’پاکستان کو نواز دو‘، مسلم لیگ (ن) نے انتخابی منشور پیش کردیا
مسلم لیگ (ن) نے عام انتخابات 2024 کے لیے اپنا انتخابی منشور ’پاکستان کو نواز دو‘ کے نعرے کے ساتھ پیش کردیا۔
لاہور میں انتخابی منشور کے اجرا کی تقریب میں سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف، شہباز شریف، مریم نواز اور دیگر رہنماؤں سمیت سینیٹر عرفان صدیقی نے بھی شرکت کی۔
مسلم لیگ (ن) کے منشور کے اہم نکات
- پارلیمنٹ کی بالادستی
- نیب کا خاتمہ
- آرٹیکل 62، 63 کی اصلی حالت میں بحالی
- پنچایت سسٹم تنازعات کے تصفیے کے لیے متبادل نظام
- چھوٹے کسانوں کو سود سے پاک قرضوں کی فراہمی
- فصل کے نقصان کی کمی پوری کرنے کے لیے جدید ٹیکنالوجی کا استعمال
- زراعت کی جدت، کسان کی خوشحالی
- منشور پر مؤثر عمل یقینی بنانے کے لیے خصوصی کونسل، عملدرآمد کونسل کا قیام
- حکومتی کارکردگی کی سہ ماہی رپورٹ
- آئینی، قانونی، عدالتی اور انتظامی اصلاحات کی منصوبہ بندی
- گورننس سسٹم میں اصلاحات
- مالی سال 2025 تک مہنگائی میں 10 فیصد کمی
- چار سال میں مہنگائی 4 سے 6 فیصد تک لانے کا ہدف
- ایک کروڑ سے زائد نوکریوں کی فراہمی
- غربت اور بیروزگاری میں کمی
- تعلیم کے لیے بجٹ میں اضافہ
- سستی اور زیادہ بجلی کی فراہمی، بلوں میں کمی
- ہر صوبے میں کینسر ہسپتال کا قیام
- یونیورسل ہیلتھ کوریج اور انشورنس
- کم آمدن والے افراد کے لیے علاج کی مفت سہولیات
- سرحدوں کے پار امن کا پیغام
- معاشی ترقی، امن، باہمی احترام کی بنیاد پر بھارت سے تعلقات استوار
- مسئلہ کشمیر کا اقوام متحدہ کی قراردادوں کے مطابق حل
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ گزشتہ کئی دنوں سے لاہور میں تھا، لاہور والے بتا رہے تھے کہ کئی دنوں سے سورج نہیں نکلا، آج منشور پیش کرنے کے دن ہی دھند چھٹ گئی، انتخابی منشور کا اعلان کیے جانے پر لاہور میں دھند چھٹنا نیک شگون ہے۔
انہوں نے کہا کہ قائدین نے منشور تیار کرنے کی ذمہ داری دی تھی، نومبر میں منشور بنانے کا کام سونپا گیا تھا، نواز شریف کی ہدایت تھی ایسا منشور نہیں دینا جس پر عمل نہ ہو، انتخابی منشور بنانے میں تاخیر ترامیم کی وجہ سے ہوئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ منشور میں ترامیم، اصلاحات کا عمل آج صبح تک جاری رہا، 8، 10 نکات بناکر قائد کو نہیں دیے کہ وہ کسی جلسے میں پڑھ دیں۔
سینیٹر عرفان صدیقی نے کہا کہ ماضی کی کارکردگی کو بھی ہم نے منشور کا حصہ بنایا، منشور کی خصوصیت یہ ہے کہ ماضی کی کارکردگی کو بھی شامل کیا، یہ بھی بتایا کہ ماضی کے وعدے پورے ہوئے یا نہیں ہوئے۔
