قومی ایئر لائن کو ری اسٹرکچر نہ کیا تو ایک سال میں بند ہوسکتی ہے، سعد رفیق
وفاقی وزیر ہوا بازی اور ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا ہے کہ اگر آپ نے پی آئی اے کو ری اسٹرکچر نہیں کیا تو یہ ایک، ڈیڑھ سال کے اندر بند ہوسکتی ہے۔
قومی اسمبلی کے الوداعی سیشن کے دوسرے روز خطاب کرتے ہوئے سعد رفیق نے کہا کہ ایئرپورٹس کو چلانے کا دنیا میں رائج سب سے بہترین طریقہ کار پرائیویٹ آپریٹر کے ذریعے چلانا ہے، بھارت نے اپنے 8 ایئرپورٹس کو آؤٹ سورس کردیا ہے، استنبول ایئر پورٹ، مدینہ انٹرنیشنل ایئر پورٹ سمیت بے شمار آؤٹ سورس ایئر پورٹس کی مثال دی جا سکتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ آؤٹ سورسنگ کا مطلب بیچنا یا گروی رکھنا نہیں ہے، اس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ کسی کو بے روزگار کیا جا رہا ہے، میں بارہا یہ کہتا رہا اور ذمے داری کے ساتھ ایوان میں یہ بیان دے رہا ہوں کہ حکومت اسلام آباد ایئر پورٹ کو آؤٹ سورس کرنے کے راستے پر چل رہی ہے، کوئی ملازم بے روزگار نہیں ہوگا، سب کو نوکری کا تحفظ اسی طرح حاصل رہے گا اور قانون کے مطابق ملنے والی تمام مراعات اسی طرح سے ملتی رہیں گی۔
وزیر ہوا بازی نے کہا کہ پاکستان کے ایئرپورٹس کو جی ٹی اے کا اڈا بنانے سے ہمیں گریز کرنا ہوگا، جن طریقہ کار پر دنیا چل رہی ہے، ہمیں ان کی پیروی کرنی ہوگی، اس لیے اگر کوئی دباؤ ڈالے گا، پریشرائز کرے گا تو ریاست کو وہ دباؤ بالکل نہیں لینا۔
’لوگ چاہتے ہیں ان کے کھانچے چلتے رہیں، کھانچے چلتے رہے تو ملک نہیں چلنا‘
سعد رفیق نے کہا کہ ہم ڈوب رہے ہیں، ہمارے ادارے ڈوب رہے ہیں، اس کی وجہ گندی سیاست ہے، ہر وقت کی سیاست بازی، اپنے لوگوں کو اداروں میں بھرنا، جہاں دس لوگوں کی ضرورت ہے، وہاں 50 لوگوں کو بھردیا گیا ہے، اس ملک کو برباد کرنے کی دردناک داستان ہے، جس میں مارشل لا اور سیاسی دونوں طرح کی حکومتیں شامل رہی ہیں، میں اس کی تفصیل میں نہیں جانا چاہتا، اس کا وقت نہیں ہے۔
انہوں نے کہا کہ بعض لوگ چاہتے ہیں کہ ان کے کھانچے چلتے رہیں، اگر کھانچے چلتے رہے تو پھر ملک نہیں چلنا، وقت آچکا کہ سچے، درست اور تلخ فیصلے کیے جائیں، میں ذاتی طور پر اداروں کی نجکاری کرنے کا حامی شخص نہیں ہوں لیکن مجھ جیسے آدمی کو بھی سمجھ آگئی ہے کہ اگر پی آئی اے اسی طرح چلتی رہی، اگر یہ جس طرح اس وقت چل رہی ہے تو 2030 میں اس کا خسارہ 259 ارب کا خسارہ ہوگا جس کا اس سال خسارہ 80 ارب ہے، کیا پاکستان یہ سب برداشت کرسکتا ہے۔
’پی آئی اے کو نجکاری کے راستے پر ڈال کر جائیں گے، آنے والی حکومت اس کو مکمل کرے گی‘
سعد رفیق نےکہا کہ اس سے بچنے کے لیے ہمیں وہی کرنا ہوگا جو ساؤتھ افریقین ایئرلائن اور ایئر انڈیا نے کیا ہے، ٹاٹا نے ایئر انڈیا کے لیے 450 نئے جہازوں کا آرڈر دیا ہے، ریاست نہیں چلاسکتی، ریاست صرف اس بات کو یقینی بنائے کہ کوئی شخص بےروزگار نہ ہو، کسی کو نکالا نہ جائے۔
