پاکستان کے 14ویں صدر مملکت آصف زرداری کا تعارف
حکمران اتحاد کے نامزد امیدوار آصف علی زرداری دوسری بار صدر مملکت منتخب ہوگئے۔
14 ویں صدر مملکت کے انتخابات کے لیے قومی اسمبلی، سینیٹ اور چاروں صوبائی اسمبلیوں میں صبح 10 بجے سے شام 4 بجے تک ووٹ ڈالے گئے جس میں حکمران اتحاد کے نامزد امیدوار آصف علی زرداری نے 411 ووٹ لے کر کامیابی حاصل جب کہ ان کے مد مقابل سنی اتحاد کونسل کے امیدوار محمود خان اچکزئی نے 181 ووٹ لیے۔
آصف علی زرداری کو چاروں صوبائی اسمبلیوں سے 156 الیکٹورل ووٹ ملے، محمود خان اچکزئی نے چاروں صوبائی اسمبلیوں سے 62 ووٹ حاصل کیے، آصف زرداری نے پارلیمنٹ سے 255 ووٹ حاصل کیے جب کہ محمود خان اچکزئی کو پارلیمنٹ ہاؤس سے 119 الیکٹورل ووٹ ملے۔
دوسری مرتبہ پاکستان کے صدرِ بننے والے آصف علی زرداری پہلی مرتبہ 2008 میں 5 سال کے لیے اس عہدے پر فائز ہوئے تھے۔
اس سے قبل وہ 1990 کی دہائی میں وفاقی وزیر اور سینیٹ کے رکن بھی رہے، پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے چیئرمین کے عہدے پر اپنے بیٹے بلاول بھٹو زرداری کو نامزد کرنے کے بعد انہیں پارٹی کا شریک چیئر مین منتخب کیا گیا تھا۔
یہ اندرونی تبدیلی ان کی اہلیہ اور چیئرپرسن محترمہ بینظیر بھٹو کی 27 دسمبر،2007 میں خودکش حملے میں شہادت کے بعد لائی گئی۔
بینظیر بھٹو کی شہادت کے بعد زرداری پارٹی کے عملی سربراہ کے طور پر خدمات سرانجام دیتے رہے، بالخصوص اُس دوران جب بلاول برطانیہ میں تھے۔
زرداری نے مارچ 2013 میں اپنے دو عہدوں سے متعلق ایک عدالتی فیصلے کی روشنی میں بطور پارٹی کے شریک چیئرمین استعفی دے دیا تھا۔
آصف زرداری کی زندگی پر ایک نظر
مختصر سوانح حیات آصف علی زرداری 26 جولائی، سن 1955 کو نواب شاہ سے تعلق رکھنے والے ایک معروف بلوچ گھرانے میں پیدا ہوئے۔
ان کے والد حاکم زرداری سابق بزنس مین اور سیاست دان تھے، 24 مئی، 2011 میں اپنی وفات تک، حاکم اپنے قبیلے کے سردار بھی رہے۔
آصف علی زرداری نے پرائمری تعلیم کراچی کے گرامر اسکول سے حاصل کی، جس کے بعد وہ ہائی اسکول کی تعلیم کے لیے کیڈٹ کالج پٹارو میں داخل ہوئے۔
مختصر عرصے کے لیے وہ کراچی کے سینٹ پیٹرک ہائی اسکول میں بھی رہے اور پھر اعلیٰ تعلیم کے لیے لندن چلے گئے۔
کہا جاتا ہے کہ بعد میں انہوں نے لندن اسکول آف اکنامکس اینڈ بزنس نامی کسی ادارے میں بھی داخلہ لیا تھا۔
1968 میں کمسن آصف نے فلمساز سجاد کی اردو فلم ’منزل دور نہیں‘ میں چائلڈ اسٹار کے طور پر بھی اداکاری کی۔
18 دسمبر 1987 میں آصف علی زرداری کی بینظیر بھٹو سے شادی ہوئی، وہ روایتی شادی کی یادگار تقریب تھی جس میں ایک لاکھ افراد نے شرکت کی تھی۔