انہوں نے کہا کہ آج کے نوجوان کے لیے فیصلہ کرنا آسان ہوگیا، پی ٹی آئی سے پوچھا جائے کہ 4 سال میں 4 بڑے منصوبے بتائیں، ہر جماعت سے اس کے دور حکومت میں بڑے ترقیاتی منصوبوں کا پوچھا جائے، کوئی بھی عام آدمی پی ٹی آئی حکومت کے منصوبے نہیں جانتا ہوگا۔
انہوں نے مزید کہا کہ عام رکشہ ڈرائیور سے بھی پوچھیں تو وہ مسلم لیگ (ن) کے منصوبے گنوائے گا، شہباز شریف حکومت نے ملک کو دیوالیہ ہونے سےبچایا، 16 ماہ میں سب سےبڑی کارکردگی یہی ہےکہ ملک دیوالیہ نہیں ہوا۔
نواز شریف نے لوڈشیڈنگ ختم کرنے کا دعویٰ کبھی نہیں کیا، شہباز شریف
تقریب سے خطاب کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ روایت ہے کہ ہر الیکشن میں جانے سے پہلے سیاسی جماعتیں منشور پیش کرتی ہیں، نواز شریف نے کبھی دعویٰ نہیں کیا کہ وہ لوڈشیڈنگ ختم کردیں گے، نواز شریف نےکہا کہ وہ کوشش کریں گے کہ لوڈشیڈنگ ختم ہو۔
شہبازشریف نے کہا کہ 14 اگست 2014 کو اسلام آباد کے لیے لانگ مارچ شروع ہوا، دیکھتی آنکھوں نے ایسا دلخراش منظر نہیں دیکھا تھا، 2014 کا لانگ مارچ نواز شریف نہیں پاکستان کےخلاف تھا۔
انہوں نے کہا کہ وہ لانگ مارچ نوازشریف کے نہیں ملکی ترقی کے خلاف تھا، سانحہ اے پی ایس پر مجبورا دھرنا ختم کرنا پڑا، لانگ مارچ سے قوم کا جو وقت ضائع ہوا اس کا ذمہ دار کون تھا؟ اس دوران ہر وقت دھرنوں،جلاؤ گھیراؤ کی صدائیں تھیں۔
شہباز شریف نے مزید کہا کہ نواز شریف نے کراچی کے عوام کو گرین لائن بس کا تحفہ دیا، 11 ہزار میگاواٹ بجلی کےمنصوبےلگائے جو ریکارڈ ہے۔
انہوں نے کہا کہ خیبرپختونخوا میں پی ٹی آئی نے10برس میں کیاکیاسب کےسامنےہے، دھرنوں کی وجہ سے ترقی کا عمل رکا رہا، نوازشریف وہ شخص ہے جس نے وعدے کم کیے، عمل زیادہ کیا، انہوں نے ملک کے لیے جو کچھ کیا وہ سب عوام کے سامنے ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ نوازشریف کےمنشور کا اہم حصہ ہے قوم کو جوڑ دو، آج دنیا ہم سے بہت آگے نکل گئی ہے، آپسی اختلافات کو بھلا کر قوم کو اکھٹا کرنا ہوگا، 5 سالوں میں بہت زہر اگلا گیا، بہت مشکل سےختم ہوگا۔
منشور پیش کرنے کے دوران نواز شریف آبدیدہ
اس موقع پر تقریب سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف نے کہا کہ ہر انتقامی کارروائی کے بعد بھی ہم سب ایک ساتھ بیٹھے ہیں، آج ہر انتقامی کارروائی کے بعد ہم سب ایک جگہ موجود ہیں۔
انہوں نے کہا کہ جیلوں میں رہنے کے بعد بھی آج یہاں موجود ہیں، انتخابی منشورپیش کررہےہیں، آج میں کوئی گلہ شکوہ نہیں کرنا چاہتا،کوئی گلے شکوے نہیں کروں گا لیکن بتائیں تو غلطی کہاں ہوئی؟
