ورلڈکپ 2023ء: ’شکستوں کا بوجھ جیتی ہوئی بازی بھی ہروا دیتا ہے‘
کرکٹ میں اگر مگر کی گنجائش تو نہیں ہوتی لیکن کچھ غلطیاں کسی کے گلے میں ہار ضرور ڈال دیتی ہیں۔ وہ لمحے جو عزتوں کے تاج بن جاتے ہیں، کبھی کبھی وہی ذلت کے طوق پہنانے کے لیے بے چین ہوتے ہیں۔
جنوبی افریقہ کی ٹیم کو اگر تاریخ کرکٹ کی سب سے دلچسپ اور غیر متوقع ٹیم کہا جائے تو غلط نہ ہوگا۔ یہ ٹیم کسی روز تو 400 رنز ہنستے ہنستے کرجاتی ہے اور کبھی 270 بھی پہاڑ بنالیتی ہے۔
بھارت میں چنئی کے چدمبرم چیپوک اسٹیڈیم کو پاکستانی ٹیم کے لیے دوستانہ گراؤنڈ کہا جاتا ہے جہاں انہیں مقامی شائقین سے داد بھی ملتی ہے اور حوصلہ بھی۔ خود پاکستان کے لیے یہ اسٹیڈیم یادگار کی حیثیت رکھتا ہے۔ اس کی دیواروں پر 1999ء کی پاکستان کی اس ٹیسٹ میچ کی جیت کی تصویری جھلک بھی موجود ہے جس نے پورے بھارت کو ہلا کر رکھ دیا تھا۔ اور پھر سعید انور نے 194 کی تاریخی اننگز بھی اسی میدان میں کھیلی تھی۔
جنوبی افریقہ سے مقابلے سے قبل اگرچہ بابراعظم افغانستان سے اسی گراؤنڈ میچ ہار چکے ہیں لیکن وہ بہت پُرامید تھے کہ وہ جنوبی افریقہ کو زیر کرلیں گے کیونکہ تین اچھے اسپنرز موجود ہیں اور پروٹیز بلے باز اسپنرز کو اتنا اچھا نہیں کھیل سکتے ہیں۔
ٹاس میں پاکستان کی جیت ہوئی سب کچھ بابر کی خواہش کے مطابق ہورہا تھا۔ سب کو یقین تھا کہ بابر ٹاس جیت کر پہلے بیٹنگ کریں گے کیونکہ جنوبی افریقہ پہلے بیٹنگ کرتے ہوئے رنز کے پہاڑ کھڑا کردیتی ہے۔ وہ صرف ایک میچ ہاری ہے اور جس میچ میں اسے شکست ہوئی اس میں وہ بعد میں بیٹنگ کرکے طفل مکتب نیدرلینڈز کے 245 کا تعاقب نہیں کرسکی تھی۔
اگر میچ میں آنے سے پہلے ہی حریف کی کمزوری پتا چل جائے تو جنگ جیتنا زیادہ آسان ہوجاتا ہے۔
سب کچھ تو ٹھیک تھا لیکن ایک سیدھی، ستھری اور شفاف پچ پر اوپنرز ایک بار پھر پاکستان ٹیم کو اچھا آغاز نہ دے سکے۔ بات پھر بابر اعظم اور رضوان پر آگئی۔ چھوٹی چھوٹی ٹیموں کے خلاف سنچریوں کی لائن لگانے والے بابراعظم اس ورلڈ کپ میں ابھی تک سہ عددی باری کے متلاشی ہیں اور کل بھی وہ نصف سنچری کرتے ہی لڑکھڑا گئے اور شمسی کی گیند پر وکٹ گنوا بیٹھے۔
پہلی حماقت یہ تھی کہ ماہر بلے باز سعود شکیل پر افتخار احمد کو ترجیح دے کر پاکستان نے اپنی بوکھلاہٹ کا اظہار کردیا۔ افتخار جارحانہ انداز اپناتے ہیں ان کے لیے وکٹ پر رکنا جوئے شیر لانے کے مترادف ہوتا ہے۔ ان کی اسی عادت نے انہیں جلد ہی پویلین واپس لوٹا دیا۔ اس کے بعد سعود شکیل ایک بار پھر مرد بحران نظر آئے، انہوں نے اننگز کو سہارا تو دیا لیکن وہ بھی بڑے اسکور سے چوک گئے اور نصف سنچری سے آگے نہ جاسکے۔
بابراعظم اینڈ کمپنی بھارت میں ایک ماہ سے قیام کررہی ہے اس کے باوجود وہ ان پچوں پر ماہر بلے بازوں کی اہمیت کو نہیں سمجھ سکے ہیں اور ہر میچ میں غلط فیصلے کرتے رہے ہیں جس پچ پر 300 سے زائد رنز اسکور کرنے چاہیے تھے، اس پر ٹیم پورے اوورز بھی نہیں کھیل سکی جس کا مجھے ہمیشہ افسوس رہے گا۔
تبریز شمسی جنہیں آخری لمحات میں جنوبی افریقہ کے اسکواڈ میں شامل کیا گیا تھا، پاکستان کے خلاف میچ میں ان کی شمولیت یقینی تھی۔ پاکستانی بلے باز جس طرح کلدیپ یادیو اور نور احمد کے خلاف تتر بتر ہوئے تھے، وہ دیکھتے ہوئے توقع تھی کہ شمسی کی چائنا مین بولنگ خطرناک ثابت ہوگی۔ وہ اس کلاس کے باؤلر تو نہیں ہیں لیکن بابراعظم اور سعود شکیل سمیت 4 اہم کھلاڑیوں کو آؤٹ کیا جوکہ جنوبی افریقہ کی جیت کی بنیاد بنا اور یہ حیران کن تھا۔
