’کچھ فیصلے بروقت کرنے پڑتے ہیں لیکن شاید بابراعظم اس اصول کے قائل نہیں‘
ہر جنگ کے کچھ اصول ہوتے ہیں جن میں آگے بڑھنا یا پیچھے ہٹنا حکمت عملی کا حصہ ہوتا ہے ہر فیصلے کے اپنے عوامل اور نتائج ہوتے ہیں۔ حکمت عملی جتنی بھی غور وفکر کے ساتھ بنائی جائے لیکن میدان جنگ میں کچھ فیصلے بروقت بھی کرنے پڑتے ہیں جن سے جنگ کی سمت بھی طے ہوتی ہے اور مخالف کی حکمت عملی ناکام بھی ہوتی ہے۔
شاید یہ اصول بابراعظم کو پتا نہیں تھا یا پھر وہ اس کے قائل نہیں تھے اسی لیے بنگلور کے ایسے میدان میں جہاں پچ دیکھ کر بلے بازوں کے منہ میں پانی آتا ہو وہاں جیت کا موقع ملنے کے باوجود اسے گنوا دیا گیا۔
جوش جذبوں اور جنون کے سارے رنگ تو میدان میں نہیں تھے لیکن ان کی گونج خیالوں میں ضرور تھی۔
آسٹریلیا کے خلاف پاکستانی ٹیم کو ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کا موقع میسر آیا لیکن وہ فائدہ نہ اٹھا سکے۔ بابر اسی طرح طے شدہ پہلے باؤلنگ کے فیصلہ میں ترمیم نہ کرسکے۔ بالکل ویسے ہی جیسے پریس کانفرنس یا میچ کے بعد رپورٹرز کے سوالات کے جواب میں وہ لکھا ہوا ایک ہی مسودہ دہرا دیتے ہیں۔
غلطی کہاں ہوئی؟
بنگلور کی پچ سپاٹ اور ٹھوس تھی۔ گراؤنڈ کی باؤنڈری بھی احمدآباد کے مقابلے میں چھوٹی تھں لیکن بابر ٹاس جیتنے کا فائدہ نہ اٹھا سکے۔ شاید اس کی یہ بھی وجہ ہو کہ وہ سری لنکا کے خلاف بھاری بھرکم ہدف کو عبور کرچکے تھے اس لیے خود کو ہدف کے کامیاب تعاقب کا شہنشاہ تصور کررہے تھے۔ مگر وہ بھول گئے کہ پاکستان ٹیم کی تاریخ ہدف عبور کرنے میں بہت خراب ہے۔ ہمارے لیے اکثر مختصر سے ہدف بھی کوہ ہمالیہ بنتے رہے ہیں۔
پاکستان ٹیم کی روایات بھی دلچسپ ہیں۔ وہ اپنی خراب باؤلنگ سے مخالف ٹیم کے آؤٹ آف فارم بلے بازوں کو فارم میں لے آتے ہیں اور بزدلانہ بیٹنگ سے دوسرے درجے کے لیگ اسپنر جیسے ایڈن زمپا کو ہیرو بنادیتے ہیں۔ ڈیوڈ وارنر گزشتہ دو سال سے آؤٹ آف فارم تھے لیکن پاکستانی باؤلنگ نے ان سے جارحانہ سنچری بنوادی جس نے پورا میچ پاکستان کے ہاتھوں سے چھین لیا۔
باؤلنگ کیوں کمزور رہی؟
