• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:00pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

سیکڑوں ارب کے زیر التوا ٹیکس کیسز: ایف بی آر کو اہم قانونی اختیارات مل گئے

شائع May 4, 2024
ایف بی آر  حکام کا کہنا ہے کہ بورڈ میں ڈائریکٹوریٹ جنرل لا قائم ہوگا—فائل فوٹو: ایف بی آر/ ایکس
ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ بورڈ میں ڈائریکٹوریٹ جنرل لا قائم ہوگا—فائل فوٹو: ایف بی آر/ ایکس

27 سو ارب روپے سے زائد کے زیر التوا ٹیکس کیسز کے معاملے پر فیڈرل بورڈ آف ریونیو (ایف بی آر) کو اہم قانونی اختیارات مل گئے جبکہ کمشنر ان لینڈ ریونیو اپیلز کے اختیارات کو محدود کردیا گیا۔

’ڈان نیوز‘ کی رپورٹ کے مطابق ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ بورڈ میں ڈائریکٹوریٹ جنرل لا قائم ہوگا، کمشنر ان لینڈ ریونیو اپیلز کے اختیارات کو محدود کردیا گیا ہے،کمشنر ان لینڈ ریونیو اپیلز کو انکم ٹیکس کے 2 کروڑ روپے تک کے کیسز سننے کا اختیار ہوگا۔

ایف بی آر حکام کے مطابق کمشنر ان لینڈ ریونیو اپیلز سیلز ٹیکس کے ایک کروڑ روپے تک کے کیسز کی سماعت کر سکے گا۔

حکام کا کہنا ہے کہ ایکسائز ڈیوٹی کیسز میں کمشنر ان لینڈ ریونیو اپیلز کا اختیار 50 لاکھ روپے تک محدود کردیا گیا ہے،کمشنر ان لینڈ ریونیو اپیلز کے فیصلے کے خلاف ہائی کورٹ میں اپیل دائر کی جا سکے گی۔

حکام کا کہنا ہے کہ مصالحتی تنازعات کے حل کے لیے متنازع رقم کی حد 10 کروڑ سے کم کرکے 5 کروڑ روپے کردی گئی ہے۔

اس کے علاوہ حکام کے مطابق زیر التوا کیسز کے حل کے لیے اپلیٹ ٹربیونلز قائم کیے جائیں گے، اپیلٹ ٹربیونلز کی موجودہ تعداد کو بڑھا دیا جائے گا، اپلیٹ ٹربیونلز کے سامنے اپیل دائر کرنے کی مدت 60 روز سے کم کرکے 30 روز کردی گئی ہے۔

ایف بی آر حکام کا کہنا ہے کہ ٹربیونلز 90 روز میں اپیلز کا فیصلہ سننے کے پابند ہوں گے، اپیلٹ ٹربیونلز میں زیر التوا کیسز کا 180 روز میں فیصلہ کیا جائے گا۔

واضح رہے کہ گزشتہ ہفتے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے ٹیکس نیٹ کو وسیع کرنے اور ٹیکس وصولیوں کے معاملات میں تاخیر پر تشویش کے اظہار کے ایک دن بعد حکومت نے قومی اسمبلی میں اپیلیٹ ٹریبونل ان لینڈ ریونیو (اے ٹی آئی آر) کے سامنے قانونی چارہ جوئی میں پھنسے 27 کھرب روپے سے زائد کی وصولی کے عمل کو تیز کرنے کے لیے بل پیش کیا تھا۔

اپوزیشن کی طرف سے قائمہ کمیٹی برائے فنانس کی تشکیل تک بل مؤخر کرنے کے مطالبے کے درمیان سیلز ٹیکس ایکٹ 1990 میں ترمیم کرنے والے ٹیکس قوانین (ترمیمی) ایکٹ 2024 بل کو وزیر قانون اعظم نذیر تارڑ نے وزیر خزانہ محمد اورنگزیب کی جانب سے سپلیمنٹری ایجنڈا کے ذریعے پیش کیا تھا۔

بعد ازاں ٹیکس قوانین ترمیمی بل 2024 قومی اسمبلی سے 29 اپریل 2024 کو پاس ہوا تھا جب کہ گزشتہ روز صدر مملکت آصف علی زرداری نے وزیرِ اعظم شہباز شریف کی ایڈوائس پر اس کی منظوری دے دی تھی۔

قانون سازی

مجوزہ ٹیکس قوانین (ترمیمی) ایکٹ کی نمایاں خصوصیات بتاتے ہوئے وزیر قانون نے کہا تھا کہ مختلف اپیلیٹ فورمز بشمول کمشنرز کی اپیلیں، اے ٹی آئی آر اور مختلف عدالتوں میں 2 ہزار 700 ارب روپے کے ٹیکس کیسز زیر التوا ہیں۔

اعظم نذیر تارڑ نے بتایا تھا کہ اس وقت مختلف فورمز پر 72 ہزار کیسز زیر التوا ہیں اور صرف 20 اے ٹی آئی آر ہیں جن کی تعداد کو بڑھا کر اب 35 کیا جا رہا ہے تاکہ اس عمل کو تیز کیا جا سکے۔

وزیر نے کہا تھا کہ حکومت نے بل کے ذریعے اپنے بہت سے اختیارات ختم کر دیے ہیں اور اب اے ٹی آئی آر ممبران کی تقرری میں وزیر اعظم کا کوئی کردار نہیں ہو گا، انہوں نے بتایا کہ ہائی کورٹ کے ججوں کے مساوی ان ممبران کا تقرر ایک کھلے مقابلے اور نسٹ، آئی بی اے اور لمز جیسے معتبر اداروں کے ذریعے ٹیسٹ کے انعقاد کے ذریعے کیا جائے گا۔

انہوں نے کہا تھا کہ مجوزہ قانون سازی کے ذریعے مختلف ٹیکس فورمز کی رقم کو مدنظر رکھتے ہوئے دوبارہ ترتیب دیا گیا ہے، ایک کروڑ روپے تک کے ٹیکس واجبات کے کیسز کمشنرز سنتے رہیں گے جبکہ دیگر کیسز اے ٹی آئی آر کو بھیجے جائیں گے۔

انہوں نے وضاحت کی تھی کہ ہائی کورٹس میں اپیل کی مدت کو 90 دن سے کم کر کے 30 دن کر دیا گیا ہے اس شرط کے ساتھ کہ ٹیکس دہندہ کو اپنے اکاؤنٹ سے فوری طور پر رقم نکالنے سے روکنے کے لیے خود بخود اسٹے مل جائے گا، حکومت نے توازن پیدا کرنے کی کوشش کی ہے تاکہ ٹیکس دہندگان کے حقوق کا تحفظ ہو۔

وزیر نے بتایا تھا کہ بل کا مسودہ ٹیکس بار ایسوسی ایشن کی مشاورت سے تیار کیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 23 نومبر 2024
کارٹون : 22 نومبر 2024