اپوزیشن لیڈر راجا ریاض نگران وزیراعظم کے نام پر اتفاق رائے کیلئے پرامید
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف راجا ریاض نے امید کا اظہار کیا ہے کہ وہ اور وزیر اعظم شہباز شریف نگراں وزیر اعظم کے لیے کسی نام کے انتخاب کے سلسلے میں اتفاق رائے پر پہنچ جائیں گے۔
قومی اسمبلی کی مدت 12 اگست کو ختم ہو رہی ہے اور حکومتی ارکان کے درمیان عبوری سیٹ اَپ کی تفصیلات پر اجلاس جاری ہیں۔
اگر حکومت 12 اگست کو قومی اسمبلی کی مدت پوری ہونے سے قبل تحلیل ہو جاتی ہے تو آئندہ 90 روز میں انتخابات کرائے جائیں گے، اگر اسمبلی اپنی مدت پوری کرتی ہے تو الیکشن کمیشن آف پاکستان اگلے 60 روز کے اندر انتخابات کرانے کا پابند ہے۔
نگران حکومت کے امیدواروں پر وزیر اعظم اور اپوزیشن لیڈر کے درمیان قانونی طور پر ضروری مشاورت کا آغاز ہونا ابھی باقی ہے، رواں ماہ کے شروع میں راجا ریاض نے کہا تھا کہ ان کی اور وزیر اعظم شہباز شریف کے درمیان یکم اگست کے قریب ملاقات متوقع ہے۔
آج رات 7 بجے نشر کیے جانے والے ڈان نیوز کے پروگرام ’دوسرا رخ‘ میں اینکر نادر گرمانی کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے اپوزیشن لیڈر راجا ریاض نے کہا کہ نگران وزیر اعظم کا معاملہ الیکشن کمیشن میں جانے کی نوبت نہیں آئے گی، میری وزیر اعظم شہباز شریف کے ساتھ بہت اچھی ورکنگ ریلیشن شپ ہے، ہم کسی ایک نام پر متفق ہوجائیں گے۔
انہوں نے کہا کہ نگران وزیراعظم کے معاملے پر شہباز شریف کے ساتھ کوئی ضد کی بات نہیں ہے، شہباز شریف نے مناسب نام دیا تو ان کا دیا گیا نام مان لوں گا، ضد کی بات نہیں ہے کہ میں نے اپنا ہی نام منوانا ہے، انتخابات تین ماہ میں ہوں گے یا پھر دو سال بعد ہوں گے۔
راجا ریاض نے کہا کہ موجودہ وزیر خزانہ سینیٹر اسحٰق ڈار نگران وزیراعظم بنے تو انتخابات متنازع ہو جائیں گے، اسحٰق ڈار کے زیر نگرانی انتخابات پر انگلیاں اٹھیں گی، جمہوریت کو دیکھنا ہے تو انتخابات وقت پر کروانے چاہیے، اگر آپ نے ملک کے معاشی حالات کو دیکھنا ہے تو پھر دوسری صورتحال بہت سنگین اور خطرناک ہے۔
انہوں نے کہا کہ میں تو اس حق میں ہوں کہ ملک کو مضبوط کرنا چاہیے، الیکشن اتنے ہو چکے ہیں، آگے بھی ہوتے رہنے ہیں۔
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف نے کہا کہ سابق خاتون اول بشریٰ بی بی جہانگیر ترین اور علیم خان سے سخت ناراض تھیں، بشریٰ بی بی نے سازش کے تحت جہانگیر ترین اور علیم خان کو چیئرمین پی ٹی آئی سے دور کیا، میرے پاس ثبوت ہے کہ بشریٰ بی بی نے کہا کہ میں نے ان دونوں کو پارٹی میں نہیں رہنے دینا، سابق وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کے بھی بشریٰ بی بی کے ساتھ رابطے تھے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ بشریٰ بی بی جادو ٹونے کرکے صبح چیئرمین پی ٹی آئی کو بتاتی تھیں کہ آج آپ نے یہ فیصلے کرنے ہیں، سو فیصد جادو ٹونے ہوتے تھے، بشریٰ بی بی جادو ٹونوں کے ذریعے فیصلوں کے بدلے پیسے لیتی تھیں۔
