پاکستان کرکٹ سے اسپنرز کہاں چلے گئے؟
آسٹریلیا کے دورے پر پاکستان کرکٹ ٹیم نے پہلے ٹیسٹ میچ سے قبل دارالحکومت کینبرا میں سائیڈ میچ کھیلا ہے۔ اس میچ میں باؤلرز کو سوائے سر پیٹنے کے کچھ نہیں مل سکا۔
سست اور ہموار پچ پر باؤلرزکے لیے بلے باز کی شکل دیکھنے کے علاوہ کوئی خاص کام نہیں تھا۔ پہلے تو پاکستانی بلے بازوں نے پرائم منسٹر الیون کے باؤلرز کو پسینہ بہانے پر مجبور کیا اور پھر جب میزبانوں کو موقع ملا تو انہوں نے بھی ایسا ہی کیا۔ پاکستان نے اس میچ میں زیادہ تر ان کھلاڑیوں کو جگہ دی جو پرتھ ٹیسٹ کے لیے منتخب کیے جاچکے ہیں بس چند ایک میں مقابلہ ہے کہ کسے لیا جائے لیکن اسپنر کے لیے کپتان شان مسعود کی پہلی پسند ابرار احمد ہیں۔
پاکستان ٹیم کے لیے لمحہ فکریہ اس وقت پیدا ہوگیا جب ابرار احمد میچ کے تیسرے روز دائیں پیر کی تکلیف کے باعث باہر چلے گئے۔ یہ تکلیف اس قدر تھی کہ انہیں ایم آر آئی اسکین کے لیے اسپتال لے جایا گیا۔
پاکستان ٹیم میں اس دورے پر دو اسپنرز ساتھ ہیں ایک نعمان علی اور دوسرے ابرار احمد۔ ابرار احمد کے ان فٹ ہونے پر نعمان علی ہی واحد باؤلر ہیں جنہیں ٹیم میں کھلایا جاسکتا ہے۔ اگر نعمان علی کی باؤلنگ کا جائزہ لیں تو وہ بائیں بازو کے آرتھوڈوکس اسپنر ہیں جو پچ پر پڑنے والے گڑھوں سے مدد لے کر باؤلنگ کرتے ہیں۔ ان کی باؤلنگ میں بریک اور گھماؤ اتنا نہیں ہوتا جتنا ایک لیگ اسپنر یا آف اسپنر میں ہوتا ہے۔ وہ آسٹریلوی پچوں پر مؤثر ثابت نہیں ہوسکتے کیونکہ وہاں پچوں پر نہ گڑھے پڑتے ہیں اور نہ وہ چٹختی ہیں اس لیے نعمان علی کو زیادہ مدد نہیں مل سکتی۔
ابرار احمد انگلیوں کی مدد سے اسپن کرتے ہیں وہ کیرم بورڈ گیند بھی کرتے ہیں جس میں گیند ہوا میں تیزی سے غوطہ کھاتی ہے اور بلے باز کو اپنی لینتھ سے دھوکہ دیتی ہے۔ لیکن ابرار احمد ناتجربہ کار ہیں انہیں اپنی گُگلی پر کنٹرول نہیں ہے، وہ آسٹریلوی پچوں پر اپنی خراب لینتھ کی وجہ سے مار کھاسکتے ہیں۔
کیا پاکستان کے پاس یہی دو اسپنرز ہیں؟
سوال یہ ہے کہ کیا آسٹریلیا کے دورے پر یہی دو اسپنرز لے جائے جاسکتے تھے۔ تو جواب بہت آسان ہے کہ دونوں اسپنرز گزشتہ ایک سال سے مسلسل کھیل رہے ہیں۔ ابرار نے انگلینڈ کے خلاف شاندار باؤلنگ کی تھی جبکہ نعمان نے سری لنکا میں شاندار باؤلنگ کی تھی تو دونوں کو کیسے نظر انداز کیا جاسکتا ہے۔ تاہم ان دونوں اسپنرز نے زیادہ تر مایوس کیا ہے۔ انگلینڈ سے تینوں ٹیسٹ میں شکست اور نیوزی لینڈ سے ڈرا ہوجانا دونوں کی اہلیت پر انگلی اٹھانے کے لیے کافی ہے۔
