پاکستان کی ایران میں پولیس ہیڈ کوارٹر پر دہشتگرد حملے کی شدید مذمت
پاکستان نے ایران کے راسک پولیس ہیڈکوارٹر پر دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے مکمل یکجہتی کا اظہار کیا ہے۔
ترجمان دفتر خارجہ کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا کہ پاکستان ایران کے جنوب مشرقی علاقے میں راسک پولیس ہیڈکوارٹر پر دہشت گرد حملے کی شدید مذمت کرتا ہے جس میں 11 ایرانی اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے تھے۔
بیان میں کہا گیا کہ ہم متاثرین کے اہل خانہ سے دلی تعزیت کا اظہار کرتے ہیں اور زخمیوں کی جلد صحت یابی کی دعا کرتے ہیں۔
ترجمان دفتر خارجہ نے مزید کہا کہ پاکستان اِس ناقابل بیان دکھ کی گھڑی میں حکومتِ ایران اور برادر عوام کے ساتھ مکمل یکجہتی کا اظہار کرتا ہے۔
بیان میں مزید کہا گیا کہ دہشت گردی علاقائی اور عالمی امن و سلامتی کے لیے خطرہ ہے، اس کا دوطرفہ اور علاقائی تعاون سمیت ہر طرح سے مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ 2 روز قبل (15 دسمبر کو) ایران کے جنوبی مشرقی صوبے سیستان بلوچستان کے پولیس تھانے میں رات گئے ہونے والے حملے میں 11 پولیس اہلکار مارے گئے۔
ڈان اخبار میں شائع خبر رساں ادارے اے ایف پی کی رپورٹ کے مطابق ایران کے سرکاری ٹی وی کا کہنا تھا کہ سیکیورٹی فورسز کے ساتھ فائرنگ کے تبادلوں میں کئی حملہ آور بھی مارے گئے۔
صوبے کے ڈپٹی گورنر علی رضا مرہماتی نے سرکاری ٹیلی ویژن کو بتایا کہ رسک قصبے کے پولیس ہیڈ کوارٹرز پر حملے میں 11 پولیس اہلکار ہلاک اور دیگر زخمی ہوگئے۔
جیش العدل گروپ نے اپنے ٹیلی گرام چینل پر جاری بیان میں اس حملے کی ذمہ داری قبول کر لی تھی، جیش العدل 2012 میں وجود میں آئی اور اسے ایران نے ’دہشتگرد گروہ‘ کے طور پر بلیک لسٹ کیا ہوا ہے۔
اس سے قبل بھی ایسے ہی حملے ہو چکے ہیں جن میں 23 جولائی کا حملہ بھی شامل ہے جب 4 پولیس اہلکار گشت کے دوران مارے گئے تھے، یہ واقعہ اس صوبے میں فائرنگ کے تبادلے میں 2 پولیس اہلکاروں اور 4 حملہ آوروں کے مارے جانے کے دو ہفتے بعد پیش آیا جس کی ذمہ داری جیش العدل نے قبول کی تھی۔
مئی میں سیستان بلوچستان کے صوبائی دارالحکومت زاہدان کے جنوب مشرق میں واقع ساراوان کے علاقے میں 5 ایرانی سرحدی محافظ مسلح گروہوں کے ساتھ تصادم میں مارے گئے تھے۔
سرکاری میڈیا نے اس وقت اطلاع دی تھی کہ یہ حملہ ایک دہشت گرد گروپ نے کیا جو ملک میں دراندازی کی کوشش کر رہا تھا لیکن اس کے ارکان زخمی ہونے کے بعد موقع سے فرار ہو گئے۔
مئی کے آخر میں ارنا نے ایک پولیس اہلکار کے حوالے سے بتایا کہ طالبان فورسز نے قحط زدہ علاقے سیستان بلوچستان میں ایک ایرانی پولیس اسٹیشن پر گولی چلائی تھی، دونوں ممالک پانی کے حقوق پر جھگڑتے رہے ہیں۔
زاہدان شہر میں بھی مہینوں سے خطرناک مظاہرے جاری تھے جو گزشتہ سال ستمبر میں پولیس افسر کی جانب سے ایک نوعمر لڑکی کے ساتھ مبینہ زیادتی کے نیتجے میں پھوٹ پڑے تھے۔
ستمبر میں زاہدان میں جھڑپیں اس وقت شروع ہوئی جب ایران میں خواتین کے لباس کے سخت قوانین کی مبینہ خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار 22 سالہ مہسا امینی کی دوران حراست موت واقع ہونے کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے شروع ہوگئے تھے۔