• KHI: Asr 4:36pm Maghrib 6:15pm
  • LHR: Asr 4:03pm Maghrib 5:42pm
  • ISB: Asr 4:06pm Maghrib 5:47pm
  • KHI: Asr 4:36pm Maghrib 6:15pm
  • LHR: Asr 4:03pm Maghrib 5:42pm
  • ISB: Asr 4:06pm Maghrib 5:47pm

سارہ انعام قتل کیس: ملزم شاہنواز نے ثبوتوں اور گواہوں کو من گھڑت قرار دے دیا

شائع October 18, 2023
اسلام آباد پولیس نے 23 ستمبر 2022 کو ایاز امیر کے بیٹے کو بیوی کو مبینہ طور پر قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا —فائل فوٹو: ڈان نیوز
اسلام آباد پولیس نے 23 ستمبر 2022 کو ایاز امیر کے بیٹے کو بیوی کو مبینہ طور پر قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا —فائل فوٹو: ڈان نیوز

سارہ انعام قتل کیس کے مرکزی ملزم شاہنواز امیر نے استغاثہ کے الزامات مسترد کرتے ہوئے پولیس کی جانب سے جمع کیے گئے ثبوتوں اور گواہان کو من گھڑت اور جھوٹا قرار دے دیا جس کے بعد عدالت نے آئندہ سماعت پر ملزم کا مکمل بیان قلمبند کروانے کی ہدایت کردی۔

ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن کورٹس اسلام آباد میں سارہ انعام قتل کیس کی سماعت شروع تو پراسیکیوٹر رانا حسن عباس اور وکیل صفائی بشارت اللہ سیش عدالت میں پیش ہوئے۔

سیشن جج ناصر جاوید رانا کی عدالت میں ملزم شاہنواز امیر کو پہنچا دیا گیا جہاں مقتولہ سارہ انعام کے والد انعام الرحیم اور ملزم کے والد ایاز امیر بھی موجود تھے۔

دوران سماعت جج ناصر جاوید رانا نے استفسار کیا کہ کیا آپ نے 342 کے سوالنامے کے جوابات تیار کر لیے ہیں؟ جس پر وکیل صفائی بشارت اللہ نے اثبات میں جواب دیتے ہوئے کہا کہ شاہنواز امیر کے 342 کے بیان کے لیے جوابات تیار کر لیے ہیں۔

وکیل صفائی بشارت اللہ نے شاہنواز امیر کے 342 سوالنامے میں دو سوالات پر اعتراض اٹھاتے ہوئے موقف اپنایا کہ کسی گواہ نے نہیں کہا کہ مرسیڈیز گاڑی مقتولہ کے پیسوں سے لی گئی اور شاہنواز امیر پر مقتولہ کو ٹارچر کرنے کا الزام لگایا گیا ہے۔

پراسیکیوٹر رانا حسن عباس نے کہا کہ پراسیکیوشن کی جانب سے دیے گئے ثبوتوں میں سب کچھ موجود ہے، سب کی موجودگی میں گواہان کے بیانات ہوئے لیکن تب اعتراض نہیں اٹھایا گیا اور شاہنواز امیر کے خلاف ثبوتوں کے ذریعے کڑی سے کڑی ملا کر سوالات بنائے گئے ہیں۔

وکیل صفائی نے کہا کہ پوسٹ مارٹم کی رپورٹ پر جواب دیا، گواہوں کے بیانات پر جواب کیسے دیا جاسکتا جس پر سیشن جج ناصر جاوید رانا نے وکیل صفائی کو ہدایت کی کہ جو دیگر سوالات کے جوابات ہیں وہ تو قلمبند کروائیں ناں۔

اس کے بعد سیشن عدالت میں ملزم شاہنواز امیر کے 342 کا بیان قلمبند ہونا شروع ہوا۔

ملزم شاہنواز امیر نے کہا کہ پراسیکیوشن نے جو ثبوت جمع کروائے ان کو جانتا ہوں، پوسٹ مارٹم رپورٹ کے مطابق سر پر متعدد انجریوں کا ذکر نہیں، پراسیکیوشن کی جانب سے جھوٹی کہانی بنانے کے لیے ڈاکٹر نے سر پر متعدد انجریوں کا بیان دیا۔

ملزم نے کہا کہ مجھے سارہ انعام کے خون آلود کپڑوں کا کچھ معلوم نہیں، مقتولہ کے والد انعام الرحیم، چچا اکرام الرحیم کسی وقوع کے چشم دید گواہ نہیں جبکہ پولیس کو دیے گئے اپنے پہلے بیان میں والد انعام الرحیم نے مجھ پر قتل کا کوئی الزام نہیں لگایا۔

ان کا کہنا تھا کہ انعام الرحیم کو ظفر قریشی نے قتل کے بارے میں بتایا جو شاملِ تفتیش ہوا نہ ہی گواہ ہے، میرے کوئی خون آلود کپڑے پولیس کو برآمد نہیں ہوئے اور میرے خلاف پولیس نے قتل کی مکمل طور پر جھوٹی کہانی بنائی ہے۔

انہوں نے کہا کہ جو تصاویر بطور ثبوت پیش کی گئیں اس پر بھی مجھے شک ہے، میں جائے وقوع کی کسی بھی تصویر میں موجود نہیں، میرے خلاف ڈمبل سے قتل کرنے کی کہانی بھی پولیس نے بعد میں بنائی ہے۔