نیوزی لینڈ کی ٹیم اسپنرز کو زیادہ اچھا نہیں کھیل پاتی ہے اور حال ہی میں بنگلہ دیشی اسپنرز کے خلاف بری طرح ناکام ہوئی ہے لیکن پاکستانی اسپنرز انہیں دونوں ٹیسٹ میں گھیر نہیں سکے۔ اگر یہ دونوں اسپنرز پاکستانی پچوں پر ناکام رہے تو آسٹریلوی پچوں پر کس طرح کچھ کر دکھائیں گے؟
آسٹریلیا میں پرائم منسٹر الیون کے خلاف بھی ابرار احمد بالکل متاثر نہیں کرسکے جبکہ کم معیار کے بلے باز سامنے تھے لیکن ٹیسٹ میچوں میں وہ اہم اسپنر ہوں گے اور ان کا ان فٹ ہونا پاکستان کے لیے بڑا دھچکہ ہے۔
آخر اچھے اسپنرز کہاں چلے گئے؟
ایسا نہیں ہے کہ پاکستان کرکٹ اسپنرز سے بالکل محروم ہوگئی ہے۔ بہت سے اسپنرز مختلف ٹیموں میں باؤلنگ کررہے ہیں اور کچھ تو انٹرنیشنل کرکٹ بھی کھیل چکے ہیں۔ ساجد خان بنگلہ دیش کے خلاف دس وکٹ لے چکے ہیں جبکہ اسامہ میر، محمد نواز اور عثمان قادر ورلڈکپ کی ٹیم میں شامل تھے۔ شاداب خان کافی عرصے سے پاکستان ٹیم کا حصہ ہیں۔ اگر ڈومیسٹک کرکٹ میں دیکھا جائے تو کاشف بھٹی نے قائد اعظم ٹرافی میں سب سے زیادہ وکٹیں حاصل کی ہیں، زاہد محمود بھی قومی ٹیم کی نمائندگی کرچکے ہیں، عارف یعقوب، قاسم اکرم، مہران ممتاز، مبشر احمد، ابتسام شیخ اور بہت سے دوسرے اسپنرز ہیں جو کھیل رہے ہیں۔
تو کیا ان تمام اسپنرز میں کوئی ایسا نہیں کہ قومی ٹیم کے لیے وہ کردار ادا کرسکے جو ماضی میں اقبال قاسم، عبدالقادر اور ثقلین مشتاق ادا کرتے تھے۔
سابق ٹیسٹ اسپنر اقبال قاسم کہتے ہیں کہ پاکستان کرکٹ میں کبھی بھی دیانت داری سے اسپنرز کا کردار تسلیم نہیں کیا گیا۔ حالانکہ پاکستان کی نصف سے زیادہ فتوحات اسپنرز کی وجہ سے ملی ہیں لیکن بورڈ حکام کی لاپروائی اور ٹی ٹوئنٹی کرکٹ کی چمک دھمک نے اسپنرز کا کردار مدہم کردیا باقی کسر ٹیپ بال کرکٹ نے پوری کردی جس میں اسپنرز کو فضول سمجھا جاتا ہے۔ پی سی بی نے اکیڈمی ہونے کے باوجود اسپنرز کی تیاری کے لیے کبھی کوشش نہیں کی۔
ثقلین مشتاق کے ہیڈ کوچ بننے کے بعد بھی پاکستان اسپنرز کے معاملے میں خالی ہاتھ ہی رہا۔ وہ اپنی صلاحیتیں نئی نسل تک منتقل نہیں کرسکے اور موجودہ اسپنرز کی کارکردگی میں کوئی فرق نہ آسکا۔ ورلڈکپ سے قبل اسامہ میر کو بھارتی پچز پر کامیاب کہا جارہا تھا لیکن اسامہ میر نے بے حد مایوس کیا۔ وہ دوسری ٹیموں کے اسپنرز کی نسبت مہنگے بھی رہے اور غیر مؤثر بھی۔