پاکستان کے لیے یہ جیت اتنی ہی ضروری تھی جتنی آسٹریلیا کے لیے تھی لیکن پاکستان اس جیت کے لیے بےتاب نظر نہیں آیا۔ باؤلنگ میں شاہین شاہ آفریدی نے 5 وکٹیں تو لیں لیکن وہ حریف بلے بازوں کو دباؤ میں نہ لاسکے۔ وہ دوسروں سے بہتر رہے لیکن آسٹریلیا کے رنز کی برسات میں مزاحمت نہ کرسکے۔ حارث رؤف کی باؤلنگ پاکستان کے لیے سب سے پہلا دھچکا ثابت ہوئی، مچل مارش نے ان کے پہلے ہی اوور میں جس بے دردی سے ان کا استقبال کیا اس نے پورے میچ کا منظر نامہ لکھ دیا تھا۔ حارث کسی بھی طرح ون ڈے ٹیم کے اہل نہیں ہیں لیکن نجانے ان کے پاس کونسی گیدڑ سنگھی ہے کہ ان کو ڈراپ نہیں کیا جاتا اور وہ کمزور ٹیموں کے خلاف کچھ وکٹ لے کر اگلے میچ کے لیے اپنی جگہ بنالیتے ہیں۔
پاکستان کے لیے سب سے بڑی مشکل اسامہ میر کی غیرمؤثر باؤلنگ رہی۔ وہ اس پچ سے فائدہ نہ اٹھا سکے جس پر ایڈن زمپا 4 وکٹیں لے اڑے۔ اسامہ میر شاید بڑے میچ کا دباؤ برداشت نہ کرسکے۔ ان کو شاداب خان کی جگہ ٹیم میں اس وقت لایا گیا تھا جب ساری دنیا شور کررہی تھی لیکن اسامہ کچھ متاثر نہ کرسکے حسن علی نے اگرچہ ورائٹی دکھائی لیکن دیگر باؤلرز کی ناکامی انہیں بھی بہا لے گئی۔
ناقص فیلڈنگ کا مظاہرہ
پاکستان کی فیلڈنگ کبھی بھی مثالی نہیں رہی لیکن بنگلور میں 5 اہم کیچ ڈراپ کرنے سے آسٹریلیا کی ٹیم کو نئی زندگیاں ملتی رہی اور اسکور بورڈ مسلسل بڑھتا رہا۔ اسامہ میر اگر ڈیوڈ وارنر کا انتہائی آسان کیچ نہ چھوڑتے توشاید میچ کا نقشہ کچھ بدل جاتا۔ فیلڈنگ میں سب سے اہم بات فیلڈرز کی حاضر دماغی ہوتی ہے جس کا پاکستانی فیلڈنگ میں سخت فقدان ہے۔ باؤلرز محنت کرکے کیچ کا موقع بناتے ہیں لیکن اگر بابراعظم جیسا فیلڈر کیچ چھوڑ دے تو باؤلر سر ہی پٹخ سکتا ہے۔
کپتان غیر حاضر رہے
بنگلور میں کپتان بابراعظم غیر حاضر نظر آئے۔ وہ باؤلرز کے ساتھ ہم آہنگی سے فیلڈ کے مطابق باؤلنگ کروانے سے قاصر رہے۔ اچھا کپتان کھیل کی صورتحال کے مطابق باؤلنگ میں تبدیلی لاتا ہے اور باؤلرز کو ایک منصوبہ بنا کردیتا رہتا ہے تاکہ حریف بلے باز غلطی کرے اور آؤٹ ہوجائے۔ مگر ایسا لگ رہا تھا کہ بابر نے دورانِ میچ ہی ذہنی طور پر باؤلرز کی ناکامی کو تسلیم کرلیا وہ باؤلرز کو فیلڈ کے مطابق باؤلنگ کرنے پر مجبور نہ کرسکے۔
اگر افتخار سے کل مسلسل باؤلنگ کروانی تھی تو گزشتہ میچوں میں بھی ان سے باؤلنگ کروائی جاتی لیکن اچانک ان سے طویل اسپیل کروانا ٹیم کو زیادہ فائدہ نہ پہنچا سکا۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ بابر افتخار احمد اور محمد نواز کے 10 اوورز مکمل نہ کروا سکے جبکہ وہ بہتر باؤلنگ کررہے تھے۔ شاید ان کا انحصار مہنگے باؤلر حارث رؤف پر زیادہ تھا اور یہی اعتماد ٹیم کو لے ڈوبا۔
