بلوچستان کی سیاسی بساط پر نئی حکمت عملی
بلوچستان کا سیاسی منظر نامہ ایک بار پھر تبدیل ہوتا دکھائی دے رہا ہے جہاں حال ہی میں پاکستان پیپلز پارٹی کے ساتھ اتحاد کرنے والی کئی اہم شخصیات اب پاکستان مسلم لیگ نواز کی جانب بڑھ رہی ہیں جب کہ مسلم لیگ (ن) پر حال ہی میں اس کے مخالفوں اور ماضی کے کچھ اتحادیوں کی طرف سے ’کنگز ’ پارٹی ہونے کا لیبل لگایا جا رہا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق بلوچستان میں جام کمال خان عالیانی کی مخلوط حکومت کے سابق وزیر میر سلیم احمد کھوسو کی پیپلز پارٹی میں شمولیت کے چند مہینوں بعد ہی واپسی کچھ لوگوں کی بڑھتی توقعات کو مزید تقویت دیتی ہے کہ مسلم لیگ (ن) آئندہ بننے والی صوبائی حکومت کی قیادت کرسکتی ہے۔
ان توقعات کو گزشتہ ماہ مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف کی لندن سے وطن واپسی سے تقویت ملی جب کہ بہت سے لوگوں نے ان کی پارٹی میں شمولیت کے سلسلے کو مقدمات میں ریلیف اور تین بار کے وزیر اعظم کے لیے دیگر مثبت پیش رفت سے منسوب کیا ہے۔
2018 کے عام انتخابات میں صحبت پور ضلع سے بی اے پی کے ٹکٹ پر ایم پی اے منتخب ہونے والے میر سلیم احمد کھوسو کہتے ہیں کہ وہ اپنے خاندان اور سیاسی دوستوں سے مشاورت کے بعد کسی دوسری پارٹی میں شمولیت کا اعلان کریں گے۔
وزیر ریونیو کے طور پر میر سلیم احمد کھوسو نے جام کمال عالیانی کی صوبائی کابینہ میں ایک اہم کردار ادا کیا، حزب اختلاف کی جماعتوں بی این پی (مینگل) اور جے یو آئی(ف) کے ساتھ بی اے پی کے صوبائی اراکین اسمبلی کے ایک گروپ کی طرف سے عدم اعتماد کی تحریک پیش کیے جانے کے بعد بھی وہ جام کمال عالیانی کے ساتھ کھڑے رہے۔
وزیر اعلیٰ کے طور پر جام کمال عالیانی کے استعفیٰ کے بعد میر سلیم احمد کھوسو ان کے ساتھ کھڑے رہے اور میر عبدالقدوس بزنجو کی قیادت میں نئی مخلوط حکومت میں شامل نہیں ہوئے۔
تاہم گزشتہ برس کے اواخر میں بلوچستان سے کچھ بڑی سیاسی شخصیات نے پیپلز پارٹی میں شمولیت اختیار کی، یہ رہنما بظاہر نئے انتخابات کے بعد صوبے میں پیپلز پارٹی کی حکومت کی توقع کر رہے تھے، ان ناموں میں میر سلیم احمد کھوسو، میر ظہور احمد بلیدی، میر رؤف رند، سردار فتح محمد حسنی، طاہر محمود اور نوابزادہ جمال خان رئیسانی شامل تھے۔
کوئٹہ کے حالیہ دورے کے دوران مسلم لیگ (ن) کے سینئر رہنما اور سابق قومی اسمبلی کے اسپیکر سردار ایاز صادق نے اہم شخصیات سے ملاقاتیں کیں جن میں بلوچستان عوامی پارٹی کے جام کمال خان عالیانی اور نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی شامل تھے، رہنماؤں کی بات چیت کا مقصد انتخابات کے بعد مضبوط حکومت بنانے کے لیے مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کی دعوت دینا تھا۔
مسلم لیگ (ن) بلوچستان کے صدر میر جعفر خان مندوخیل نے نواز شریف کے پارٹی رہنماؤں شہباز شریف اور مریم نواز کے ہمراہ جلد کوئٹہ آنے کا اعلان کیا۔
میر جعفر خان مندوخیل نے امید ظاہر کی کہ بااثر قبائلی اور سیاسی رہنماؤں کے ساتھ ساتھ کئی سابق اراکین قومی و صوبائی اسمبلی نواز شریف سے ملاقات کے بعد مسلم لیگ (ن) میں شامل ہوں گے۔
اگرچہ میر سلیم احمد کھوسو نے اپنے استعفے کی وجہ پیپلز پارٹی کے صوبائی صدر میر چنگیز خان جمالی کے ساتھ اختلافات کو قرار دیا، تاہم سیاسی مبصرین سمجھتے ہیں کہ کہ ان کی رخصتی اس بڑے رجحان کا حصہ ہے جس میں کئی سیاستدان مسلم لیگ (ن) میں شامل ہونے کے لیے پر تول رہے ہیں۔
یہاں یہ بات قابل ذکر ہے کہ حال ہی میں ایاز صادق سے ملاقات کرنے والے نوابزادہ حاجی لشکری رئیسانی جنہیں مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کی دعوت دی گئی تھی، وہ گزشتہ ہفتے مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف سے ان کی رہائش گاہ پر ملاقات کے لیے لاہور گئے تھے، ان کے ہمراہ 2008 میں 13 پیپلز پارٹی کی حکومت کے وفاقی وزیر میر ہمایوں عزیز کرد بھی تھے۔
ذرائع کا کہنا ہے کہ شہباز شریف نے لشکری رئیسانی کو مسلم لیگ (ن) میں شمولیت کی دعوت دی، تاہم لشکری رئیسانی نے ان سے کہا کہ وہ سیاسی ساتھیوں اور قریبی دوستوں سے مشاورت کے بعد فیصلہ کریں گے۔
نوابزادہ لشکری رئیسانی اپنے سیاسی سفر کے دوران پیپلز پارٹی بلوچستان کے صدر رہے ہیں، وہ مسلم لیگ (ن) اور پھر بی این پی مینگل میں بھی شامل رہ چکے ہیں، انہوں نے 2018 کے عام انتخابات میں بی این پی مینگل کے ٹکٹ پر حصہ لیا لیکن ہار گئے۔
مسلم لیگ (ن) میں ان کی دوبارہ شمولیت کے بارے میں ان کے آئندہ فیصلے کے بلوچستان کے بدلتے سیاسی منظرنامے پر اہم اثرات مرتب ہونے کی توقع ہے۔