• KHI: Zuhr 12:22pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:53am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:58am Asr 3:22pm
  • KHI: Zuhr 12:22pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:53am Asr 3:22pm
  • ISB: Zuhr 11:58am Asr 3:22pm

ٹائروں کی اسمگلنگ میں اضافے سے مقامی صنعت مشکلات کا شکار

شائع February 6, 2024
— فائل فوٹو: ڈان
— فائل فوٹو: ڈان

مقامی مارکیٹوں میں اسمگل شدہ ٹائروں کی دستیابی سے صنعتکار پریشان ہیں، جنہوں نے اس مسئلے کو روپے کی قدر میں کمی کے بعد گرتی ہوئی درآمدات کو قرار دیا ہے اور حکومت پر زور دیا ہے کہ وہ غیر قانونی چینلز سے ملک میں آنے والے ٹائروں کی آمد کو روکے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق ایک صنعتکار نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ مقامی منڈی میں تمام سائز کے اسمگل شدہ ٹائر باآسانی دستیاب ہیں، مزید کہا کہ حکومتی مداخلت کے سبب گزشتہ برس اسمگلنگ عاضی طور پر رک گئی تھی، تاہم ایک بار پھر یہ سلسلہ شروع ہو چکا ہے۔

گندھارا ٹائر اینڈ ربر کے چیف ایگزیکٹو افسر حسین کلی خان نے بتایا کہ مقامی صنعت کسی بھی معیشت کی ریڑھ کی ہڈی ہوتی ہے، اور یہ حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ مقامی انڈسٹری کے مفادات کا تحفظ کرے تاکہ وہ ملازمت کے مواقع پیدا کرسکیں، اس کے ساتھ قومی خزانے میں ٹیکس جمع اور ملک کا زرمبادلہ بچا سکیں۔

انہوں نے دعویٰ کیا کہ روپے کی قدر میں کمی کے نتیجے میں ٹائروں کی درآمدات میں کمی ہوئی اور اس قلت کو بھاری تعداد میں اسمگلنگ سے پورا کیا گیا، ان کا کہنا تھا کہ اگرچہ اسمگل شدہ ٹائرز غیر معیاری ہوتے ہیں لیکن لوگ منفی اثرات جانے بغیر کم قیمت کی وجہ سے انہیں خریدتے ہیں۔

حسین کلی خان کا کہنا تھا کہ ملک میں ٹائروں کی سالانہ کھپت ایک کروڑ 45 لاکھ ٹائروں کی ہے، جبکہ مقامی پیدوار سے ایک تہائی اور قانونی برآمدات کے ذریعے محض 10 فیصد طلب پوری کی جا رہی ہے، دیگر ٹائر غیر قانونی چینلز سے مارکیٹ میں آتے ہیں، جس کی وجہ سے قومی خزانے کو 70 ارب روپے سالانہ کا خسارہ جبکہ ٹائر سازوں کو بھی بھاری نقصان ہوتا ہے۔

گندھارا ٹائر اینڈ ربر کے چیف ایگزیکٹیو نے بتایا کہ بھاری اسمگلنگ کا اندازہ کسٹمز انفورسمنٹ آف کلکٹریٹ کی کارروائی سے لگایا جاسکتا ہے، جس نے گزشتہ برس کراچی میں 55 ہزار اسمگل شدہ ٹائروں (زیادہ تر بڑی کاروں کے) کو ضبط کیا، جن کی مالیت تقریباً 54 کروڑ روپے تھی۔

انہوں نے کہا کہ اسمگل شدہ ٹائر غیر معیاری حالت میں پہنچے تھے، اسمگلرز بگڑے ہوئے ٹائروں کو درست کرنے کے لیے مکینیکل ٹولز کا استعمال کرتے ہیں، جس سے ان کی زندگی نمایاں طور پر کم ہو جاتی ہے اور عوامی تحفظ کے لیے کافی خطرہ ہوتا ہے۔

حسین کلی خان نے حکومت پر زور دیا کہ افغان ٹرانزٹ ٹریڈ کے ذریعے درآمد کردہ اعداد و شمار کا جائزہ لیں اور دیکھیں کہ جتنے ٹائرز درآمد کیے جا رہے ہیں کیا وہ افغانستان میں موجود گاڑیوں سے حساب سے منگائے جا رہے ہیں یا نہیں۔

پاکستان ادارہ شماریات کے مطابق رواں مالی سال کے ابتدائی 6 ماہ کے دوران ملک میں ٹائروں کی درآمدات گر کر 17 لاکھ 50 ہزار یونٹس (4 کروڑ 40 لاکھ ڈالر) رہی، گزشتہ برس کے دوران 18 لاکھ 92 ہزار ٹائرز برآمد کیے گئے، جن کی مالیت 6 کروڑ 70 لاکھ ڈالر تھی۔

کارٹون

کارٹون : 4 دسمبر 2024
کارٹون : 3 دسمبر 2024