• KHI: Fajr 5:36am Sunrise 6:56am
  • LHR: Fajr 5:14am Sunrise 6:39am
  • ISB: Fajr 5:22am Sunrise 6:49am
  • KHI: Fajr 5:36am Sunrise 6:56am
  • LHR: Fajr 5:14am Sunrise 6:39am
  • ISB: Fajr 5:22am Sunrise 6:49am

انتخابات 2024 کے حتمی نتائج آنے سے قبل ہی سیاسی جوڑ توڑ کا سلسلہ شروع

—فائل فوٹو
—فائل فوٹو

قومی اور صوبائی اسمبلی کی نشستوں پر ہونے والے انتخابات کے حتمی نتائج مکمل ہونے سے قبل ہی کئی بڑی سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں نے مرکز اور چاروں صوبوں میں حکومتیں بنانے کے لیے گزشتہ روز رات دیر گئے تک ملاقاتیں کیں۔

ڈان اخبار کی رپورٹ سربراہ مسلم لیگ (ن) نواز شریف نے گزشتہ روز تقریر میں اعلان کیا کہ انہوں نے اپنے بھائی و سابق وزیراعظم شہباز شریف کو پیپلزپارٹی، متحدہ قومی موومنٹ (ایم کیو ایم) پاکستان اور دیگر بڑی جماعتوں سے مل کر اتحاد بنانے کا ٹاسک دیا ہے۔

ذرائع نے بتایا کہ اسی سلسلے میں شہباز شریف نے شریک چیئرمین پیپلز پارٹی آصف علی زرداری اور ان کے صاحبزادے بلاول بھٹو زرداری سے نگران وزیر اعلیٰ پنجاب محسن نقوی کی رہائش گاہ پر ملاقات کی۔

پیپلزپارٹی ذرائع نے بتایا کہ یہ ملاقات ایک اہم آغاز تھا، ملاقات کے دوران انہوں نے انتخابات کے نتائج اور انتخابات کے بعد کی صورتحال پر تبادلہ خیال کیا۔

انہوں نے بتایا کہ ملاقات بہت مختصر تھی جو زیادہ دیر تک نہیں چلی، آصف زرداری جمعہ کی شام لاہور پہنچے جبکہ بلاول بھٹو پہلے ہی وہاں موجود تھے، دونوں محسن نقوی کی رہائش گاہ پر پہنچے جہاں شہباز شریف پہلے سے ہی ان کی آمد کا انتظار کر رہے تھے، ملاقات میں مختصر بات چیت ہوئی لیکن بظاہر یہ ایک مثبت نکتے پر اختتام پذیر ہوئی۔

ایم کیو ایم-پاکستان کے سینیئر رہنما امین الحق نے بتایا کہ شہباز شریف نے بعدازاں ایم کیو ایم (پاکستان) کے کنوینر ڈاکٹر خالد مقبول صدیقی سے بھی بات کی، شہباز شریف نے رات گئے انہیں فون کیا تھا اور دونوں فریق بہت جلد ملاقات کریں گے۔

انہوں نے کہا ہم آج ہفتے کو عزیز آباد کے جناح گراؤنڈ میں اپنی جیت کا جشن منا رہے ہیں، اس کے بعد ملاقات ہوگی۔

عام انتخابات سے قبل ایم کیو ایم (پاکستان) نے اعلان کیا تھا کہ وہ انتخابات کے بعد وزیراعظم کے امیدوار کے طور پر نواز شریف کی حمایت کرے گی، تاہم مسلم لیگ (ن) کی مایوس کن کارکردگی نے ایم کیو ایم (پاکستان) کو دوبارہ غور کرنے کا موقع دے دیا ہے کیونکہ جب امین الحق کو مسلم لیگ (ن) کے ساتھ ایم کیو ایم-پاکستان کے انتخابی معاہدے کے بارے میں یاد دلایا گیا تو انہوں نے تبصرہ کرنے سے انکار کردیا۔

علاوہ ازیں ایم کیو ایم (پاکستان) کے کنوینر ڈاکٹر صدیقی نے الیکشن جیتنے والے تمام آزاد امیدواروں کو اپنی پارٹی میں شمولیت کی دعوت دے دی۔

انہوں نے ایک پریس کانفرنس کے دوران کہا کہ ہمارے پاس اگرچہ بریف کیس نہیں ہے لیکن ہمارے دروازے تمام آزاد امیدواروں کے لیے کھلے ہیں۔

آزاد امیدواروں کا مجلس وحدت المسلمین میں ضم ہونے کا امکان

مجلس وحدت المسلمین (ایم ڈبلیو ایم) بھی موجودہ صورتحال کا حصہ بن گئی ہے جس کا 2014 میں پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے دھرنے کے بعد سے پی ٹی آئی سے دیرینہ تعلق رہا ہے۔

دونوں جماعتوں کے ذرائع کا کہنا ہے کہ پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد امیدواروں کا مجلس وحدت المسلمین میں ضم ہونے کا امکان ہے تاکہ انہیں منظم کیا جاسکے اور خواتین اور اقلیتوں کے لیے مخصوص نشستیں بھی حاصل کی جاسکیں۔

مجلس وحدت المسلمین کے حمید حسین این اے-37 کرم (پاراچنار) کی نشست 58 ہزار 650 ووٹوں کے ساتھ جیتنے میں کامیاب رہے، انہوں نے پیپلز پارٹی کے ساجد طوری کو شکست دی جنہوں نے 54 ہزار 384 ووٹ حاصل کیے۔

اتفاق سے مجلس وحدت المسلمین پی پی 18 راولپنڈی سے جیتنے والے اپنے امیدوار راجا اسد عباس کی موجودگی کے سبب پنجاب اسمبلی میں بھی پی ٹی آئی کو یہی فائدہ پہنچانے کی پوزیشن میں ہے۔

پنجاب اسمبلی میں 297 جنرل نشستیں ہیں جن میں سے 66 خواتین کے لیے اور 8 غیر مسلموں کے لیے مخصوص ہیں۔

مجلس وحدت المسلمین یا کسی دوسری جماعت میں شامل ہونے سے پی ٹی آئی پنجاب میں 24 خواتین اراکین اسمبلی حاصل کر سکتی ہے۔

پی ٹی آئی کے مرکزی سیکرٹری اطلاعات رؤف حسن نے بتایا کہ پارٹی اجلاسوں میں اس موضوع پر بہت زیادہ بحث ہوئی ہے اور کئی آپشنز زیر غور ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہماری پہلی ترجیح اپنی پارٹی کو قائم کرنا ہے لیکن انہوں نے یہ نہیں بتایا کہ وہ ایسا کیسے کر پائیں گے۔

رؤف حسن نے مزید کہا کہ ہمارے اراکین اسمبلی مجلس وحدت المسلمین یا کسی دوسری جماعت میں شامل ہوں گے یا آزاد رہیں گے، اِس کا فیصلہ آنے والے دنوں میں کیا جائے گا۔

تاہم مجلس وحدت المسلمین کے سیاسی امور کے سیکرٹری اسد نقوی نے کہا کہ اس حوالے سے تاحال پی ٹی آئی قیادت سے کوئی بات چیت نہیں ہوئی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 24 نومبر 2024
کارٹون : 23 نومبر 2024