صورت حال کیسے بہتر ہو؟
کیا پاکستان دوبارہ عبدالقادر اور اقبال قاسم نہیں بناسکتا۔ پاکستان میں سب سے زیادہ 900 وکٹیں لینے والے اقبال قاسم کہتے ہیں کہ اسپنرز بنتے نہیں پیدا ہوتے ہیں۔ لیکن سسٹم انہیں بننے کا موقع دیتا ہے۔ وہ اپنی مثال دیتے ہیں کہ صبر اور محنت سے یہ مقام حاصل کیا۔ وہ کہتے ہیں کہ ’روز پانچ چھ گھنٹے باؤلنگ کرتا تھا اور اپنی لینتھ کو بہتر بناتا تھا۔ آج کے دور میں نوجوان اسپنرز میں صبر اور محنت کی کمی ہے وہ راتوں رات مشہور ہونا اور امیر بننا چاہتے ہیں‘۔
اگر پی سی بی اسپنرز کی تلاش کے لیے اقبال قاسم کی خدمات حاصل کرے اور ماضی کے دوسرے اسپنرز کے ساتھ مل کر ان کی لائن لینتھ اور ورائٹی پر کام کرے تو کوئی وجہ نہیں کہ اسپنرز نہ بن سکیں۔ بھارت کو بھی گزشتہ دہائی میں یہی مشکلات تھیں لیکن اب اپنے سسٹم کے ذریعے وہ کلدیپ یادو اور یزویندر چہل جیسے مایہ ناز اسپنرز حاصل کرچکے ہیں۔ اس میں انیل کمبلے نے اہم کردار ادا کیا۔
پاکستان اسپنرز کی بہتری کے لیے سری لنکن اسپنرز سے بھی مدد لے سکتا ہے جہاں ماضی کے بڑے اسپنرز کی کھیپ موجود ہے۔
دورہ آسٹریلیا میں مشکلات
پاکستان کا پہلا میچ تو پرتھ میں ہے جہاں ممکنہ طور پر اسپنر کا کردار عمومی ہوگا لیکن سڈنی اور ملبرن میں پاکستان کو ایک اچھے اسپنر کی شدید ضرورت ہوگی۔
پاکستان نے آخری ٹیسٹ میچ سڈنی میں مشتاق احمد کی باؤلنگ کے باعث جیتا تھا۔ لیکن اب مشتاق احمد کے پائے کا کوئی اسپنر موجود نہیں ہے۔
پاکستان ٹیم نے اب ساجد خان کو طلب کیا ہے لیکن وہ ڈومیسٹک کرکٹ میں کوئی خاص کارکردگی نہیں دکھاسکے ہیں۔
پاکستان جسے اسپنرز کی نرسری کہا جاتا تھا اور ماضی میں کوالٹی اسپنرز بنانے کے لیے مشہور تھا آج اس موڑ پر پہنچ گیا ہے جہاں اسپنرز کا کال پڑگیا ہے۔ پی ایس ایل کی ٹیموں سے لے کر قومی ٹیم تک کوئی ایسا اسپنر موجود نہیں جسے فتح گر کہا جاسکے۔ تیز اور بے ہنگم موسیقی تو آپ کا دماغی سکون چھین لیتی ہے اور تیز بے ہنگم کرکٹ نے آپ کی روایت اور آپ کا فخر چھین لیا ہے۔
اگر اسپنرز کی مہارت میں کمی کا یہی حال رہا تو ممکن ہے کہ اگلے عشرے میں پاکستان کرکٹ اسپنرز کو صرف تاریخ کے صفحات میں ہی تلاش کرسکے گی۔