پیپلز پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو زرداری کے علاوہ آصف زرداری کی دو بیٹیاں بھی ہیں، جن کے نام آصفہ اور بختاور بھٹو ہیں۔
سیاسی زندگی کا آغاز
آصف زرداری نے میدانِ سیاست میں قدم رکھا تو انہیں بہت زیادہ کامیابی حاصل نہ ہوسکی البتہ بینظیر بھٹو سے شادی کے بعد ان کا صحیح معنوں میں سیاسی کریئر شروع ہوا۔
انہوں نے 1985 میں غیر جماعتی انتخاب میں حصہ لیا مگر اس میں ناکام رہے، 1990 میں کراچی سے رکن قومی اسمبلی بنے، ان کی اہلیہ بینظیر بھٹو قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاب بنیں۔
1990 میں انہیں اغوا برائے تاوان کے ایک مقدمے میں ملوث کیا گیا۔
ان پر الزام تھا کہ انہوں نے ایک کاروباری شخصیت کو اغوا کرنے کے بعد اس کی پنڈلی پر بم باندھ کر بینک سے تاوان کی رقم نکلوانے کے لیے بھیجا تھا۔
تاہم یہ الزام درست ثابت نہ ہو سکا اور وہ تین سال بعد جیل سے رہا کردیے گئے۔
بعد ازاں 1993 میں آصف زرداری نوابشاہ سے رکن قومی اسمبلی بنے اور بینظیر بھٹو نے اپنی کابینہ میں انہیں وزیر سرمایہ کار مقرر کیا تھا۔
بینظیر بھٹو کی دونوں حکومتوں کے دوران وہ وفاقی وزیر رہے، پہلے دور میں وہ ماحولیات جبکہ دوسرے میں سرمایہ کاری کے وزیر تھے۔
بعد ازاں، 1996 میں بینظیر بھٹو کی دوسری حکومت گرنے کے بعد آدھے گھنٹے بعد ہی انہیں دوبارہ گرفتار کر لیا گیا تھا۔
ان پر متعدد الزامات عائد کیے گئے، جن میں سے ایک، اپنی اہلیہ کے بڑے بھائی مرتضیٰ بھٹو کے قتل کا مقدمہ بھی تھا، وہ 8 سال تک جیل میں رہے، انہیں سن 2004 میں ضمانت پر رہائی ملی۔
رہائی کے بعد وہ بیرونِ ملک چلے گئے اور گمنامی کی زندگی بسر کرنے لگے تاہم دسمبر 2007 میں اپنی اہلیہ اور پی پی پی کی چیئر پرسن بینظیر کی شہادت کے بعد پاکستان واپس لوٹے۔
دسمبر 2007 میں بینظیر بھٹو کے بیہمانہ قتل کے بعد زرداری نے پاکستان کھپے کا نعرہ لگایا، یہ وہ وقت تھا کہ جب یہ خدشہ ظاہر کیا جا رہا تھا کہ سندھ میں علیحدگی پسند بینظیر بھٹو کے قتل پر مشتعل ہوسکتے ہیں۔
ایک سینئر رکن پارلیمنٹ نے ایک بار کہا تھا کہ آصف زرداری کے ذہن کو سمجھنے کے لیے سیاسی چالبازی کے ہنر کا ماہر ہونا ضروری ہے، مشکل صورتحال سے نمٹنے کی کمال مہارت کی وجہ سے لوگوں کو ایک زرداری سب پر بھاری کا نعرہ بنانے میں زیادہ دیر نہیں لگی۔
وہ زرداری ہی تھے، جنہوں نے جنرل پرویز مشرف کی حکومت میں انتخابات میں حصہ لینے کے لیے نواز شریف کو اس وعدے کے ساتھ قائل کیا کہ وہ ان کے ساتھ مل کر حکومت تشکیل دیں گے، 2008 میں نواز شریف اور ان کے درمیان مری معاہدہ بھی ہوا۔
