• KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm
  • KHI: Zuhr 12:18pm Asr 4:07pm
  • LHR: Zuhr 11:49am Asr 3:24pm
  • ISB: Zuhr 11:54am Asr 3:24pm

سمری ملنے کے باوجود قومی اسمبلی کا اجلاس نہ بلانے پر عارف علوی کو تنقید کا سامنا

شائع February 26, 2024
فائل فوٹو: ایکس
فائل فوٹو: ایکس

قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے آئین کے تحت دی گئی ڈیڈ لائن میں صرف تین دن رہ گئے ہیں، اب تک اجلاس نہ بلانے سے متعلق صدر عارف علوی کو سیاسی جماعتوں بالخصوص پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) کی جانب سے تاخیری حربے اختیار کرنے پر شدید تنقید کا سامنا ہے۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق نگران وزیراعظم انوار الحق کاکڑ نے قومی اسمبلی کا اجلاس بلانے کے لیے سمری صدر مملک عارف علوی کو ارسال کر دی ہے لیکن تاحال احکامات جاری نہیں ہو سکے اور نہ ہی اس کی وجوہات سامنے آ سکی ہیں لیکن اگر صدر عارف علوی اجلاس نہیں بلاتے تو 29 فروری کو اجلاس از خود طلب ہو جائے گا۔

قومی اسمبلی سیکرٹریٹ کے ایک عہدیدار نے بتایا کہ صدر 21 دن کے اندر اجلاس بلانے کے پابند تھے اور اگر وہ ایسا کرنے میں ناکام رہے تو قومی اسمبلی سیکرٹریٹ انہیں نظرانداز کر کے آئین کے آرٹیکل 91(2) کے تحت اجلاس طلب کر سکتا ہے۔

عہدیدار نے بتایا کہ سیکرٹریٹ نے نئی اسمبلی کے اجلاس کے لیے پہلے ہی ضروری انتظامات کر لیے ہیں۔

کچھ رپورٹس میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ صدر سنی اتحاد کونسل کی مخصوص نشستوں پر خواتین قانون سازوں کے نوٹیفکیشن تک اجلاس نہیں بلائیں گے، تاہم ایوان صدر کے ذرائع سمری پر فیصلے کے بارے میں لاعلم تھے۔

اس وقت الیکشن کمیشن آف پاکستان نے خواتین کے لیے 20 مخصوص نشستوں اور غیر مسلم قانون سازوں کے لیے 3 نشستوں کا نوٹیفکیشن جاری کرنا ہے۔

پی ٹی آئی کے حمایت یافتہ آزاد، جو سنی اتحاد کونسل میں شامل ہوئے، اب قومی اسمبلی میں 92 نشستیں رکھتے ہیں، قابل ذکر بات یہ ہے کہ سنی اتحاد کونسل کے ایک رکن نے آزاد امیدوار کے طور پر ایک نشست جیتی۔

مخصوص نشستوں پر نوٹیفکیشن میں تاخیر کے بارے میں بات کرتے ہوئے، عہدیدار نے کہا کہ اس عمل میں کچھ وقت درکار ہے اور اس وجہ سے قومی اسمبلی کے اجلاس میں تاخیر نہیں ہو سکتی۔

عہدیدار نے بتایا کہ ماضی میں بھی ایسے ہی حالات پیش آچکے ہیں، جہاں متعدد حلقوں سے انتخاب لڑنے والے امیدواروں کی خالی کردہ نشستوں پر ضمنی انتخابات کرائے بغیر بھی قومی اسمبلی کا اجلاس طلب کیا گیا تھا۔

عہدیدار نے 1988 میں 10 نومبر کو ہونے والے عام انتخابات کا حوالہ دیا، جب بینظیر بھٹو 22 دسمبر کو وزیر اعظم بنی تھیں۔ اس دوران 16 نشستیں خالی ہونے کے باوجود اجلاس بلایا گیا۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی حکومت کے دوران قومی اسمبلی نے 150 ارکان کے ساتھ 16 ماہ تک فعال رہی کیونکہ پی ٹی آئی قومی اسمبلی کا حصہ نہیں تھی۔

مسلم لیگ (ن) اور پیپلزپارٹی کی تنقید

مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کے رہنماؤں نے اجلاس نہ بلانے پر صدر کو تنقید کا نشانہ بنایا، پیپلز پارٹی کی رہنما شازیہ مری نے کہا کہ صدر اپنے آئینی اختیارات کا غلط استعمال نہ کریں۔

انہوں نے کہا کہ صدر عارف علوی کو کسی فرد کا نہیں بلکہ آئین کا وفادار ہونا چاہیے، انہوں نے مزید کہا کہ اگر صدر نے مقررہ مدت میں اجلاس نہیں بلایا تو ان کا نام آئین کی خلاف ورزی کرنے والوں میں یاد رکھا جائے گا۔

لاہور میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے مسلم لیگ ن کے سینیٹر اسحٰق ڈار نے کہا کہ آئین کے تحت قومی اسمبلی کا اجلاس 29 فروری تک طلب کرنا لازمی ہے۔

مسلم لیگ (ن) کے رانا ثناء اللہ نے بیان جاری کرتے ہوئے کہا کہ صدرمملکت وزیراعظم کی ایڈوائس کے پابند ہیں،آئین میں درج ہے21دن کےاندراجلاس بلانالازم ہے،دوسرےعوامل کارفرمانہ ہوئے توحکومت چل سکتی ہے

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024