منشور پیش کرنے کے دوران نواز شریف آبدیدہ ہوگئے، مریم نواز کی آنکھیں بھی نم ہوگئیں۔
نوازشریف نے گفتگو کا سلسلہ جاری رکھتے ہوئے کہا کہ 2008 سے 2013 تک پیپلزپارٹی کی حکومت تھی، پیپلزپارٹی کی حکومت کے ساتھ بہت مسائل تھے، ماضی کی زیادتیوں کو فراموش کرکے مستقبل کی منصوبہ بندی کے لیے آیا ہوں، انتخابات لڑنے کی بھرپور تیاری کررہے ہیں، ہماری توجہ انتقام نہیں ملکی ترقی کی سیاست پر مرکوز ہے۔
انہوں نے کہا کہ میثاق جمہوریت پر ہم سب نے دستخط کیے تھے، اللہ تعالیٰ نے موقع دیا تو منشور پر انشا اللہ عمل کریں گے۔
انہوں نے مزید کہا کہ طاہر القادری کےساتھ گٹھ جوڑ کرکے لانگ مارچ کیا گیا، طاہر القادری کا پاکستان سے کیا تعلق ہے؟
ہم نے ملک بچایا لیکن اس کی قیمت چکائی، نواز شریف
نواز شریف نے کہا کہ میثاق جمہوریت کی بہت خلاف ورزیاں ہوئیں لیکن برداشت کیا، ہمارے خلاف ہر قسم کی انتقامی کارروائی کی گئی، کچھ لوگوں کا منشور ہی دھرنا اور احتجاج کرنا ہے۔
انہوں نے کہا کہ ہم حکومت میں آئے تو منشور پر عمل کریں گے، اپوزیشن میں آئے تو وہ کام نہیں کریں گے جو انہوں نے کیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ 2018 میں پنجاب میں مسلم لیگ (ن) لیڈنگ پارٹی تھی، ہماری حکومت بننے سے روکنے کے لیے ہیلی کاپٹر، جہاز اڑائے گئے۔
نواز شریف نے کہا کہ بلوچستان میں دھماکے سے کئی افراد جاں بحق ہوئے، یہ ان سے ملنے نہیں گیا، اس نے کہا میں بلیک میل نہیں ہوں گا، 150 بندہ شہید ہوگیا، کیا اس کے گھر والے بلیک میل کر رہے تھے؟
انہوں نے کہا کہ ملک بہت زیادہ مسائل میں گِھرا ہوا ہے، بغیر رکاوٹ ہمیں کام کرنے دیا جاتا تو آج ملک ترقی کرچکا ہوتا، ہمیں کام کرنے دیا جاتا تو ملک میں آج مختلف صورتحال ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ میڈیا پر کہا جاتا تھا کہ نواز شریف کے چہرے پر مسکراہٹ نہیں، ملک انتہائی مشکلات میں تھا، میں کیسے مسکراتا؟ میں کچھ کہتا نہیں تھا کہ سمجھا جانا چاہیے تھا کہ میں کیوں نہیں مسکراتا۔
انہوں نے کہا کہ 2017 میں میرے چہرے پر مسکراہٹ آئی کیونکہ مسائل حل ہو رہےتھے، 2017 میں مہنگائی نہیں تھی۔
نواز شریف نے کہا کہ شہبازشریف نے 16 ماہ کی حکومت میں ملک کو بچایا، ہم نے ملک بچایا لیکن اس کی قیمت چکائی، پاکستان کے ساتھ حادثہ نہ ہوتا تو آج عام بندہ کی زندگی کتنی آسان ہوتی۔
انہوں نے کہا کہ ہم نے مولانا کے ساتھ مل کر خیبرپختونخوا میں حکومت نہیں بنائی، اب افسوس ہوتا ہے کہ انہیں آنے نہیں دینا چاہیے تھا، ہم نے خود اپنے پاؤں پر کلہاڑی ماری ہے۔