پرنٹنگ پریس میں بیلٹ پیپرز کی اشاعت کی ویڈیو وائرل، نیا پنڈورا باکس کھل گیا
ٹی وی میزبان رائے ثاقب کھرل کی جانب سے پنجاب کے دارالحکومت لاہور کے ایک پرنٹنگ پریس میں بیلٹ پیپرز کی اشاعت کی بنائی گئی ویڈیو وائرل ہونے کے بعد انتخابات میں مبینہ دھاندلیوں کے حوالے سے نیا پنڈورا باکس کھل گیا۔
ڈان اخبار کے مطابق صحافیوں کی جانب سے پرنٹنگ پریس پر بنائی گئی ویڈیو اس وقت تیزی سے وائرل ہونا شروع ہوئی جب کہ پاکستان تحریک انصاف (پی ٹی آئی) کے چیئرمین عمران خان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے اسے شیئر کیا گیا۔
وائرل ویڈیو میں اینکر رائے ثاقب کھرل کو ایک پرنٹنگ پریس میں کھڑے دیکھا جا سکتا ہے اور وہ وہاں پڑے ہوئے بعض بیلٹ پیپرز دکھاتے ہوئے دعویٰ کرتے ہیں کہ مذکورہ بیلٹ پیپرز پرنٹنگ پریس پر چھاپے جا رہے تھے۔
ویڈیو میں پرنٹنگ پریس پر اینکر کے علاوہ کوئی دوسرا شخص دکھائی نہیں دیتا البتہ ویڈیو دیکھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے ساتھ ویڈیو بنانے والا کوئی دوسرا شخص بھی موجود ہے۔
وہ ویڈیو میں پرنٹنگ پریس میں پڑے ہوئے قومی اسمبلی کے حلقے این اے 15 مانسہرہ کے بیلٹ پیپرز دکھاتے ہیں، جہاں سے مسلم لیگ (ن) کے قائد نواز شریف نے انتخاب لڑا تھا اور وہ ہار گئے تھے۔
ویڈیو میں وہ بتاتے ہیں کہ انہوں نے 15 پر پولیس کو کال کردی ہے اور یہ کسی نجی پرنٹنگ پریس میں اس طرح بیلٹ پیپرز کی چھپائی غیر قانونی ہے، اس معاملے پر تحقیق ہونی چاہئیے۔
مذکورہ ویڈیو کو عمران خان کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے شیئر کیا گیا، جسے ہزاروں افراد نے ری ٹوئٹ کیا، جس کے بعد دیگر صحافیوں نے بھی مذکورہ ویڈیو سے متعلق وضاحتی ویڈیوز جاری کیں۔
نیو نیوز کے ایگزیکٹو ڈائریکٹر اور میزبان نصر اللہ ملک نے اپنی ویڈیو میں دعویٰ کیا کہ راثے ثاقب کھرل اور ان کے ہی ٹی وی چینل کے اینکر میاں عمران ارشد مذکورہ ویڈیو ان کے پاس لے کر آئے تھے اور انہیں ٹی وی پر نشر کرنے کا کہا تھا لیکن انہوں نے بطور ذمہ دار صحافی ویڈیو پر خبر نشر کرنے سے انکار کیا اور دونوں اینکرز سے چند سوالات کیے۔
انہوں نے بتایا کہ انہوں نے پرنٹنگ پریس کی ویڈیو لانے والے اینکرز سے سوال کیا کہ انہیں کیسے پتہ چلا کہ پرنٹنگ پریس پر بیلٹ پیپرز کی چھپائی ہو رہی ہے، دوسرا یہ کہ کیا ایسی ویڈیو یا خبر سے کسی پارٹی کو نقصان یا کسی کا فائدہ پہنچ رہا ہے اور تیسرا یہ کہ کہیں مذکورہ ویڈیو کے ذریعے انتخابات کو تو متنازع بنانے کی کوشش نہیں کی جا رہی؟
نصر اللہ ملک کے مطابق ان کے سوالوں کے بعد میاں عمران ارشد نے تسلیم کیا کہ معاملے پر مزید تحقیق ہونی چاہئیے جب کہ رائے ثاقب کھرل بضد رہے کہ ویڈیو کو جوں کا توں چلایا جائے لیکن انہوں نے میزبان کی ایک بات تک نہ مانی۔
اسی ویڈیو کے حوالے سے اینکر اور یوٹیوبر منصور احمد خان نے بھی اپنی ویڈیو میں بتایا کہ مذکورہ ویڈیو سے متعلق رائے ثاقب کھرل نے انہیں بتایا اور یہ بھی بتایا کہ ویڈیو پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
اینکر کے مطابق پرنٹنگ پریس میں بیلٹ پیپرز کی چھپائی کی ویڈیو کو ہم ٹی وی اور نیو ٹی وی کی انتظامیہ نے چلانے سے انکار کیا، کیوں کہ انہوں نے مزید شواہد مانگے۔
منصور احمد خان نے دعویٰ کیا کہ رائے ثاقب کھرل کی بنائی گئی ویڈیو انہوں نے خود نہیں بلکہ انہیں بیلٹ پیپرز کی چھپائی کی اطلاع دینے والے ذرائع نے لیک کی کیوں کہ وہ بضد تھے اور اصرار کر رہے تھے کہ ویڈیو کو نیوز چینلز پر چلایا جائے اور جب ویڈیو نیوز چینل پر نشر نہ ہوئی تو انہوں نے غصے میں آکر ویڈیو لیک کرکے شیئر کروادی۔
تاہم مذکورہ وائرل ویڈیو پر فوری طور پر اینکر رائے ثاقب کھرل اور میاں عمران ارشد نے کوئی وضاحت نہیں کی جب کہ دوسری جانب انتخابات کے بعد ایسی ویڈیو آنے پر سوالات اٹھائے جا رہے ہیں کہ انتخابات ہوجانے کے بعد اب ایسی ویڈیوز کو پھیلانے کا کیا مقصد ہو سکتا ہے؟