2008 میں، ملک میں عام انتخابات ہوئے، جس کے نتیجے میں پیپلز پارٹی کو وفاق میں وزیراعظم یوسف رضا گیلانی کی سربراہی میں، مخلوط حکومت بنانے کا موقع ملا۔
چند مہینوں کے بعد صدارتی انتخابات ہوئے، جس میں آصف علی زرداری، جنرل (ریٹائرڈ) پرویز مشرف کی جگہ ملک کے نئے صدر منتخب ہوئے۔
بطور صدرِ مملکت آصف علی زرداری نے صدرِ مملکت کا عہدہ سنبھالنے کے فوراً بعد بینظیر انکم سپورٹ پروگرام شروع کیا۔
اس اسکیم کو کئی وجوہات کی بنا پر تنقید کا سامنا رہا، ایک وجہ منصوبے کا نہایت جلدی میں شروع کیا جانا تو دوسرا یہ کہ مستحق غریب خاندانوں کو ایک ہزار روپے کی مالی معاونت، غربت اور مہنگائی کے لحاظ سے نہایت قلیل تھی۔
آصف زرداری کے عہدِ صدارت میں کشیدگی کے شکار بلوچستان کے لیے آغازِ حقوق بلوچستان پیکج پیش کیا گیا اور ساتواں نیشنل فنانس کمیشن (این ایف سی) ایوارڈ منظور ہوا۔
مزیدِ برآں، اٹھارویں آئینی ترمیم کے تحت انہوں نے بطور صدر اسمبلیاں توڑنے کا صوابدیدی اختیار پارلیمنٹ کو واپس کردیا۔
دسمبر 2011 میں صدر زرداری نے پارلیمنٹ سے منظور کردہ دو مسودہ قانون پر دستخط کیے، جس کے نتیجے میں خواتین کے خلاف متعدد جرائم قابلِ سزا جرم بن گئے۔
پہلے مسودہ قانون کے تحت مختلف روایتی رسم و رواج کے تحت لڑکیوں کی جبراً شادی نہ کرنا اور وراثت میں سے انہیں حصہ نہ دینا قابلِ سزا جرم بن چکے۔
دوسرا مسودہ قانون خواتین پر تیزاب پھینکنے سے متعلق تھا، جو اس قانون کے تحت نہایت کڑی سزا کا حامل جرم بن چکا۔
بعد ازاں 2018 میں وہ این اے 213 شہید بینظیر آباد سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے۔
2024 کے عام انتخابات میں زرداری این اے 207 بینظیر آباد سے رکن قومی اسمبلی منتخب ہوئے اور انہوں نے پشتونخوا مل عوامی پارٹی کے سربراہ محمود خان اچکزئی کے مقابلے میں صدارتی انتخابات میں حصہ لیا اور پاکستان کے 14ویں صدر منتخب ہوئے۔
تنازعات و تنقید
الزامات میں گھرے آصف علی زرداری کو کئی تنازعات کے ساتھ ساتھ بدستور بدعنوانی کے الزامات کا بھی سامنا رہا ہے۔
انہوں نے مختلف الزامات کے باعث کئی سال جیل میں بھی گزارے، ان کی (مبینہ) بدعنوانی پر مبنی قصوں کو قومی ذرائع ابلاغ میں بڑے پیمانے پر مشتہر کیا جاتا رہا۔
بینظیر بھٹو کے دورِ حکومت میں ان پر منصوبوں سے کمیشن لینے اور قومی خزانے کو نقصان پہنچانے کے الزامات لگے، ان پر مسٹر ٹین پرسنٹ کا لیبل بھی چسپاں کیا گیا۔
بینظیر بھٹو کی شہادت تک وہ قومی سیاست اور سن 2008 کی انتخابی مہم سے دور رہے، جس کی وجہ ان کا منفی عوامی تاثر خیال کیا جاتا ہے۔
ان کے خلاف سب سے معروف الزام سوئز کمپنی سے کمیشن لینے کا تھا۔
