اور استحکام میں گیم چینجر ثابت ہوگا، ترقی یافتہ ممالک کو ماحولیاتی تبدیلیوں سے ہونے والے نقصانات سے نمٹنے کے لیے ترقی پذیر ممالک کی مدد کرنی چاہیے، پاکستان رواں سال کے اختتام پر مواصلات سے متعلق ایس سی او اجلاس کی میزبانی کرے گا۔

وزیر اعظم نے قزاخستان کو تنظیم کی رکنیت ملنے پر مبارکباد دی، انہوں نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی کو بھی تنظیم کا مکمل رکن بننے پر مبارکباد پیش کی اور ایران کی شمولیت کو خوش آئند قرار دیا۔

انہوں نے بیلاروس کو تنظیم کے آئندہ اجلاس میں مکمل رکنیت دینے کے فیصلے کا بھی خیر مقدم کیا۔

شہباز شریف نے کہا کہ ایس سی او اجلاس ایسے وقت میں ہورہا ہے جب دنیا کو معاشی اور سلامتی کے چیلنجز کا سامنا ہے، انہوں نے کہا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کو امن، استحکام، سلامتی اور ترقی کے حوالے سے اپنا کردار بڑھنا چاہیے۔

انہوں نے کہا کہ کنکٹیویٹی جدید عالمی معیشت میں کلیدی اہمیت اختیار کرچکی ہے، کنکٹیویٹی کے لیے سرمایہ کاری کرنا ہوگی، ٹرانسپورٹ کوریڈورز کی تعمیر کے ذریعے معاشی استحکام حاصل کیا جاسکتا ہے۔

وزیر اعظم نے سی پیک کو معاشی خوشحالی، امن اور استحکام کے لیے گیم چینجر قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ بیلٹ اینڈ روڈ کا اہم منصوبہ ہے، پاکستان کو ایک منفرد جغرافیائی حیثیت حاصل ہے، سی پیک کے تحت خصوصی اقتصادی زون قائم کیے جارہے ہیں جو بندرگاہوں کے ساتھ منسلک ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان رواں سال کے اختتام پر مواصلات سے متعلق ایس سی او اجلاس کی میزبانی کرے گا، ساتھ ہی زور دیا کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کودہشت گردی کے خلاف پورے عزم کے ساتھ مل کر لڑنے کی ضرورت ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ دہشت گردی کے معاملے پر ڈپلومیٹک پوائنٹ اسکورنگ نہیں ہونی چاہیے اور ریاستی دہشت گردی سمیت ہر قسم کی دہشت گردی کی مذمت کرنی چاہیے کیونکہ کسی بھی قسم کی دہشت گردی کا کوئی جواز نہیں ہوسکتا۔

شہباز شریف نے سیاسی ایجنڈے کے تحت مذہبی اقلیتوں کو نشانہ بنانے کی بھی مذمت کی، انہوں نے کہا کہ دہشت گردی، انتہا پسندی کے خاتمے کے لیے شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کو مل کر کام کرنا ہوگا۔

ان کا کہنا تھا کہ پاکستان نے دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، خطے میں پائیدار امن تنظیم کے تمام رکن ممالک کی ذمہ داری ہے۔

انہوں نے عالمی برادری پر زور دیا کہ وہ افغانستان کی مدد کے لیے آگے بڑھے، کیونکہ پرامن اور مستحکم افغانستان خطے میں معاشی استحکام کا باعث بنے گا اور یہ شنگھائی تعاون تنظیم کے مقاصد کے حصول کے لیے بھی ضروری ہے۔

وزیراعظم نے کہا کہ ایس سی او افغانستان رابطہ گروپ اہم کردار ادا کر رہا ہے، عالمی مسائل کے حل کے لیے عالمی یکجہتی کی ضرورت ہے، انہوں نے ماحولیاتی تبدیلی کو اہم مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ عالمی برادری کو ماحولیاتی تبدیلی کے اثرات سے نمٹنے کے لیے مل کر اقدامات کرنا ہوں گے۔

انہوں نے کہا کہ پاکستان ماحولیاتی تبدیلی سے شدید متاثرہ ممالک میں شامل ہے، پاکستان نے گزشتہ سال ماحولیاتی تبدیلی کے تباہ کن اثرات کا سامنا کیا، سیلاب سے سیکڑوں افراد جاں بحق ہوئے جب کہ پاکستانی معیشت کو 30 ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔

شہباز شریف نے توانائی اور غذائی اشیا کی قیمتوں میں اضافے کو عالمی مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ غربت کے خاتمے کے لیے بھی عالمی برادری کو تعاون بڑھانے کی ضرورت ہے۔

واضح رہے کہ وزیراعظم پاکستان، بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کی دعوت پر ایس سی او سی ایچ ایس کے 23ویں اجلاس میں شریک ہوئے۔

دفتر خارجہ کی ترجمان کی جانب سے کہا گیا تھا کہ وزیراعظم کو ایس سی او کے سربراہ اجلاس میں شرکت کی دعوت بھارت کے وزیراعظم نے ایس سی او کے موجودہ سربراہ کی حیثیت سے دی۔

کونسل آف ہیڈز آف اسٹیٹ شنگھائی تعاون تنظیم کا اعلیٰ ترین فورم ہے، اس میں شرکت کرنے والے رہنما اہم عالمی اور علاقائی مسائل پر غور و خوض کریں گے اور ایس سی او کے رکن ممالک کے درمیان تعاون کی مستقبل کی سمت کا خاکہ بنائیں گے۔

بیان کے مطابق سربراہ اجلاس میں وزیراعظم کی شرکت اس بات کو واضح کرتی ہے کہ پاکستان شنگھائی تعاون تنظیم کو علاقائی سلامتی اور خوشحالی کے ایک اہم فورم کے طور پر اہمیت دیتا ہے اور خطے کے ساتھ روابط کو بڑھاتا ہے۔

یاد رہے کہ وزیر خارجہ بلاول بھٹو زرداری نے گزشتہ ماہ شنگھائی تعاون تنظیم کی وزرائے خارجہ کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لیے بھارتی شہر گوا کا دورہ کیا جہاں انہوں نے روسی ہم منصب سمیت دیگر رہنماؤں سے ملاقاتیں کی تھیں۔

بعد ازاں بلاول بھٹو نے بھارت میں ایس سی او کے اجلاس میں شرکت اور مقبوضہ کشمیر میں جی-20 پر سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا کہ بھارت میں منعقدہ شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے اجلاس میں شرکت کے لیے جانے سے پہلے فیصلہ کیا گیا تھا کہ اپنے بھارتی ہم منصب سے دوطرفہ ملاقات نہیں کریں گے، اگست 2019 کے بعد ایس سی او کے اجلاس میں شرکت کا فیصلہ میرے لیے انفرادی طور پر اور دفتر خارجہ کے لیے بہت مشکل تھا۔

بلاول بھٹو نے کہا کہ کشمیر کے مسئلے، پاک-بھارت دو طرفہ مسائل اور ایس سی او کے تحت ہماری دو طرفہ جو ذمہ داریاں ہیں، اس حوالے سے یہ دورہ تعمیری اور مثبت تھا اور آگے جا کر ہمارے وزیر اعظم یعنی ریاست کے سربراہان کے اجلاس میں شرکت کے حوالے سے ہمیں فیصلہ کرنا پڑے گا۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024