سول ایوی ایشن اتھارٹی کو 82 معطل پائلٹس کو 15 روز میں بحال کرنے کی ہدایت
سینیٹ کی کمیٹی نے سول ایوی ایشن اتھارٹی (سی اے اے) کو ہدایت دی ہے کہ وہ 82 پائلٹس کو بحال کرے، جنہیں لائسنسنگ امتحانات کے دوران مبینہ طور پر دھوکا دہی اور غلط بیانی پر معطل کردیا گیا تھا۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سول ایوی ایشن اتھارٹی کو حکم دیا گیا کہ وہ 15 روز میں فیصلے پر عمل درآمد کر کے رپورٹ پیش کرے۔
گزشتہ روز سینیٹ کی کمیٹی برائے قواعد و ضوابط اور استحقاق کا اجلاس پارلیمنٹ ہاؤس میں منعقد ہوا۔
سینیٹر محمد طاہر بزنجو کی زیر صدارت اجلاس میں بتایا گیا کہ سی اے اے کے ڈائریکٹر جنرل نے سینیٹ کی ذیلی کمیٹی کو ’جھوٹی یقین دہانیاں‘ کروائیں اور ایوان کے فیصلوں پر عمل درآمد نہیں کیا۔
پائلٹس کے لائسنس کے معاملات کا جائزہ لینے کے لیے قائمہ کمیٹی برائے ہوابازی کی ذیلی کمیٹی سینیٹر سلیم مانڈوی والا کی سربراہی میں قائم کی گئی تھی۔
رواں برس مئی میں ذیلی کمیٹی کے اجلاس کے دوران سی اے اے کے ڈی جی نے کہا کہ 262 پائلٹس کے لائسنس سے متعلق مسائل تھے، جس کی وجہ سے عالمی سطح پر مسائل پیدا ہوئے۔
تحقیقات کے بعد 180 پائلٹس کو کلیئر کر دیا گیا جبکہ باقی 82 پائلٹس کو مسائل کا سامنا کرنا پڑا، ان میں سے 50 کے لائسنس وفاقی کابینہ کی ہدایت پر منسوخ کردیے گئے اور 32 پائلٹس کو معطل کر دیا گیا۔
یہ مسئلہ سابق وزیر ہوا بازی غلام سرور خان کی جانب سے جون 2020 میں قومی اسمبلی میں دیے گئے بیان سے پیدا ہوا، جہاں انہوں نے دعویٰ کیا تھا کہ تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ ملک کے 860 پائلٹس میں سے 260 سے زیادہ پائلٹس کے پاس جعلی لائسنس ہیں یا پھر انہوں نے امتحانات میں دھوکہ دہی کی۔
گزشتہ روز استحقاق کمیٹی کے رکن سینیٹر مانڈوی والا نے اجلاس کو بتایا کہ ذیلی کمیٹی لائسنس کے معاملے کے حل کی نگرانی کر رہی ہے۔
اجلاسوں میں یقین دہانیوں کے باوجود ڈی جی سی اے اے ذیلی کمیٹی کے فیصلوں کو نافذ کرنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں، کمیٹی نے سی اے اے کو ہدایات جاری کیں اور معاملے کو 2 ہفتوں کے لیے مؤخر کر دیا۔
استحقاق کمیٹی کو نیشنل بینک آف پاکستان کے صدر کی بینک کے کراچی آفس میں ہونے والے اجلاس میں اسی عمارت میں موجود ہونے کے باوجود عدم شرکت کے خلاف سینیٹر نصیب اللہ بازئی اور سینیٹر سردار محمد شفیق ترین کی جانب سے پیش کی گئی تحریک پر بھی بریفنگ دی گئی۔
نیشنل بینک آف پاکستان کے صدر رحمت حسنی بھی سینینٹ کمیٹی کے اجلاس میں شریک تھے، انہوں نے اپنے رویے پر تحریری معافی نامہ جمع کرایا جسے کمیٹی نے قبول کر لیا، اس معاملے پر مزید بحث آئندہ اجلاس تک مؤخر کر دی گئی۔