بیٹنگ بھی زبوحالی کا شکار رہی
پاکستان کے لیے 368 رنز کا ہدف انتہائی مشکل تھا کیونکہ اتنا بڑا ہدف پاکستان نے ابھی تک عبور نہیں کیا ہے لیکن بیٹنگ پچ کے باعث اسے عبور کرنا ناممکن بھی نہیں تھا۔ پاکستانی اوپنرز نے رنز کے اعتبار سے اچھا آغاز تو دیا لیکن آسٹریلین بلے بازوں کی طرح اسے بہت بڑے اسکور میں نہ بدل سکے۔ دونوں اوپنرز نے چوکے اور چھکے تو لگائے لیکن ہر گیند پر رنز نہ لے سکے۔ سنگلز کی کمی کے باعث ہدف کا دباؤ مسلسل بڑھتا رہا جو اننگز کے وسط میں آکر انتہائی مشکل ہوگیا۔
پاکستان کی بیٹنگ کی ایک مشکل یہ ہے کہ پانچویں نمبر کے بعد کوئی قابلِ اعتماد بلے باز نہیں ہے۔ محمد نواز یکسر ناکام ہیں جبکہ افتخار احمد بڑی اننگز کھیلنے کی صلاحیت نہیں رکھتے ہیں۔
بابراعظم کی اسپنرز کے خلاف ناکامی
دنیا کے صفِ اول کے بلے باز ہونے کے باوجود بابراعظم اس وقت ٹیم کے لیے کچھ نہیں کرپاتے جب ان کی کارکردگی کی شدید ضرورت ہوتی ہے۔ بنگلور میں ان کی بڑی اننگز شدت سے مطلوب تھی لیکن وہ ایک بار پھر ناکام رہے وہ اس ورلڈکپ میں دوسری دفعہ ایک ہی جگہ پر اسپنر کی گیند پر کیچ آؤٹ ہوئے ہیں۔ ایڈن زمپا کی ایک فلپر کو وہ پُل کرتے ہوئے کیچ آؤٹ ہوگئے جس کے بعد ٹیم کی بیٹنگ لڑکھڑا گئی۔ بابراعظم اسپنرز کے خلاف قدموں کا استعمال کرنے سے گھبراتے ہیں جو اب ان کی کمزوری بنتا جارہا ہے۔
کیا ورلڈکپ کا سفر مشکل ہوگیا ہے؟
بھارت سے ہارنے کے بعد آسٹریلیا سے شکست نے پاکستان کو پوائنٹس ٹیبل پر پانچویں پوزیشن پر پہنچا دیا ہے۔ اگرچہ ابھی 5 میچز باقی ہیں لیکن پاکستان کا اگلا میچ افغانستان سے چنئی میں ہے۔ افغانستان انگلینڈ کو شکست دے کر خطرناک حریف بن چکی ہے۔ چنئی کی پچ اسپن باؤلرز کو مدد دیتی ہے اور افغانستان کو اسپن باؤلنگ کے شعبہ میں برتری حاصل ہے۔ اگر پاکستان اس میچ میں کامیاب نہیں ہوسکا تو باقی میچوں میں جیت کی امید انتہائی کم ہوجائے گی۔
اس شکست نے پاکستان کی ورلڈکپ میں پوزیشن کو صرف کمزور نہیں کیا بلکہ آسٹریلیا کی پوزیشن کو بہتر اور ان کے اعتماد کو تقویت بھی دی ہے۔ اگر چند الفاظ میں اس شکست کا احاطہ کریں تو کہہ سکتے ہیں کہ پاکستان نے دفاعی حکمت عملی اختیار کرکے جنگ ہار دی۔ شاید ٹیم منیجمنٹ کو معلوم نہیں ہے کہ حملہ کرنا ہی سب سے بہترین دفاع ہوتا ہے۔