جنوبی افریقہ کے لیے یہ ہدف مشکل تو نہیں تھا لیکن حسبِ عادت وہ میچ کی شدت کو جانے بغیر لاپرواہی سے کھیلتے رہے۔ ایڈم مارکرم کی محتاط مگر تیز اننگز نے ایک طرف سے وکٹیں گرنے کے باوجود ہدف کا تعاقب جاری رکھا۔ مارکرم کی اننگز دونوں ٹیموں میں حد فاصل کی بنیاد تھی۔ ان کے 91 رنز کی وجہ سے وقفے وقفے سے وکٹ گرنے کے باوجود جنوبی افریقہ ہدف کے قریب تر جاتا رہا۔ دوسری جانب پاکستان ٹیم جو مارکرم کے آؤٹ ہونے تک مایوسی کا شکار تھی، اچانک اپنے رنگ میں آگئی اور جنوبی افریقہ کے 8 کھلاڑیوں کو پویلین میں واپس بھیجنے میں کامیاب ہوگئی۔ اب میچ میں 22 رنز، ٹیل اینڈرز اور دو وکٹ باقی تھیں۔ ایسا لگتا تھا کہ جیت نے بابراعظم اینڈ کمپنی کا رخ کرلیا ہے۔
مایوسی اور یاسیت میں غرق پاکستانی فیلڈرز کو ہوش آیا اور تقویت بھی ملی کیونکہ وسیم جونیئر اور شاہین شاہ آفریدی کی باؤلنگ پروٹیز ٹیل اینڈرز این گیڈی اور کیشو مہاراج کے لیے قہر بن گئی تھی۔ مہاراج نے اپنے اعصاب قابو میں رکھے اور کریز پر موجود رہے لیکن حارث رؤف نے جب اپنی گیند پر شاندار کیچ پکڑ کر این گیڈی کو آؤٹ کیا تو اس نے پاکستانی کیمپ میں جیت کی روح پھونک دی۔
اگر میچ کے سب سے قیمتی لمحات گنے جائیں تو مہاراج، این گیڈی اور شمسی کی صبر آزما بیٹنگ تھی جس نے صرف پاکستان کی زبردست فاسٹ باؤلنگ کا سامنا کیا بلکہ اس وقت کا دباؤ بھی برداشت کرکے پاکستانی ٹیل اینڈرز کو سبق بھی دے دیا۔
پاکستانی فاسٹ باؤلنگ اس طرح ہورہی تھی کہ بڑے بڑے بلے بازوں کا دل دہل جائے۔ ایسا لگ رہا تھا بس ایک گیند، آخری وکٹ گرجائے گی اور تپتے ہوئے صحرا میں بارش کے قطروں کی مانند چھٹے میچ میں پاکستان کو جیت مل ہی جائے گی۔ لیکن جنوبی افریقہ کی قسمت نے یاوری کی اور ایک ایک رنز کرکے ہدف کے بہت قریب پہنچ گئے اور بس 5 رنز اور جیت کا جشن۔
پاکستان کے لیے بری خبر یہ تھی 47 اوورز کے اختتام پر فاسٹ بولرز کے اوورز ختم ہوگئے تھے اور اب یہ سوال اٹھ رہا تھا کہ باؤلنگ کون کرے گا؟ اسامہ میر یا محمد نواز؟ قرعہ نواز کے نام نکلا۔
مگر نواز کی باؤلنگ پر فیلڈ غلط سیٹ ہوئی جس نے مہاراج کو موقع دے دیا کہ وہ چوکا مار دیں۔ یہاں نواز سے غلطی ہوئی، پچ کو جانچے بغیر تیز گیند کی شارٹ پچ ہوئی اور وننگ چوکا لگ گیا۔
یہی وہ لمحہ تھا جب سارے خواب بکھر گئے اور ساری امیدوں کا خون ہوگیا۔ اس وقت بابر نے خود کو بہت لعن طعن کی ہوگی کہ میں نے اسامہ میر کو باؤلنگ کیوں نہ دی۔ ایک اندازے کی غلطی نے درست فیصلے کی طاقت چھین لی۔ وہ تو اسامہ کو لانا چاہتے تھے لیکن ساتھی کھلاڑیوں کے مشورے کے دباؤ میں آگئے اور نواز کو اوور دے بیٹھے۔
سب کچھ پاکستان کے حق میں جارہا تھا، میچ پاکستان کی دسترس میں تھا، جیت کی ضو پھوٹ رہی تھی، اطمینان غالب آرہا تھا، جشن کا سماں تیار تھا اور خوشی پھوٹنے ہی والی تھی لیکن بابر بھول گئے تھے کہ پے درپے شکستوں کا بوجھ جیتی ہوئی بازی بھی ہروا دیتا ہے اور چنئی میں بھی یہی ہوا۔ گزشتہ شکستوں کی وجہ سے پاکستان پر ایک اور شکست کا داغ لگ گیا اور اس شکست نے بظاہر ورلڈکپ میں پاکستان کے سفر کو اختتام پر پہنچا دیا ہے۔