امریکی صدر جو بائیڈن کا چین میں امریکی سرمایہ کاری محدود کرنے کا اعلان
امریکی صدر جو بائیڈن نے چین میں حساس ہائی ٹیک علاقوں میں امریکی سرمایہ کاری محدود کرنے کے لیے ایگزیکٹو آرڈر جاری کر دیا جبکہ بیجنگ نے اس اقدام کو ’عالمگیریت کے مخالف‘ قرار دیا۔
غیر ملکی خبر رساں ادارے ’اے ایف پی‘ کی رپورٹ کے مطابق طویل عرصے سے متوقع یہ قواعد اگلے سال لاگو سے ہوں گے، جن میں سیمی کنڈکٹرز اور مصنوعی ذہانت جیسے شعبوں کو ہدف بنایا جائے گا کیونکہ واشنگٹن کلیدی ٹیکنالوجیز تک چین کی رسائی محدود کرنا چاہتا ہے۔
جو بائیڈن نے کانگریس رہنماؤں کو خط لکھ کر ایگزیکٹو آرڈر سے مطلع کرتے ہوئے کہا کہ ’امریکا کا کھلی سرمایہ کاری کا عزم ہماری اقتصادی پالیسی کا سنگِ بنیاد ہے اور اس سے امریکا کو خاطر خواہ فائدہ ہوتا ہے‘۔
انہوں مزید کہا گیا کہ تاہم مخصوص سرمایہ کاری ان ممالک میں حساس ٹیکنالوجیز اور مصنوعات کی ترقی میں ان کی کامیابی بڑھا سکتی ہے جو انہیں امریکا اور اس کے اتحادیوں کی صلاحیتوں کا مقابلہ کرنے کے قابل بنائے گی۔
محکمہ خزانہ کے مطابق یہ پروگرام چین میں جدید سیمی کنڈکٹرز اور کچھ کوانٹم انفارمیشن ٹیکنالوجیز میں نئی پرائیویٹ ایکویٹی، وینچر کیپیٹل اور جوائنٹ وینچر کی سرمایہ کاری پر پابندی لگانے کے لیے تیار ہے۔
ایک سینئر سرکاری اہلکار نے نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ’سرمایہ کاری پروگرام امریکا کی قومی سلامتی صلاحیتوں میں ایک اہم خلا کو پُر کرے گا‘۔
ان کا کہنا تھا کہ ’ہم جس بارے میں بات کر رہے ہیں وہ ایک تنگ اور سوچا سمجھا نقطہ نظر ہے کیونکہ ہم (چین) کو جدید عسکری ٹیکنالوجی کو فروغ دینے اور امریکی قومی سلامتی کو نقصان پہنچانے کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کے حصول اور استعمال سے روکنا چاہتے ہیں‘۔
محکمہ خزانہ نے کہا کہ چین امریکی سرمایہ کاری کا فائدہ اٹھا کر فوجی جدت حاصل کرنے کے لیے اہم حساس ٹیکنالوجیز تیار کرنے کی اپنی صلاحیت کو بڑھا سکتا ہے۔
لیکن یہ عوامی سطح پر تجارت کی جانے والی سیکیورٹیز اور بڑی امریکی کمپنیوں کے ماتحت اداروں میں منتقلی میں کچھ امریکی سرمایہ کاری کے لیے استثنیٰ پیدا کرنے کی توقع کرتا ہے۔
چین کی وزارت خارجہ نے اس اقدام کو ’عالمگیریت مخالف اور چین کے اثر و رسوخ کو کم کرنے‘ کی کوشش قرار دیتے ہوئے متنبہ کیا کہ ’چین، اپنے حقوق اور مفادات کا مکمل تحفظ کرے گا‘۔
چینی وزارت نے ایک بیان میں کہا کہ بیجنگ انتہائی غیر مطمئن ہے اور چین میں سرمایہ کاری پر پابندیاں متعارف کروانے کے لیے امریکا کے اصرار کی سختی سے مخالفت کرتا ہے۔
کیا فیصلے کے مثبت اثرات بھی ہوں گے؟
اسٹریٹجک اینڈ انٹرنیشنل اسٹڈیز (سی ایس آئی ایس) میں تجارت اور ٹیکنالوجی پروجیکٹ کی ڈائریکٹر ایملی بینسن نے کہا کہ اگرچہ پابندی یا نوٹی فکیشن کے نظام کے تحت ڈالرز یا لین دین کی تعداد بہت کم ہونے کا امکان ہے، لیکن اس کا لازمی طور پر یہ مطلب نہیں کہ اس کے مجموعی طور پر محدود اثرات ہوں گے۔
اے ایف پی سے گفتگو کرتے ہوئے ایملی بینسن نے کہا کہ ’یہ ممکن ہے کہ وہ براہِ راست پابندی کا شکار نہ ہوں، تو کمپنیاں اپنی سرمایہ کاری کی نوعیت پر نظر ثانی کریں گی اور اس کا وقت کے ساتھ ساتھ دو طرفہ سرمایہ کاری پر مثبت اثر پڑ سکتا ہے‘۔
تازہ ترین پابندیاں، اعلیٰ سطح کے امریکی حکام کے چین کے دوروں کے فوراً بعد عائد کی گئیں جبکہ ان دوروں میں واشنگٹن اور بیجنگ کا مقصد دوطرفہ تعلقات کو مستحکم کرنا تھا۔