’بے خوف کرکٹ اسی کو کہتے ہیں‘
ہوا کے رخ پر اُڑنا بھی آسان ہوتا ہے اور لڑنا بھی لیکن اگر ہوا کے مخالف اُڑنا پڑے تو اعصاب شل ہوجاتے ہیں اور سارا زمانہ مخالف ہوجاتا ہے۔ مگر دلیروں کے جوہر تو ایسے مقابلوں میں ہی کھلتے ہیں جب سب کچھ آپ کی حد سے باہر اور منزل کا حصول ناممکن نظر آئے۔ تب ہی وہ نڈر مہم جو بے خوف ہوکر آگے بڑھتے ہیں۔
فخر زمان کے لیے یہ ورلڈکپ اب تک تنقیدوں کے بوجھ کے سوا کچھ بھی نہ تھا۔ ایشیا کپ سے شروع ہونے والی ناکامیوں کا سلسلہ دراز ہورہا تھا بنگلہ دیش کے میچ تک وہ ٹیم کے سب سے بے کار کھلاڑی تصور کیے جارہے تھے اور روزانہ منیجمنٹ سوچتی تھی کہ ان کو واپس وطن بھیج دیا جائے۔ شاید انہوں نے بھی اسے تقدیر کا لکھا سمجھ کر تسلیم کرلیا تھا۔ وہ خاموشی سے ورلڈکپ کے اختتام کا انتظار کررہے تھے کہ قسمت نے کچھ یاوری کی اور امام الحق کی لگاتار ناکام اننگز پر سوشل میڈیا پر شور مچ گیا۔۔۔ ہر ایک کہہ رہا تھا امام کی جگہ فخر زمان کو موقع دو۔
جب ہر طرف سے شور اٹھا تو بابر اعظم مجبور ہوگئے کہ فخر زمان کو آزمالیا جائے۔ بنگلہ دیش، جس کے لیے یہ ورلڈکپ اندھیری رات کے سوا کچھ بھی نہیں رہا ہے اس کے پاکستان کے ساتھ میچ میں فخر زمان کو تقدیر نے موقع دلوایا تو فخر زمان نے اس کو ضائع نہیں کیا۔ حالانکہ وہ اس سے قبل نیدرلینڈز کے خلاف کھیل چکے تھے لیکن خراب کارکردگی والے پانچ میچوں میں مسلسل ڈراپ ہوجانے کی خلش نے انہیں اس میچ میں محتاط بنادیا تھا اس لیے جب دوبارہ موقع ملا تو ابتدا میں قدرے محتاط نظر آئے لیکن پھر کھل کر کھیلنے لگے۔ بنگلہ دیش کی بولنگ تو واجبی سی تھی لیکن انہوں نے زبردست بیٹنگ کی تھی۔ وہ سنچری تو نہیں کرسکے تھے لیکن کچھ اچھے شاٹ لگنے سے اعتماد آگیا تھا۔
کل جب بنگلور میں نیوزی لینڈ کے خلاف وہ کھیلے تو ان کی اننگز میں جوش اور جارحیت اسی اعتماد کی مظہر تھی جو بنگلہ دیش کے خلاف ملا تھا۔ اس اعتماد نے نیوزی لینڈ کے متعین کردہ پہاڑ جیسے ہدف کو پھولوں کی سیج بنادیا۔ بابر اعظم نے جب ٹاس جیت کر پہلے بولنگ کرنے کا فیصلہ کیاتو شاید ان پر ان تمام افواہوں کا اثر تھا کہ بارش ہونے کے باعث پچ پر باؤنس اور سوئنگ ملے گی اسی لیے پاکستان نے ایک ریگولر اسپنر کی جگہ حسن علی کو شامل کیا۔ دلچسپ بات یہ تھی کہ نیوزی لینڈ نے ایک فاسٹ بولر کم کرکے اسپنر اش سوڈھی کو شامل کیا تھا۔
تاہم پچ نے دونوں کپتانوں کو دھوکہ دے دیا۔ نہ باؤنس ملا، نہ سوئنگ اور نہ اسپن، شاہین شاہ آفریدی جیسا باؤلر سر پٹختارہا۔ رچن رویندرا اور کین ولیمسن نے پاکستانی بولنگ کو بقول شخصے ’دھو ڈالا‘۔ دونوں کی بیٹنگ اور بعد میں مڈل آرڈر نے جب 401 رنز کا ہدف ترتیب دیا تو پاکستانی شائقین کے چہرے اتر گئے۔ ایسالگتا تھا کہ پاکستان کاسفر ختم ہوگیا ہے۔
لیکن قدرت کا نظام چل پڑا۔۔۔
وہ جو تاریخ کی کتابوں میں ایک اور شکست رقم کرنے لگے تھے ان کے قلم رک گئے۔۔۔ جس سے ہمیشہ امید رہتی تھی کہ وہ اچھا آغاز دے گا اور ناکام ہورہا تھا کل وہ کچھ اور ہی سوچ کر آیا تھا۔ اسے معلوم تھا کہ یا مارو یا مرجاؤ کی گھڑی ہے۔۔۔ اب اگر کچھ نہ کیا تو پھر زمانے کا فخر بننے کا موقع ملے گا نہ آرزو۔ وہ سوچ کر بہت کچھ نکلا اور آتے ہی چھا گیا۔
