ایمان مزاری کی کسی بھی کیس میں گرفتاری سے قبل اسلام آباد ہائیکورٹ کو آگاہ کرنا لازمی قرار

شائع September 4, 2023
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ایمان مزاری کی درخواست پر سماعت کی — فائل فوٹو: ڈان نیوز
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ایمان مزاری کی درخواست پر سماعت کی — فائل فوٹو: ڈان نیوز

اسلام آباد ہائی کورٹ نے انسانی حقوق کی معروف کارکن اور وکیل ایمان زینب مزاری کی کسی بھی کیس میں گرفتاری سے قبل عدالت کو آگاہ کرنا لازمی قرار دے دیا۔

اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ایمان مزاری کی مقدمات کی تفصیلات کی فراہمی اور حفاظتی ضمانت کی درخواست پر سماعت کی۔

ایڈیشنل اٹارنی جنرل منور اقبال دوگل نے مؤقف اپنایا کہ صوبائی حکومتوں کو ایمان مزاری کے خلاف درج مقدمات کی تفصیلات کے لیے فیکس اور واٹس ایپ کردیا ہے، ایمان مزاری کو ریاست مخالف بیان بازی سے گریز کرنا چاہیے۔

جسٹس میاں گل حسن اورنگزیب نے ریمارکس دیے کہ کیس نمٹا رہے ہیں، اگر کوئی ایف آئی آر ہوئی تو آپ عدالت کو آگاہ کریں گے۔

انہوں نے حکمنامہ جاری کرتے ہوئے کہا کہ کسی بھی خفیہ ایف آئی آر میں ایمان مزاری کی گرفتاری سے قبل عدالت کو آگاہ کیا جائے گا، دریں اثنا عدالت نے ایمان مزاری کی درخواست ہدایات کے ساتھ نمٹا دی۔

درخواست کا متن

واضح رہے کہ ایمان مزاری کی جانب سے حفاظتی ضمانت کے لیے گزشتہ ہفتے 29 اگست کو اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کیا گیا تھا۔

ایمان مزاری کی جانب سے دائر درخواست میں سیکریٹری داخلہ، آئی جی اسلام آباد، سپرٹینڈنٹ اڈیالہ جیل، ایف آئی اے کو فریق بنایا گیا۔

درخواست میں مؤقف اختیار کیا گیا تھا کہ 2 مقدمات میں ضمانت کے بعد ایمان مزاری کو تیسرے مقدمے میں گرفتار کرلیا گیا، ان کو ایک کے بعد ایک مقدمے میں گرفتاری کا سامنا ہے۔

درخواست میں استدعا کی گئی تھی کہ ایمان مزاری کو حفاظتی ضمانت فراہم کی جائے تاکہ ضمانت قبل از گرفتاری کے لیے متعلقہ عدالت سے رجوع کر سکیں، ایمان مزاری مقدمات کی تفتیش میں مکمل تعاون کرنے کے لیے بھی تیار ہیں۔

درخواست میں مزید استدعا کی گئی عدالت ایف آئی اے اور صوبائی اداروں کو بھی ایمان مزاری کو گرفتار کرنے سے روکے اور ان کے خلاف ملک بھر میں مقدمات کی تفصیلات فراہم کرنے کا حکم دے۔

ایمان مزاری کے خلاف مقدمات کا پسِ منظر

واضح رہے کہ ایمان مزاری کو 20 اگست کو صبح ان کے گھر سے گرفتار کیا گیا تھا جبکہ اس سے ایک روز قبل یعنی 19 اگست کو سابق رکن قومی اسمبلی علی وزیر کو گرفتار کیا گیا تھا۔

اسلام آباد کے ترنول پولیس اسٹیشن اور محکمہ انسداد دہشت گردی (سی ٹی ڈی) پولیس اسٹیشن میں دونوں کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی تھیں۔

یہ گرفتاریاں پشتون تحفظ موومنٹ (پی ٹی ایم) کے زیر اہتمام منعقدہ جلسے کے 2 دن بعد کی گئیں، جلسے سے پی ٹی ایم کے رکن علی وزیر اور ایمان مزاری دونوں نے خطاب کیا تھا۔

سماجی رابطے کی ویب سائٹس پر زیر گردش جلسے کی ویڈیوز میں مقررین کو جبری گمشدگیوں کے معاملے پر فوجی اسٹیبلشمنٹ پر سخت تنقید کرتے ہوئے سنا گیا تھا۔

دونوں کو ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹ اسلام آباد میں پیش کیا گیا، جہاں ان کے خلاف درج دو مقدمات کی سماعت ہوئی تھی۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشنز کورٹ کے ڈیوٹی جج احتشام عالم نے بغیر اجازت جلسہ کرنے اور کار سرکار میں مداخلت پر تھانہ ترنول میں درج مقدمے میں ایمان مزاری کا 14 روزہ جوڈیشل ریمانڈ منظور کرتے ہوئے انہیں 2 ستمبر کو دوبارہ عدالت میں پیش کرنے کا حکم دیا تھا۔

دونوں ملزمان کے خلاف دوسری ایف آئی آر دہشت گردی کی دفعات کے تحت تھانہ سی ٹی ڈی میں درج کی گئی تھی۔

22 اگست کو اسلام آباد کی مقامی عدالت نے بغاوت، دھمکانے اور اشتعال پھیلانے کی دفعات کے تحت درج مقدمے میں علی وزیر کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیج دیا تھا جبکہ اسی مقدمے میں ایمان زینب مزاری کی ضمانت منظور کرلی تھی۔

تاہم ایمان مزاری دہشت گردی کی دفعات کے تحت درج دوسرے مقدمے میں 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کی تحویل میں تھیں، لہٰذا ان کی رہائی ممکن نہیں ہوسکی تھی۔

28 اگست کو اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے بغاوت اور اشتعال پھیلانے کے کیس میں ایمان زینب مزاری اور سابق رکن قومی اسمبلی علی وزیر کی ضمانت منظور کرلی تھی، تاہم رہائی کے فوری بعد پولیس نے ایمان مزاری کو دوبارہ گرفتار کر لیا تھا۔

ترجمان اسلام آباد پولیس نے بتایا کہ ایمان زینب مزاری کو بہارہ کہو میں درج مقدمے میں گرفتار کیا گیا ہے، ان کے خلاف انسداد دہشت گردی ایکٹ کے تحت مقدمہ درج ہے۔

29 اگست کو اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی عدالت نے ایمان زینب مزاری کو 3 روزہ جسمانی ریمانڈ پر پولیس کے حوالے کردیا تھا۔

یکم ستمبر کو اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ایمان زینب مزاری کو 2 ہفتے کے لیے جوڈیشل ریمانڈ پر بھیجنے کا فیصلہ سنایا اور ان کی درخواست ضمانت پر 2 ستمبر (بروز ہفتہ) کو سماعت ہونے تک دارالحکومت کے خواتین کے تھانے میں رکھنے کی ہدایت جاری کی۔

2 ستمبر کو اسلام آباد کی انسداد دہشت گردی کی عدالت نے ایمان زینب مزاری کی دہشت گردی کے مقدمے میں ضمانت بعد از گرفتاری منظور کرلی تھی، جس کے بعد انہیں زنانہ تھانے سے رہا کردیا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 4 اکتوبر 2024
کارٹون : 3 اکتوبر 2024