انہوں نے کہا کہ پی آئی اے کی ایک ہولڈنگ کمپنی بنے گی، اس کا قرضہ 740 ارب روپے ہے، وہ جائے گا، اس کی تمام پراپرٹی جائیں گی، اس کی تمام اسٹرینتھ اس میں جائیں گی، پھر اس کے کچھ شیئرز کو آف لوڈ کیا جائے گا، اس میں کئی ارب ڈالرز کی سرمایہ کاری چاہیے، اس کے صرف 27، 28 جہاز آپریشنل ہیں، آپ گلف کی طاقتور ایئرلائنز کا مقابلہ نہیں کرسکتے، اگر آپ نے پی آئی اے کو ری اسٹرکچر نہیں کیا تو یہ ایک، ڈیڑھ سال کے اندر بند ہوسکتی ہے، میں یہ بیان ذمے داری کے ساتھ دے رہا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم اس کو اس راستے پر ڈال کر جائیں گے، آنے والی حکومت اس کو مکمل کرے گی، تمام ملازمین کے حقوق کی حفاظت کی جائے، کوئی بے روزگار نہ ہو، کوئی سیاست نہ کی جائے، اس کی اجازت نہ دی جائے، اگر کوئی ناراض ہوتا ہے تو اس کو ہونے دیا جائے لیکن پاکستان کے ریاستی اداروں کو بچائیں۔
وزیر ہوابازی کا کہنا تھا کہ آپ ان کو منافع بخش بنا سکتے ہیں بشرطیکہ ہے کہ نجی سرمایہ کار شفافیت اور میرٹ کی بنیاد پر آئے، فارن ڈائریکٹ انویسٹمنٹ آئے، پی آئی اے کے روٹس قیمتی ہیں، ان روٹس کا استعمال ہی نہیں ہے، ہم جا ہی نہیں رہے، گزشتہ روز جو قانون سازی ہوئی، وہ پی آئی اے کی فلائٹس بحال کرنے میں آخری رکاوٹ تھی، سابق وزیر غلام سرور خان کے احمقانہ اور جاہلانہ بیان کی وجہ سے پی آئی اے کو ہر سال 70 ارب روپے کا چونا لگا۔
’3 مہینے میں برطانیہ کے لیے فلائٹس بحال ہوجائیں گی‘
انہوں نے کہا کہ توقع ہے کہ 3 مہینے میں برطانیہ کے لیے فلائٹس بحال ہوجائیں گی، 5 آپ کی ایئر لائنز ہیں جن میں ایک پی آئی اے اور چار نجی ہیں، بیرون ملک پاکستانیوں کے لیے یہ اچھی خبر ہے کہ تین ماہ میں کم از کم برطانیہ کے لیے پروازیں بحال ہوجائیں گی، اس کے بعد یورپی یونین اور امریکا کے لیے فلائٹس بحال ہوں گی۔
خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ ایوان کو یقین دلاتا ہوں کہ کوئی شخص بےروزگار نہیں ہوگا، اپنے ایئرپورٹس کو بہترین بنائیں گے، وہاں گملے اور سیٹیں لگوانا میرا کام نہیں ہے، یہ سب کام میں نے کیے لیکن ایسے نہیں چلنا، آپ کو وہ آپریٹر لانے پڑیں گے جو پوری دنیا میں ایئر پورٹس کو آپریٹ کرتے ہیں، آپ کو 35، 40 یا 50 فیصد جو بھی آنے والی حکومت فیصلہ کرے گی، اتنا نجی شعبے کو لانا پڑے گا، اسی طرح ریلوے کے بھی پروڈکشن یونٹ سب خسارے میں ہیں، ان میں بھی آپ کو صنعت کاروں کو لانا پڑے گا۔
زراعت اور کنسٹرکشن پر کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا جائےگا، وزیر خزانہ
وزیر خزانہ اسحٰق ڈار نے آئی ایم ایف کے ساتھ ہونے والے معاہدے کی دستاویزات قومی اسمبلی میں پیش کر دیں جب کہ انہوں نے عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) کے ساتھ ہونے والے معاہدے کے تحت زراعت اور ریئل اسٹیٹ پر کسی بھی قسم کے نئے ٹیکس کی تردید کی ہے۔
قومی اسمبلی میں اظہار خیال کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ اس ایوان کو بتایا تھا کہ آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے پر بطور وزیر خزانہ میں اور گورنر اسٹیٹ بینک اس پر دستخط کریں گے اور اس کی کاپی اس ہاؤس کو فراہم کریں گے، یہ کام شفافیت کے لیے ضروری ہے، اس طرح کی جو بھی پیش رفت ہو اس سے اس ایوان کے معزز اراکین کو آگاہ کرنا ضروری ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ماضی میں بھی آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے ہوئے، 1999 میں ایٹمی دھماکوں کے بعد 8 ماہ آئی ایم ایف کا پروگرام معطل ہونے کے بعد بحال ہوا تو اس کی تفصیلات ویب سائٹ پر ڈال دی تھیں۔