ملزم شاہنواز امیر نے کہا کہ پولیس نے جائے وقوع کا مکمل کنٹرول لے لیا تھا، میرے خلاف جائے وقوع سے مختلف تاریخوں پر ثبوت اکٹھے کیے گئے اور جائے وقوع سے برآمد کیے گئے ثبوت بھی جھوٹے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ میرے خلاف ریکارڈ پر لائے گئے میڈیکل ثبوت بھی متنازع ہیں، کوئی ریڈیولوجسٹ بطور گواہ نہ کوئی ایکسرے بطور ثبوت میرے خلاف پیش کیا گیا، پولیس نے مدعی کے ساتھ مل کر جھوٹی کہانی بنائی۔

ان کا کہنا تھا کہ موبائل فون ٹوٹنے کی کہانی اصل حقائق کو منظر عام سے حذف کرنے کے لیے بنائی گئی، پولیس نے سارہ انعام کی موبائل سم لی نہ ہی فرانزک کے لیے بھیجا جبکہ مدعی نے سارہ انعام کے اصل موبائل کو تبدیل کردیا۔

شاہنواز امیر نے کہا کہ پولیس نے ثبوت مدعی سے حاصل کیے جو میرے خلاف پلانٹ کیے گئے تھے، اگر ثبوت واقعے والے دن کمرے میں موجود تھے تو اسی دن پولیس نے کیوں نہیں برآمد کیے؟

ان کا کہنا تھا کہ میرے سارہ انعام کو بھیجے گئے وائس میسجز بھی مدعی کی جانب سے جھوٹی کہانی ہے، سارہ انعام کے موبائل سے میرے وائس میسجز برآمد نہیں ہوئے، جسمانی ریمانڈ کے دوران پولیس نے میری آواز ریکارڈ کی اور فرانزک کے لیے بھیج دی۔

انہوں نے کہا کہ کسی مجسٹریٹ کی موجودگی میں میری آواز کا نمونہ نہیں لیا گیا، 5 اکتوبر 2022 کو کیا گیا میرا مبینہ وائس سیمپل بھی ایف آئی اے کو نہیں بھیجا گیا، ایف آئی اے کی جانب سے میرے وائس سیمپل کی فرانزک بھی پولیس کی جانب سے من گھڑت کہانی ہے۔

ملزم نے کہا کہ میرے طبی معائنے کی بھی کوئی درخواست نہیں تھی، میرے خلاف جھوٹی دستاویزات بنائی گئیں جبکہ مجھے معلوم نہیں پولیس نے میرے بینک اکاؤنٹ کی کون سی اسٹیٹمنٹ حاصل کی۔

انہوں نے کہا کہ میرے موبائل سے جائے وقوع کی لی گئی تصاویر کا مجھے معلوم نہیں، میرے اور سارہ انعام کی واٹس ایپ چیٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ہمارے درمیان کچھ تنازع نہ تھا، میں اور میری اہلیہ سارہ انعام بہت خوشی سے ساتھ رہ رہے تھے اور وقوعہ والے روز سارہ انعام میرے پاس ہنسی خوشی موجود تھیں۔

سارہ انعام قتل کیس کے ملزم شاہنواز امیر کا 342 کا بیان آج مکمل قلمبند نہ ہوسکا جس پر جج ناصر جاوید نے آئندہ سماعت پر شاہنواز امیر کا مکمل بیان قلمبند کروانے کی ہدایت کی۔

بعد ازاں سارہ انعام قتل کیس کی سماعت 25 اکتوبر تک ملتوی کردی گئی۔

سارہ قتل کیس

خیال رہے کہ اسلام آباد پولیس نے 23 ستمبر 2022کو ایاز امیر کے بیٹے کو اپنی پاکستانی نژاد کینیڈین شہری بیوی کو مبینہ طور پر قتل کرنے کے الزام میں گرفتار کیا تھا جس کے ایک روز بعد اس کیس میں معروف صحافی کو بھی گرفتار کرلیا گیا تھا۔

پولیس نے بتایا تھا کہ 22 ستمبر کو رات کسی تنازع پر جوڑے کے درمیان جھگڑا ہوا تھا، بعد ازاں جمعے کو صبح دونوں میں دوبارہ جھگڑا ہوا جس کے دوران ملزم نے خاتون کو تشدد کا نشانہ بنایا اور پھر سر پر ڈمبل مارا۔

تفتیش کے دوران ملزم شاہنواز عامر نے پولیس کو بتایا تھا کہ اس نے اپنی بیوی کو ڈمبل سے قتل کیا اور اس کی لاش باتھ روم کے باتھ ٹب میں چھپا دی۔

پولیس نے اس کی اطلاع پر لاش کو برآمد کیا، ایف آئی آر میں کہا گیا کہ متوفی کے سر پر زخم پائے گئے تھے۔

ایف آئی آر میں کہا گیا پولیس ٹیم نے گھر سے آلہ قتل بھی برآمد کیا تھا جو ایک بیڈ کے نیچے چھپایا گیا تھا۔

کارٹون

کارٹون : 4 اکتوبر 2024
کارٹون : 3 اکتوبر 2024