جس پر ایک عدالت نے 1999 میں انہیں دو سال قید کی سزا دی، تاہم سپریم کورٹ نے بعد میں عدالتی فیصلے کو’ سیاسی بنیاد’ پر قرار دے کر، پاکستان میں ازسرِ نو سماعت کا حکم دیا لیکن سن2003 میں ایک سوئز عدالت نے زرداری اور بینظیر کو منی لانڈرنگ اور رشوت لینے کا قصور وار قرار دے دیا۔
سن 2007 میں آصف زرداری اور دوسروں کو فائدہ پہنچانے کے لیے صدر پرویز مشرف نے قومی مفاہمتی آرڈیننس یعنی این آر او جاری کیا۔
بعد ازاں سپریم کورٹ نے این آر او کے خلاف فیصلہ دیتے ہوئے قرار دیا کہ اسے ایسا معاہدہ سمجھا جائے جو کبھی تھا ہی نہیں۔ اس فیصلے سے پی پی پی اور زرداری کے لیے پیچیدگیاں پیدا ہوئیں۔
طویل عرصے تک تنازع کا سبب رہنے والے ’سوئز کیس‘ کے حوالے سے سوئٹزر لینڈ کی انتظامیہ نے کہا کہ وہ ’قانونی بنیاد‘ پر صدر زرداری کے خلاف دائر مقدمے کو دوبارہ نہیں کھولنے سے قاصر ہیں۔
صدر زرداری کو اپنے دو عہدوں سے متعلق لاہور ہائی کورٹ کے فیصلے پر عمل درآمد نہ کرنے کے الزام میں توہین عدالت کے کیس کا بھی سامنا رہا۔
تاہم پارٹی عہدے سے مستعفی ہونے کے بعد ان کے خلاف یہ کیس ختم کر دیا گیا۔
اہم معاملات پر مؤقف
پیپلز پارٹی کے سربراہ ہندوستان سے بلاتعطل مذاکرات کے بھی حامی رہے، تاکہ دونوں ممالک مسئلہ کشمیر حل کر سکیں، پاکستان کے پڑوسی ملک کے ساتھ امن کے داعی کے طور پر صدر زرداری نے ایک بار پاکستان کے ایٹمی ہتھیاروں کے پہلے استعمال نہ کرنے کا اعلان کیا، جو کہ پاکستان کے سالہاسال سے موجود دفاعی ڈاکٹرائن کے خلاف تھا۔
یہ زرداری کے ایٹمی ہتھیاروں کی وسیع تر مخالفت کا حصہ ہے، وہ ان کے استعمال کے سخت مخالف ہیں جبکہ انہوں نے بار بار ہندوستان اور پاکستان کے درمیان ایٹمی جنگ کے امکان کو رد کیا ہے۔
زرداری کی صدارت اور پی پی پی کی زیرِ قیادت اتحادی حکومت میں قومی اسمبلی نے متفقہ طور پر 18 ویں ترمیم کی حمایت میں ووٹ دیا، جس سے صدر کے اہم اختیارات میں کمی ہوئی اور منتخب حکومتیں تحلیل کرنے کا صدارتی اختیار واپس لے لیا گیا، ترمیم کے تحت کئی وزارتوں کو صوبوں تک منتقل کر دیا گیا، جس سے مرکز کی طاقت میں کمی ہوئی اور اکائیوں کو مزید اختیار ملا۔
زرداری اور ان کی پارٹی کا 2008 میں حکومت بناتے ہی اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ پہلا ٹاکرا تب ہوا جب انہوں نے انٹرسروسز انٹیلیجینس (آئی ایس آئی) کو وزارتِ داخلہ کے براہِ راست ماتحت لانے کی کوشش کی، فیصلے کے 24 گھنٹے سے بھی کم وقت میں پی پی پی حکومت کو حکومت اور اسٹیبلشمنٹ کے کئی حلقوں کے درمیان شدید تناؤ کی وجہ سے اور بے پناہ بیک چینل کوششوں کے بعد اس فیصلے کو واپس لینا پڑا، ان کی پارٹی کو 2008 سے 2013 تک کئی مسائل کا سامنا کرنا پڑا جس میں کچھ کو اسٹیبلشمنٹ کے منصوبے بھی قرار دیا گیا مگر زرداری اور پیپلز پارٹی اپنا دور پورا کرنے میں کامیاب رہے۔
