بہاول نگر واقعہ ’اسپیشل انیشیٹیو پولیس اسٹیشنز‘ کے ایس او پیز پر عمل درآمد نہ کرنے کے باعث پیش آیا، آئی جی پنجاب
آئی جی پنجاب پولیس ڈاکٹر عثمان انور نے کہا ہے کہ اسپیشل انیشیٹیو پولیس اسٹیشنز کے ایس او پیز پر عمل درآمد نہ کرنے کے باعث بہاول نگر واقعہ پیش آیا، مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دے دی گئی ہے تاکہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جاسکیں۔
سماجی رابطے کی ویب سائٹ ’ایکس‘ پر جاری بیان میں ڈاکٹر عثمان انور نے کہا کہ میرا یہ اہم پیغام پوری پنجاب پولیس کے لیے ہے کیونکہ اس کا تعلق پوری فورس کے مورال سے ہے اور یہ مورال اس عزم کی بنیاد ہے جس پر ہم چوروں، ڈاکوؤں اور رہزنوں سے لڑتے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بہاول نگر میں ایک واقعہ پیش آیا جس کو لے کر سوشل میڈیا پر ایسا طوفان بدتمیزی برپا کیا گیا جس سے یہ تاثر پیدا کیا گیا کہ خدانخواستہ پاکستان آرمی اور پنجاب پولیس کے درمیان کوئی ٹکراؤ کی کیفیت پیدا ہو گئی ہو۔
انہوں نے کہا کہ یہ واقعہ کیوں پیش آیا، اس سے کیا تاثر گیا اور اس تاثر سے دشمن کیسے فائدہ اٹھا رہا ہے، میں اس پر آج بات کروں گا۔
’سیاق و سباق کے بغیر ویڈیوز پیش کی گئیں، پرانی ویڈیوز بھی لگائی گئیں‘
ڈاکٹر عثمان انور نے کہا کہ ایک کالعدم تنظیم نے اپنے پیغام میں اس واقعے کو بنیاد بنا کر اداروں کے درمیان ٹکراؤ پیدا کرنے کی کوشش کی، اس طرح کی ٹرولنگ دیگر شرپسند عناصر کی جانب سے بھی کی گئی۔
انہوں نے کہا کہ کچھ ویڈیوز کو سیاق و سباق کے بغیر بھی پیش کیا گیا، پرانی ویڈیوز بھی لگائی گئیں، غیرمصدقہ خبروں کا تانتا باندھ دیا گیا جس کی وجہ سے پنجاب پولیس کے جوانوں میں مایوسی پھیلی۔
ان کا کہنا تھا کہ جان بوجھ کر کچھ دن کے انتظار کے بعد اس واقعے کے حوالے سے آپ سے بات کرنا اس لیے ضروری ہے کیونکہ یہ بتانا ضروری ہے کہ یہ واقعہ کیسے رونما ہوا اور کیا اس میں پولیس مکمل طور پر ٹھیک تھی یا ہم سے بھی کوئی غلطی ہوئی۔
ڈاکٹر عثمان انور نے کہا کہ اسپیشل انیشیٹیو پولیس اسٹیشنز کے ایس او پیز پر عمل درآمد نہ کرنے کے باعث یہ واقعہ پیش آیا، واقعے کے بعد ضلعی پولیس افسر (آر پی او) بہاولپور اور فوج کی مقامی کمان نے علاقے کا دورہ کیا اور دونوں اداروں کا مشترکہ اجلاس منعقد کیا گیا جہاں معاملے کو خوش اسلوبی سے حل کیا گیا۔
انہوں نے بتایا کہ اجلاس میں ’پاک فوج زندہ باد‘ اور ’پنجاب پولیس زندہ باد‘ کے نعرے لگائے گئے تاکہ یہ تاثر دور کردیا جائے کہ دونوں اداروں میں کوئی ٹکراؤ ہے، انفرادی غلطی درست کرنے کا طریقہ کار موجود ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ دونوں ادارے اپنے اپنے محکمہ جاتی ایکشنز کا آغاز کرچکے ہیں، جہاں جو غلط ہوگا، قانون توڑا گیا ہوگا یا ایس او پیز کی خلاف ورزی کی گئی ہوگی اُس کے خلاف کارروائی کی جائے گی۔
آئی جی پنجاب نے بتایا کہ اسی سلسلے میں مشترکہ تحقیقاتی ٹیم بھی تشکیل دے دی گئی ہے تاکہ انصاف کے تمام تقاضے پورے کیے جاسکیں۔
