گلگت بلتستان میں بلدیاتی انتخابات نومبر کے پہلے ہفتے میں کرانے کا اعلان
الیکشن کمیشن گلگت بلتستان نے 18 سال بعد تمام 10 اضلاع میں جماعتی بنیادوں پر بلدیاتی انتخابات نومبر کے پہلے ہفتے کرانے کا اعلان کر دیا۔
چیف الیکشن کمشنر راجا شہباز خان نے الیکشن کمشنر عابد رضا کے ہمراہ پریس کانفرنس میں کہا کہ بلدیاتی انتخابات میں تاخیر سابق وزیر اعلیI خالد خورشید کی مخالفت اور الیکشن کے خلاف عدالت جانے سے ہوئی ہے، اب نئی حکومت کے پہلے کابینہ اجلاس میں منظوری دینے پر تیاریاں شروع کر دی گئی ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ انتخابات، لوکل باڈیز الیکشن ایکٹ 2014 کے تحت ہوں گے، جس کے تحت پہلی بار اقلیتوں کے لیے کوٹہ مقرر کر دیا ہے۔
راجا شہباز خان نے کہا کہ گلگت اور بلتستان میں جہاں شہری آبادی ایک لاکھ سے زائد ہے، وہاں میٹرو پولیٹن کارپوریشن کے لیے الیکشن ہوں گے جبکہ ایک لاکھ کی آبادی کی شہری آبادیوں میں میونسپل کارپوریشنز اور 50 ہزار تک کی آبادی کے لیے میونسپل کمیٹیاں ہوں گی۔
انہوں نے بتایا کہ یہ انتخابات میٹرو پولیٹن کارپوریشن، میونسپل کارپوریشن، میونسپل کمیٹیز، تحصیل کونسل، ڈسٹرکٹ کونسل اور ٹاؤن کمیٹیوں کے لیے ہوں گے، جن کے لیے حد بندی اور حلقہ بندیوں کا عمل پندرہ دنوں میں مکمل کر لیا جائے گا۔
ان کا کہنا ہے کہ الیکشن کو منصفانہ، شفاف اور غیر جانبدارانہ بنانے کے لیے تمام جماعتوں اور سول سوسائٹی سے رائے لی جائے گی، بلدیاتی نظام بحال ہونے سے سیاسی سرگرمیاں بڑھ جائیں گی اور عوام کو اپنے دہلیز پر مسائل حل کرنے میں مدد ملے گی۔
ایک سوال کے جواب میں چیف الیکشن کمشنر گلگت بلتستان کا کہنا تھا کہ گلگت بلتستان میں اس سے قبل انتخابات 1979 کے ایکٹ کے تحت ہوتے تھے، اب نئے نظام سے بڑے شہری اداروں کا قیام عمل میں آئے گا اور پہلی بار میئر اور ڈپٹی میئر کے لیے انتخاب ہو گا۔
انتخابات میں 18 سال کی تاخیر کے ذمہ دار اداروں کے بارے میں پوچھے گئے سوال پر چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ حکومتیں قانون منظور کرتی نہیں تھیں، پھر ہم انتخابات کیسے کروا دیتے۔
انہوں نے سابق وزیر اعلیٰ خالد خورشید کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ الیکشن کمیشن نے متعدد بار الیکشن کے لیے رابطے کیے مگر انہوں نے لوکل باڈیز ایکٹ بنانے کے لیے کروڑوں خرچ کر کے سونی جواری کے نام پر ادارہ بنا کر کروڑوں خرچ کیے مگر آج تک اس ادارے نے لوکل باڈیز ایکٹ کے لیے کوئی کام نہیں کیا، یوں خزانے سے بھاری رقم بے مقصد خرچ کی گئی اور عوام کے قیمتی تین سال انتظار میں ضائع کر دیے گئے۔
خیال رہے کہ 19 جولائی کو گلگت بلتستان کی کابینہ نے اپنے پہلے اجلاس میں بلدیاتی انتخابات کرانے کا فیصلہ کیا تھا، جس کے ساتھ ہی اس معاملے پر طویل عرصے سے جاری قانونی تناؤ کا خاتمہ ہوگیا تھا۔
اجلاس میں وزیر اعلیٰ حاجی گلبر خان نے گلگت بلتستان کے چیف الیکشن کمشنر راجا شہباز خان کو طویل عرصے سے تاخیر کا شکار بلدیاتی انتخابات کے انتظامات کرنے کی ہدایات جاری کردیں تھیں۔
یاد رہے کہ اپریل 2021 میں گلگت بلتستان کی چیف کورٹ نے حکومت اور الیکشن کمیشن کو ہدایت دی تھی کہ خطے میں فوری طور پر بلدیاتی انتخابات کرائے جائیں۔
اپنے مختصر فیصلے میں چیف کورٹ نے کہا تھا کہ گلگت بلتستان حکومت غیر منتخب انتظامی عہدیداروں کے ذریعے بلدیاتی اداروں کو غیر قانونی طور پر چلا رہی ہے جو بلدیاتی اداروں کے نام پر فنڈز مختص کر رہے ہیں، یہ منصفانہ تقسیم، شفافیت اور گڈ گورننس کے اصولوں کے خلاف ہے۔
فیصلے پر عمل درآمد نہ ہونے کی وجہ سے چیف کورٹ نے 12 جون 2022 کو گلگت بلتستان کی حکومت کو حکم دیا تھا کہ وہ ایک ماہ کے اندر بلدیاتی انتخابات کا شیڈول جاری کرے۔
تاہم اس وقت کے وزیراعلیٰ خالد خورشید خان نے اس فیصلے کو گلگت بلتستان کی سپریم اپیل کورٹ میں چیلنج کیا تھا جس نے چیف کورٹ کے حکم کو معطل کردیا تھا، اس وقت سے یہ مقدمہ اپیل کورٹ میں زیر التوا ہے۔
یاد رہے کہ 13 جولائی کو گلگت بلتستان کے قائد ایوان کے لیے ہونے والے انتخاب میں فاروڈ بلاک کے امیدوار حاجی گلبر خان وزیر اعلیٰ منتخب ہوگئے تھے۔
4 جولائی کو گلگت بلتستان کی چیف کورٹ نے وزیر اعلیٰ خالد خورشید خان کو جعلی ڈگری کیس میں نااہل قرار دے دیا تھا، جس کے بعد اگلے روز نئے وزیر اعلیٰ کا انتخاب ہونا تھا، تاہم انتخابات سے قبل پولیس کی بھاری نفری نے اسمبلی میں داخل ہوکر اسمبلی ہال کو سیل کرکے ملازمین اور صحافیوں کو اسمبلی عمارت سے نکال دیا جس کی وجہ سے انتخابی عمل بے یقینی سے دوچار ہوگیا تھا۔
بعد ازاں 13 جولائی کو انتخابات ہوئے تھے، جس میں حاجی گلبر خان وزیر اعلیٰ منتخب ہوئے تھے۔