ان کا کہنا تھا کہ ملک کے ساتھ سب سے بڑی زیادتی عثمان بزدار کو وزیر اعلیٰ پنجاب بناکر کی گئی، عثمان بزدار بشریٰ بی بی کے پسندیدہ تھے، ان کے کہنے پر انہیں وزیر اعلیٰ پنجاب بنایا گیا، عثمان بزدار کے دور میں ڈپٹی کمشنر اور ڈی پی او کی پوسٹس بھی بکتی تھیں۔
راجا ریاض نے الزام لگایا کہ عثمان بزدار، فرح گوگی کو پیسے دیتے تھے اور وہ پیسے بشریٰ بی بی تک پہنچتے تھے، میں نے عمران خان کے ساتھ کرپشن کا معاملہ اٹھایا، لیکن انہوں نے کہا کہ میں نے آئی بی سے چیک کروایا ہے آپ غلط کہہ رہے ہیں۔
’تحریک انصاف پر پابندی لگنی چاہیے‘
انہوں نے کہا کہ اب پتا چلا ہے کہ اعظم خان نے آئی بی میں اپنا بندہ لگایا ہوا تھا، بشریٰ بی بی، اعظم خان کے ذریعے آئی بی سے اپنی مرضی کی رپورٹس بنواتی تھیں، اپنی مرضی کی رپورٹس بنوا کر چیئرمین پی ٹی آئی کے سامنے رکھی جاتی تھیں، شیخ رشید اور فواد چوہدری سمیت دیگر کچھ لوگ عمران خان کو غلط رپورٹس دیتے تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے بھی چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ کرپشن کا معاملہ اٹھایا، عمران خان نے جو میرے ساتھ کیا وہی عاصم منیر کے ساتھ کیا، وہ مجھے نہیں ہٹا سکتے تھے تو مجھ سے ناراض ہوگئے اور عاصم منیر کا اسی دن تبادلہ کروا دیا۔
اپوزیشن لیڈر کا کہنا تھا کہ یہ سو فیصد درست ہے کہ عاصم منیر نے چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ کرپشن کا معاملہ اٹھایا تھا، عمران خان نے اپنی مرضی کا آرمی چیف لانے اور آئندہ پانچ سال کی حکومت بنانے کا منصوبہ بنایا ہوا تھا۔
انہوں نے چیئرمین پی ٹی آئی کے خلاف آرٹیکل 6 کے تحت کارروائی اور پارٹی پر پابندی کا مطالبہ کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے خلاف جو بھارت نہ کر سکا وہ تحریک انصاف نے کیا، آرمی تنصیبات اور شہدا کے مجسموں پر حملوں کی ہر شہر میں منصوبہ بندی کی گئی تھی۔
راجا ریاض نے کہا کہ چیئرمین پی ٹی آئی نے زمان پارک میں بیٹھ کر ہدایات دیں اور ہر شہر کی ٹیمیں مقرر تھیں، تحریک انصاف پر پابندی لگنی چاہیے اور آرٹیکل چھ کے تحت کارروائی ہونی چاہیے، سویلینز آرمی کی حدود میں کیوں گئے؟ سویلینز کے خلاف ملٹری ٹرائل ہونا چاہیے، یہ لوگ ان کی حدود میں گئے تو پھر ان کی حدود کے تحت مقدمہ چلنا چاہیے۔
انہوں نے کہا کہ شاہ محمود قریشی عمران خان کے ساتھ مخلص ہیں؟ چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ جو مخلص ہیں وہ یا جیل میں ہیں یا بھاگے ہوئے ہیں، جو سامنے ہیں وہ وہ چیئرمین پی ٹی آئی کے ساتھ مخلص نہیں ہیں۔