پی پی پی کے سربراہ نے ایک دفعہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کو اپنے دائرہ کار سے باہر نکلنے پر بھی تنقید کا نشانہ بنایا تھا، جون 2015 میں خیبر پختونخوا اور فاٹا میں پارٹی کے عہدیداران سے گفتگو کرتے ہوئے زرداری نے اسٹیبلشمنٹ کو سیاسی جماعتوں کی کردار کشی سے باز رہنے کے لیے خبردار کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’اگر آپ لوگ نہ رکے تو میں پاکستان کے قیام سے اب تک کے ملزم جنرلز کی فہرست لے کر آؤں گا‘، انہوں نے اپنے الفاظ میں ’فوجی ذہنیت‘ کو پاکستان کی سست رفتار ترقی کا ذمہ دار قرار دیا۔
مگر بعد میں زرداری نے فوجی عدالتوں کے قیام کی حمایت کی، یہ ان کے سابقہ مؤقف سے مختلف تھا، جس میں انہوں نے کہا تھا کہ فوجی عدالتوں کے ہوتے ہوئے اس امکان کو رد نہیں کیا جا سکتا کہ ان کے ذریعے سیاسی رہنماؤں کو غیر منصفانہ طور پر ہدف بنایا جائے گا۔
مئی 2017 میں زرداری نے باقاعدہ طور پر مسلم لیگ (ن) اور دیگر جماعتوں کے ساتھ اپنی مفاہمت کی پالیسی ختم کرتے ہوئے کہا کہ اب پارٹی مفاہمت نہیں بلکہ ’مزاحمت کی سیاست‘ کرے گی۔
پیپلز پارٹی کے سربراہ نے سپریم کورٹ کی جانب سے نواز شریف کی 2017 میں نااہلی و برطرفی کی متواتر حمایت کی ہے، اسی سال کے شروعات میں انہوں نے ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے نواز شریف کو ”گزشتہ انتخابات میں ہمارا مینڈیٹ چرانے والا قومی چور“ قرار دیا تھا، انہوں نے نواز شریف کو ہٹلر سے تشبیہہ دیتے ہوئے کہا تھا کہ مسلم لیگ (ن) کے سابق سربراہ کو ملک کی اقتدار کی سیاست سے باہر نکالنے کا وقت آ چکا ہے۔
اختیارات کی نچلی سطح تک منتقلی کے حامی زرداری سمجھتے ہیں کہ جنوبی پنجاب کے کئی مسائل کا حل سرائیکی صوبے کے قیام میں ہے، اسی سال کے شروعات میں ایک ورکرز کنونشن سے سرائیکی میں خطاب کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا کہ اب سرائیکی صوبے کے قیام میں کوئی رکاوٹ باقی نہیں، ایک نئے صوبے کا قیام جنوبی پنجاب کے کئی مسائل کو حل کر دے گا۔
اربوں ڈالر کی لاگت سے تیار ہونے والی پاک چین اقتصادی راہداری کے متعلق زرداری کا کہنا ہے کہ یہ پیپلز پارٹی ہی تھی جس نے اس منصوبے کا تصور پیش کیا، واضح طور پر مسلم لیگ (ن) کی طرف اشارہ کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ پیپلز پارٹی کو اس سے فرق نہیں پڑتا کہ ٹی وی پر اشتہارات کے ذریعے کون اس منصوبے کا کریڈٹ لیتا ہے۔