انتخابات کیلئے آئین میں مقرر کردہ مدت پر تکرار، چیف جسٹس کا اظہار تعجب
16ستمبر کو سبکدوش ہونے والے چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس عمر عطا بندیال نے حیرت کا اظہار کیا ہے کہ آئین کے اس حکم پر جس میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ اسمبلیوں کی تحلیل کے بعد 90 روز کے اندر انتخابات کرائے جائیں، تکرار کیوں کی جا رہی ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سپریم کورٹ بار ایسوسی ایشن (ایس سی بی اے) کی جانب سے اپنے اعزاز میں دیے گئے الوداعی عشائیے سے خطاب کرتے ہوئے چیف جسٹس نے کہا کیا کہ اگر ادارہ سختی کے ساتھ آئین اور قانون کے مطابق کام کرے گا تو اعلیٰ عدالتوں پر قانونی معاملات کا بہت زیادہ بوجھ نہیں پڑے گا، کیونکہ اس کے بعد ادارے مسائل خود حل کریں گے۔
الوداعی عشائیے میں تقاریر کے دوران نامزد چیف جسٹس قاضی فائز عیسیٰ موجود نہیں تھے، وہ تقاریر کے اختتام کے فوری بعد وہاں پہنچے۔
جب جسٹس قاضی فائز عیسیٰ سے اس بارے میں سوال کیا گیا کہ وہ عشائیے میں تاخیر سے کیوں آئے تو انہوں نے وکلا کے ساتھ غیر معمولی گفتگو کے دوران وضاحت کی کہ ایس سی بی اے بھی ان درخواست گزاروں میں سے ایک ہے جن کی درخواستیں عدالت عظمیٰ میں زیر التوا ہیں، اس لیے تقاریر کے دوران میرا وہاں موجود ہونا مناسب نہیں تھا۔
اپنی تقریر میں چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے کہا کہ 15 برس قبل وہ 2007 میں آزاد عدلیہ کی بحالی کے لیے شروع کی گئی وکلا تحریک کا حصہ تھے، انہوں نے خود کو ان ’ڈائینوسارز‘ میں سے آخری قرار دیا جو عدلیہ بحالی تحریک کی کامیابی کے بعد اعلیٰ عدلیہ میں شامل ہوئے تھے۔
چیف جسٹس نے اپنی تقریر کا اختتام کرتے ہوئے کہا ’تو اب آپ اس ڈائنوسار کو الوداع کہیں۔‘
انہوں نے یہ بھی تسلیم کیا کہ 16 ستمبر کو اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد وہ مزید اس عظیم ادارے کا حصہ اور اس کے جج نہیں رہیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ ہم یہاں صرف ایک وجہ سے جمع ہوئے ہیں، وہ وجہ یہ ہے کہ سپریم کورٹ اس آئین کی محافظ ہے جس کی چھتری تلے ہم سب زندگی گزارتے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا کہ آئین کی حفاظت، اس کا تحفظ اور اس کے نفاذ کو ہر قیمت پر برقرار رکھنا سپریم کورٹ کے ساتھ ساتھ اعلیٰ عدلیہ کا فرض ہے۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے افسوس کا اظہار کیا کہ تمام کوششوں اور ریکارڈ بڑی تعداد میں مقدمات کے فیصلوں کے باوجود عدالت عظمیٰ میں اب بھی 56 ہزار سے زائد مقدمات زیر التوا ہیں۔
چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے زیر التوا کیسز کی اتنی بڑی تعداد کا ذمے دار سپریم کورٹ کے سامنے آنے والے ان آئینی معاملات کو ٹھہرایا جن کو نمٹانے میں ججز مصروف رہے۔
انہوں نے کہا کہ مقدمات کی سماعت کے بعد جو فیصلے کیے گئے، وہ کسی ایک جج کے نہیں بلکہ پورے بینچ کے فیصلے تھے۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ مجھے خوشی ہے کہ بینچوں کے فیصلوں کو سراہا گیا، تاہم انہوں نے تسلیم کیا کہ مقدمات کا فیصلہ کرتے وقت اختلاف رائے ہوتا ہے۔
انہوں نے تسلیم کیا کہ عام طور پر مقدمات کو براہ راست سپریم کورٹ میں نہیں آنا چاہیے بلکہ انہیں ہائی کورٹس کے ذریعے عدالت عظمیٰ میں آنا چاہیے۔
اس دوران جب میڈیا کی جانب سے ان سے سوال کیا گیا کہ نیب ترمیمی کیس کا فیصلہ کب جاری کیا جائے گا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا، تاہم اس موقع پر موجود صحافیوں کو یہ احساس ہوا کہ ان کی ریٹائرمنٹ سے ایک یا دو روز قبل اس کیس کا محفوظ فیصلہ سنایا جا سکتا ہے۔