انہوں نے کہا کہ اس واقعے کو اس طرح اٹھایا گیا جس سے پولیس اور فوج کے درمیان فیملی جیسے رشتے کو توڑنے کی کوشش کی گئی، اس تعلق کو کوئی نہیں توڑ سکتا۔
انہوں نے واضح کیا کہ تمام ادارے اس ملک کی سالمیت کے لیے مل کر جدوجہد کرتے رہیں گے، ہم آپ کو یقین دلاتے ہیں کہ پنجاب پولیس اور تمام وردی والے اکٹھے مل کر دہشت گردوں کو نیست و نابود کردیں گے اور پاکستان کو محفوظ بنائیں گے، عوام پر ذمہ داری ہے کہ پروپیگنڈے کا مزید شکار نہ ہوں۔
قبل ازیں آج پاک فوج نے بہاول نگر واقعہ کے ذمہ داران کا تعین کرنے کے لیے واقعے کی مشترکہ انکوائری کا اعلان کیا تھا۔
پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کی جانب سے جاری بیان میں کہا گیا تھا کہ قوانین کی خلاف ورزی اور اختیارات کے ناجائز استعمال کے ذمہ داران کا تعین کیا جائے گا، حقائق کا پتا لگانے کے لیے ذمہ داروں کی نشاندہی کی جائے گی، تحقیقات کے لیے سیکیورٹی اور پولیس اہلکاروں پر مشتمل مشترکہ انکوائری کی جائے گی۔
پسِ منظر
واضح رہے کہ 2 روز قبل 10 اپریل کو کئی ویڈیوز سوشل میڈیا پر وائرل ہوئیں جن میں فوج کی وردیوں میں ملبوس افراد کو بہاول نگر میں مبینہ طور پر پولیس اہلکاروں کو مارتے ہوئے دکھایا گیا۔
ایک ویڈیو میں ایک شخص کو زمین بیٹھے ہوئے دیکھا گیا جس کی ناک خون آلود تھی، دوسرے کلپ میں ایک شخص اور دو فوجی اہلکار وں کو دیکھا گیا جو پولیس والوں کو قطار میں گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کر رہے ہیں۔
کچھ سوشل میڈیا صارفین نے دعویٰ کیا کہ یہ واقعہ پولیس اہلکاروں کی جانب سے ایک فوجی کے رشتے دار سے غیر قانونی اسلحہ برآمد کرنے کے باعث شروع ہوا۔
’ڈان‘ آزادانہ طور پر سوشل میڈیا پر وائرل ویڈیو کلپس کی صداقت کی تصدیق نہیں کر سکا۔
وائرل ویڈیو کلپس پر سیاست دانوں کی جانب سے غم و غصے کا اظہار کیا گیا، پی ٹی آئی رہنما حماد اظہر نے کہا کہ واقعے کے بعد پنجاب پولیس سربراہ کو فوری طور پر استعفیٰ دے دینا چاہیے تھا، انہوں نے دعویٰ کہ صوبائی حکومت اس معاملے کو ’سنجیدگی‘ سے نہیں لے رہی۔
پی ٹی آئی کے ترجمان رؤف حسن نے کہا کہ یہ واقعہ ’شفاف اور جامع انکوائری کا متقاضی ہے اور اس کی رپورٹ بغیر کسی رد و بدل کے جاری کی جانی چاہیے‘۔
10 اپریل کی رات جاری ہونے والے ایک بیان میں پنجاب پولیس نے کہا تھا کہ اس واقعہ کو اس طرح پیش کیا جا رہا ہے کہ جیسے پاکستان آرمی اور پنجاب پولیس کے درمیان لڑائی ہوئی ہے’۔
بیان میں کہا گیا کہ ’جب غیر مصدقہ ویڈیوز وائرل ہوئیں تو دونوں اداروں نے مشترکہ تحقیقات کا آغاز کیا، دونوں محکموں کے افسران نے حقائق کا جائزہ لیا اور پرامن طریقے سے معاملے کو حل کیا۔
اس میں کہا گیا کہ ’پنجاب پولیس اور پاک فوج صوبے سے دہشت گردوں، شرپسندوں اور جرائم پیشہ افراد کے خاتمے کے لیے ایک دوسرے سے تعاون کر رہے ہیں، ہم سوشل میڈیا صارفین سے درخواست کرتے ہیں کہ وہ جعلی پروپیگنڈہ نہ پھیلائیں۔