انہوں نے لیٹر آف انٹینٹ، میمورنڈم آف اکنامک اینڈ فنانسل پالیسیز اور ٹیکنیکل میمورنڈم آف انڈر اسٹینڈنگ کی کاپیاں لائبریری میں رکھنے کے لیے پیش کیں تاکہ کوئی بھی اس کو دیکھ سکے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ نواں جائزہ نومبر 2022 میں ہونا تھا جب کہ دسواں جائزہ فروری 2023 اور گیارہواں جائزہ مئی 2023 میں ہونا تھا، ان تینوں کی مالیت 2.5 ارب ڈالر تھی، یہ پروگرام 2019 میں شروع ہوا تھا، 2022 میں یہ ختم ہو جانا چاہیے تھا لیکن پروگرام معطل ہوئے، گزشتہ حکومت کے معاہدے سے انحراف کی وجہ سے اس میں وقت لگا۔
انہوں نے کہا کہ بجٹ کے دنوں میں اس حوالے سے سوال بھی پوچھے گئے، ہماری اس حوالے سے تیاریاں مکمل تھیں، ہم نے کوششیں کیں کہ دسویں اور گیارہویں جائزے کے 1.4 ارب ڈالر لیپس ہونے سے بچ جائیں، ہم نے اس کا سائز ڈھائی ارب ڈالر کے بجائے ساڑھے 3 ارب ڈالر تک لے جانے کی کوشش کی، 3 ارب ڈالر پر ہماری مفاہمت ہو گئی جس کی مدت 9 ماہ رکھی گئی ہے، تاکہ نئی حکومت کے آنے تک یہ پروگرام ختم ہو چکا ہو اور حکومت اقتدار سنبھالنے کے بعد ملکی مفاد میں اقدامات اٹھائے۔
اسحٰق ڈار نے بتایا کہ 215 ارب کے مالیاتی اقدامات اٹھائے، ہم نے اپنے اخراجات کم کیے، اس کے نتیجے میں بجٹ کی منظوری کے بعد اسٹاف لیول معاہدہ ہوا، 30 جون کو اسٹاف لیول معاہدے کے بعد 12 جولائی تک متحدہ عرب امارات اور سعودی عرب نے وعدے کے مطابق ہمیں امداد فراہم کی، 12 جولائی کو بورڈ کی سطح پر معاہدے کی منظوری ہوئی جس کے بعد ایک ارب 19 کروڑ ڈالر پاکستان کو موصول ہوگئے، اس سے غیر ملکی زرمبادلہ کے ہمارے ذخائر کی مینجمنٹ میں مدد ملی۔
ان کا کہنا تھا کہ نئی حکومت کے آنے پر اسٹیٹ بینک کے پاس 9.6 ارب ڈالر اور کمرشل بینکوں کے پاس 5 ارب ڈالر تھے، ملکی زرمبادلہ کے ذخائر 14 ارب ڈالر کے قریب تھے، ہم نے یہ فیصلہ کیا کہ تمام ساورن ادائیگیاں وقت پر کرنی ہیں اور اس پر کوئی تاخیر یا ڈیفالٹ نہیں کرنا، اس وجہ سے ہمارے زرمبادلہ کے ذخائر ایک وقت میں 8 ارب ڈالر تک آ گئے۔
وزیر خزانہ نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ہم اپنے ذخائر اسی سطح پر چھوڑ کر جائیں جتنے آتے وقت تھے، ہم نے بروقت ادائیگیاں بھی کیں۔
انہوں نے کہا کہ ہماری کوشش ہے کہ ایسی پالیسی ہو کہ آنے والے وقتوں میں مہنگائی کا طوفان تھمے، اسٹیٹ بینک کا کہنا ہے کہ دو سال میں افراط زر کی شرح 7 فیصد تک آ جائے گی، یہ ملک کے لیے ایک اچھی خبر ہے، ہمیں سیاست کو ایک طرف رکھ کر میثاق معیشت کرنا چاہیے۔
انہوں نے بتایا کہ آئی ایم ایف معاہدے کی زراعت اور تعمیرات پر ٹیکس لگانے کے حوالے سے اخبارات میں خبریں چھپیں، ہم اس کی تردید کرتے ہیں کہ زراعت اور ریئل اسٹیٹ پر کوئی ایک بھی نیا ٹیکس لگایا جائے گا، ہم نے جتنی تکلیف کاٹنی تھی وہ کاٹ چکے ہیں، ان خبروں کے چھپنے سے دیہی علاقوں کے زراعت سے وابستہ افراد میں تشویش پیدا ہوئی، ہم نے معاہدے کی کاپیاں فراہم کر دی ہیں، اس میں مستقبل کے تمام وعدے شامل ہیں۔
انہوں نے کہا کہ وزارت خزانہ کو واضح ہدایات دی ہیں کہ رات 12 بجے سے پہلے یہ تینوں دستاویز ویب سائٹ پر ڈال دی جائیں تاکہ ان تک ہر کسی کو رسائی حاصل ہو۔