وکلا کے درمیان جھگڑے سے پی ٹی آئی کی قانونی ٹیم میں اختلافات بے نقاب
پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) سے تعلق رکھنے والے دو سینیئر وکلا کے درمیان ہونے والے حالیہ جھگڑے نے پارٹی کی قانونی کوتاہیوں کو بے نقاب کردیا ہے جس کو پارٹی کے اندرونی ذرائع نے انصاف لائرز فورم (آئی ایل ایف) کی ’غیر فعالیت‘ سے منسوب کیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سماجی رابطوں کی ویب سائٹ ’ایکس‘ (ٹوئٹر) پر جاری کردہ ایک بیان میں شیر افضل خان مروت نے شعیب شاہین کو غدار قرار دیتے ہوئے ان پر الزام عائد کیا کہ وہ پی ٹی آئی کے کچھ رہنماؤں کی حمایت سے پارٹی کی قانونی ٹیم میں شامل ہوئے ہیں اور یہ بھی الزام لگایا کہ انہوں نے پارٹی کی قانونی حکمت عملی سے مخالفین کو آگاہ کیا ہے۔
تاہم پارٹی نے باضابطہ طور پر خود کو شیر افضل خان مروت کے بیان سے دور رکھا اور شعیب شاہین کی بطور پارٹی کے آفیشل ترجمان کے تصدیق کرتے ہوئے ان کی حمایت کی۔
جون 2020 میں پی ٹی آئی کے چیئرمین عمران خان نے 2 سال کے لیے آئی ایل ایف کی عبوری کابینہ تشکیل دی تھی اور سینیٹر سید علی ذوالفقار کو قانونی ونگ کا چیئرمین بنایا گیا تھا۔
بعدازاں اپریل 2022 میں عمران خان کے اقتدار سے جانے کے بعد آئی ایل ایف کی عبوری کابینہ کو تحلیل کردیا گیا تھا اور عمران خان نے عبوری مدت کے لیے آرگنائزرز مقرر کرتے ہوئے انہیں 150 دنوں میں انتخابات کرانے کی ذمہ داری سونپی تھی۔
تاہم گزشتہ سال کے لیے مقرر کردہ انتخابات متعدد وجوہات کے باعث نہ ہوسکے جن میں پارٹی کے اندر انتخابات کی کوتاہی، بڑے پیمانے پر پارٹی رہنماؤں کی گرفتاریاں اور 9 مئی کے واقعات میں پی ٹی آئی کو مبینہ انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنانا شامل تھا۔
آئی ایل ایف کے چیف آرگنائزر ایڈووکیٹ علی بخاری نے ڈان کو بتایا کہ عمران خان کی طرف سے مقرر کردہ آرگنائزرز نے اپنا ہوم ورک مکمل کرلیا ہے اور مرکزی باڈی کی تشکیل پر بھی غور کیا گیا ہے لیکن پارٹی رہنماؤں کے خلاف کریک ڈاؤن کی وجہ سے انتخابات نہیں ہو سکے۔
انہوں نے مزید کہا کہ باڈی کے آئین میں انصاف لائرز فورم کے انتخابات کے انعقاد کا وقت مقرر کیا گیا ہے، تاہم عام انتخابات کا عمل مکمل ہونے تک یہ انتخابات ہونے کا امکان نہیں۔
پارٹی ذرائع نے کہا کہ آئی ایل ایف کے غیرفعال ہونے کی وجہ سے دیگر وکلا بشمول سردار لطیف کھوسہ، شعیب شاہین اور شیر افضل خان مروت قانونی ٹیم پر غلبہ حاصل کر رہے ہیں، جن میں کچھ نئے لوگ بھی شامل ہیں جو پی ٹی آئی کی کور کمیٹی کا حصہ بن چکے ہیں۔
شعیب شاہین پی ٹی آئی کے سرگرم کارکن نہیں ہیں، وہ 2017 سے عمران خان کی قانونی معاملات میں معاونت کرتے رہے ہیں، جبکہ شیر افضل خان مروت نے پی ٹی آئی خیبرپختونخوا کی قیادت بشمول شہریار آفریدی اور اسد قیصر کی گرفتاری کے بعد قانونی ٹیم میں اپنی جگہ بنائی ہے۔
ذرائع نے بتایا کہ توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان کی گرفتاری کے بعد شعیب شاہین اور شیر افضل خان مروت کے درمیان اختلافات بڑھ گئے ہیں۔
شعیب شاہین وکلا تنظیموں بشمول اسلام آباد بار کونسل اور پاکستان بار کونسل میں اعلیٰ عہدوں پر فائز رہے، بعد ازاں وہ اسلام آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن کے صدر منتخب ہوئے۔
تاہم، شیر افضل خان مروت توشہ خانہ ریفرنس میں عمران خان کی نمائندگی کرتے ہیں، اور وہ عمران خان کے اس وقت قریب ہوئے جب انہوں نے مقدمے کی کارروائی کے دوران ٹرائل کورٹ کے جج ہمایوں دلاور کے خلاف بات کی اور بعد ازاں انہیں کور کمیٹی میں شامل کرلیا گیا۔
عمران خان کی گرفتاری کے بعد شیر افضل خان مروت نے ان کی فوری رہائی کے لیے حکمت عملی تجویز دی لیکن پی ٹی آئی کی کور کمیٹی نے وہ تجویز مسترد کردی تھی۔