کل فخر زمان کے ہاتھ میں چوبی بیٹ نہیں فولادی تلوار تھی، جو کوند رہی تھی۔ جدھر ہاتھ اٹھتا گیند باد صبا کی مانند ہواؤں کے دوش پر سفر کرتی تماشائیوں میں گم ہوجاتی تھی۔ ہدف پہاڑ جیسا لیکن فخر اور اس کے ساتھ بابر اعظم مطمئن بھی تھے اور پر اعتماد بھی۔ جو حشر پاکستانی باؤلنگ کا کیوی بلے بازوں نے کیا تھا اس پر سوا سیر ان دونوں نے کیا اور کسی بھی باؤلر کو نہ ٹکنے دیا۔
ایک طرف رنز کی برسات ہورہی تھی اور فخر زمان کا بیٹ چھکے اور چوکے اگل رہا تھا تو آسمان کیوں بے کیف رہتا۔ اس نے بھی قدرت کے نظام کو منوانے کے لیے بارش کی پھوار کرکے میچ کو اور آسان بنادیا۔ دو مرتبہ میچ کا رک جانا پاکستان کے حق میں گیا۔ جو ہدف شاید بعد میں مشکل ہوجاتا اسے بارش سمیٹ کر دہلیز تک لے آئی۔
فخر زمان اور بابر اعظم نے صرف رنز ہی نہیں کیے بلکہ اوورز میں رنز کی اوسط کو بھی مدنظر رکھا۔ پاکستان کو ڈک لوئیس میتھڈ کے تحت 8 رنز سے کچھ زیادہ کی اوسط رکھنا تھی جو فخر زمان کی طوفانی اننگز نے ہر اوور میں ممکن بنائے رکھا۔ ان کی سنچری میں 11 چھکوں اور 8 چوکوں نے نیوزی لینڈ کے سارے خواب کرچی کرچی کردیے۔ 126 رنز کی اننگز اور بابر اعظم کے ساتھ 194 رنز کی رفاقت نے پاکستانی شائقین کی آنکھوں میں امید کے دیپ جلادیے ہیں۔
کل کے میچ میں سنچری تو رویندرا نے بھی بنائی اور ولیمسن نے بھی بہت عمدہ بیٹنگ کی لیکن فخر زمان کی بات ہی کچھ اور تھی۔ جس طرح فخر کھیل رہے تھے اس سے توقع یہی تھی کہ ہدف قابل حصول ہے۔
اس میچ کے بعد انگلینڈ سے میچ ہونا ہے جسے جیتنا بہت ضروری ہے لیکن رن اوسط کو مزید بہتر بنانا۔ ہوگا نیوزی لینڈ اور پاکستان کے پوائنٹس برابر ہیں لیکن نیوزی لینڈ کومعمولی سی سبقت حاصل ہے۔ دونوں کے ایک ایک میچ باقی ہیں اور اتفاق سے دونوں کی حریف وہ ٹیمیں ہیں جن کے لیے اب ٹورنامنٹ میں کچھ بچا نہیں ہے۔ لیکن اپنی جیت کو ثمر آور کرنے کے لیے نیوزی لینڈ کی جانب سے سری لنکا کو اور پاکستان کی جانب سے انگلینڈ کو بھاری مارجن سے شکست دینی ہوگی۔
آئندہ میچوں میں پاکستان ٹیم کی کیا کوشش اور کارکردگی ہوگی یہ تو آخری میچ میں انگلینڈ کے خلاف میچ میں ظاہر ہوگا لیکن اس سے پہلے فخر زمان نے صرف انگلینڈ ہی نہیں بلکہ دیگر ٹیموں کو بھی خبردار کردیا ہے۔ فخر زمان نے جس طنطنے سے بیٹنگ کی اور فلک شگاف چھکے لگائے، کیوی کپتان کہنے پر مجبور ہوگئے کہ فخر کے لیے گراؤنڈ چھوٹا تھا۔
پاکستان کو جس جیت کی شدت سے تلاش تھی وہ تو مل گئی لیکن فخر زمان کی اننگز ساتھی بلے بازوں کو پیغام دے گئی کہ بے خوف کرکٹ جب تک نہیں کھیلوگے جیت کا مزہ نہیں چکھ سکتے۔ بنگلور کے چنا سوامی اسٹیڈیم نے ورلڈکپ کے میچ کے ساتھ فخر زمان کی طوفانی اننگز کو اپنی تاریخ کا حصہ بنالیا ہے۔ لیکن تاریخ دانوں کو یہ بھی رقم کرنا ہوگا کہ بے خوف کرکٹ اسی کو کہتے ہیں۔