پنجاب پولیس کی ایک اور پوسٹ میں پولیس اور فوجی اہلکاروں کو ’پاک فوج، پنجاب پولیس زندہ باد‘ کے نعرے لگاتے ہوئے دیکھایا گیا۔
’ڈان‘ نے معاملے سے متعلق مزید تفصیلات حاصل کرنے کے لیے مقامی حکام سے رابطہ کیا ہے۔
یہ بات سامنے آئی کہ انسپکٹر سیف اللہ کی شکایت پر 10 اپریل کو بہاول نگر کے مدرسہ پولیس اسٹیشن میں پاکستان پینل کوڈ (پی سی سی) کی مختلف دفعات کے تحت ایف آئی آر درج کی گئی۔
انسپکٹر سیف اللہ نے بتایا کہ انہیں مدرسہ پولیس اسٹیشن کا نیا ایس ایچ او تعینات کیا گیا ہے، انہوں نے 8 اپریل کو درج ایک ایف آئی آر کا حوالہ دیا جس کے تحت سابق ایس ایچ او رضوان عباس، اسسٹنٹ سب انسپکٹر (اے ایس آئی) محمد نعیم اور کانسٹیبل محمد اقبال اور علی رضا نے اس میں نامزد تین افراد کو بغیر تفتیش گرفتار کیا تھا اور 24 گھنٹے گزرنے کے بعد بھی تینوں کو مقامی مجسٹریٹ کے سامنے پیش کرنے میں ناکام رہے تھے۔
نئے ایس ایچ او نے کہا کہ قانون سے آگاہ ہونے کے باوجود چاروں اہلکاروں نے اپنے اختیارات کا غلط استعمال کیا اور اپنے فرائض کی انجام دہی میں کوتاہی برتتے رہے، اس طرح کیس کو غلط طریقے سے ہینڈل کیا اور حاصل اختیارات کا غیر ضروری استعمال کیا۔
ایس ایچ او نے کہا کہ پولیس اہلکاروں کی غیر قانونی حرکتوں کے بارے میں حکام کو الرٹ کیا گیا اور بعد ازاں ان چاروں کے خلاف قانونی کارروائی کرنے کی ہدایات جاری کی گئیں۔
اس سے قبل ایک ایف آئی آر 8 اپریل کو اے ایس آئی نعیم کی شکایت پر مختلف دفعات کے تحت درج کی گئی تھی۔
اے ایس آئی نعیم نے بتایا تھا کہ وہ دیگر پولیس اہلکاروں کے ہمراہ گشت پر تھا کہ دو افراد پولیس پارٹی کو دیکھ کر فرار ہوئے، انہوں نے بعد میں ایک شخص کو گرفتار کر لیا جس کے قبضے سے پستول بھی برآمد ہوا۔
اہلکار نے بتایا کہ زیر حراست شخص بندوق کا لائسنس پیش نہیں کرسکا اور فرار ہونے والے شخص کا نام لیا۔
اے ایس آئی نعیم نے بتایا کہ دوسرے شخص کو گرفتار کرنے کی کوشش کرنے پر ملزم نے مزاحمت کی اور اپنے رشتہ داروں کو بلا لیا جنہوں نے گرفتاری کی مخالفت کی اور ایک کانسٹیبل کو مارتے ہوئے گھسیٹ کر گھر کے اندر لے گئے۔
اے ایس آئی نعیم نے بتایا کہ اس نے کانسٹیبل کو چھڑانے کے لیے بات چیت کرنے کی کوشش کی لیکن انہیں روک دیا گیا جس کے بعد اس نے اس وقت کے ایس ایچ او رضوان عباس اور دیگر پولیس اہلکاروں کو جائے وقوع پر بلایا۔
اہلکار نے مزید بتایا کہ پولیس افسران نے ان افراد سے دوبارہ کانسٹیبل کو چھوڑنے کا کہا جس پر وہ تشدد کرنے پر اتر آئے۔
اے ایس آئی نعیم نے بتایا کہ تقریباً 20 افراد نے پولیس اہلکاروں کو جان سے مارنے کی دھمکی دی، فائرنگ کی، مزید ایک کانسٹیبل اور ایس ایچ او رضوان عباس کو یرغمال بنا لیا۔
اے ایس آئی نعیم نے کہا کہ بعد ازاں اس نے مزید پولیس فورس بھیجنے کی درخواست کی اور بالآخر یرغمال تینوں پولیس اہلکاروں کو بازیاب کرالیا گیا۔
انہوں نے مزید کہا کہ یرغمال بنائے گئے پولیس اہلکار زخمی ہوئے اور ان سے ان کے پاس موجود سامان بھی چھین لیا گیا۔