• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

انتخابات کی تاریخ کا اعلان صرف الیکشن کمیشن کا استحقاق ہے، وزارت قانون کا صدر کو جوابی خط

شائع August 31, 2023
وزارت قانون کا یہ خط چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی جانب سے صدر مملکت کو دیے گئے جواب کے بعد آیا ہے—فائل/فوٹو: ڈان
وزارت قانون کا یہ خط چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی جانب سے صدر مملکت کو دیے گئے جواب کے بعد آیا ہے—فائل/فوٹو: ڈان

نئی حلقہ بندیوں کی وجہ سے عام انتخابات میں تاخیر کی قیاس آرائیوں کے درمیان وزارت قانون و انصاف نے الیکشن کمیشن آف پاکستان کو انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا کہنے والے صدر عارف علوی کو آگاہ کیا ہے کہ انتخابات کی تاریخ کے اعلان کے اختیارات صدر مملکت کو نہیں بلکہ صرف الیکشن کمیشن پاکستان کو حاصل ہیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق وزارت قانون کی جانب سے لکھا گیا خط میڈیا کو جاری نہیں کیا گیا لیکن ڈان نے ایوان صدر کے ذرائع سے تصدیق کی کہ خط عارف علوی کو موصول ہو گیا ہے۔

اس معاملے پر وزارت قانون اور ایوان صدر کی جانب سے کوئی سرکاری بیان سامنے نہیں آیا، ایوان صدر اور وزارت قانون سے خط کی کاپی حاصل کرنے کی کوشش کی گئی لیکن حکام خط شیئر کرنے سے گریزاں رہے۔

میڈیا کے کچھ اداروں نے خط کے متن کو اپنے ذرائع کا حوالہ دیتے ہوئے شیئر کیا، ان رپورٹس میں بتایا گیا کہ الیکشنز ایکٹ میں کی گئی ترامیم کے بعد صدر مملکت کے پاس انتخابات کی تاریخ کا تعین کرنے کا اختیار نہیں رہا۔

وزارت قانون کا یہ خط چیف الیکشن کمشنر سکندر سلطان راجا کی جانب سے صدر مملکت کو دیے گئے جواب کے بعد آیا ہے جس میں صدر مملکت کو بتایا گیا کہ ترمیم شدہ قانون کے تحت انتخابات کی تاریخ دینا صرف الیکشن کمیشن کااستحقاق ہے، عارف علوی نے چیف الیکشن کمشنر کو انتخابات کی تاریخ کے حوالے سے ملاقات کے لیے مدعو کیا تھا۔

صدر کو لکھے گئے خط میں سکندر سلطان راجا نے کہا کہ یہ ذکر کرنا لازمی ہے کہ الیکشن ایکٹ کے سیکشن 57 میں پارلیمنٹ نے ترمیم کی تھی، جس کے تحت الیکشن کمیشن کو عام انتخابات کی تاریخ طے کرنے کا اختیار دیا گیا ہے۔

خط میں کہا گیا ہے کہ جہاں صدر اپنی صوابدید پر قومی اسمبلی کو تحلیل کرتا ہے، تو انہیں عام انتخابات کے لیے تاریخ مقرر کرنی ہوتی ہے، تاہم اسمبلی وزیر اعظم کے مشورے پر یا آئین کے آرٹیکل 58 (1) میں فراہم کردہ وقت کے اضافے سے تحلیل کی جاتی ہے تو الیکشن کمیشن سمجھتا ہے کہ انتخابات کے لیے تاریخ مقرر کرنے کا اختیار خصوصی طور پر اس کے پاس ہے۔

سکندر سلطان راجا کے خط میں کہا گیا ہے کہ کمیشن انتہائی احترام کے ساتھ یقین رکھتا ہے کہ آپ (صدر) کے خط میں ذکر کردہ آئین کی دفعات پر انحصار اس تناظر میں لاگو نہیں ہوتا۔

انہوں نے کہا کہ ڈیجیٹل مردم شماری کی منظوری کے بعد انتخابی حلقہ بندیاں کرنا انتخابات کے انعقاد کی جانب ’بنیادی قانونی اقدامات‘ میں سے ایک ہے۔

چیف الیکشن کمشنر نے کہا کہ الیکشن کمیشن ملک میں عام انتخابات کے انعقاد کی اپنی ذمہ داری انتہائی سنجیدگی سے لے رہا ہے اور کمیشن نے سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے حوالے سے اپنی رائے دینے کی دعوت بھی دی ہے۔

خط میں لکھا گیا ہے کہ مذکورہ بالا کمیشن کے اعلان کردہ مؤقف کے باوجود، پورے احترام کے ساتھ کہا جاتا ہے کہ کمیشن صدر کے عہدے کو بہت عزت کی نگاہ سے دیکھتا ہے اور مناسب وقت پر قومی مسائل پر آپ سے ملاقات اور رہنمائی حاصل کرنا ہمیشہ ایک اعزاز رہا ہے۔

خط میں مزید مؤقف اپنایا گیا ہے کہ مذکورہ بالا نکات کو مدنظر میں رکھتے ہوئے الیکشن کمیشن کا خیال ہے کہ عام انتخابات کے حوالے سے صدر مملکت سے ملاقات کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔

اس کے جواب میں صدر مملکت نے مشورے کے لیے وزارت قانون سے رجوع کیا تھا، وزارت کو لکھے گئے اپنے خط میں صدر علوی نے آئین کے آرٹیکل 244 کا حوالہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ وہ قومی اسمبلی کے قبل از وقت تحلیل ہونے کے بعد 90 روز کی مقررہ مدت میں انتخابات کرانے کے پابند ہیں۔

اپنے جواب میں وزارت قانون نے صدر مملکت کو بتایا کہ الیکشن ایکٹ میں ترمیم کے بعد صدر مملکت کا انتخابات کی تاریخ کے اعلان میں کوئی کردار نہیں ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024