سیاسی عدم استحکام کے سبب اقتصادی بحران بڑھ گیا
صنعتکاروں اور تجزیہ کاروں نے سیاسی مظاہروں اور گندم بحران پر کسانوں کے مظاہروں پر خدشات کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ اس کے نتیجے میں کاروباری سرگرمیوں اور معاشی استحکام پر منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق کاروباری برادری پہلے ہی بُلند مہنگائی اور شرح سود کے سبب مشکلات کا شکار ہے، ایسے میں وہ محسوس کرتے ہیں کہ سیاسی مسائل کے سبب معاشی ترجیحات پر توجہ نہیں دی جاسکے گی۔
ایک تاجر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا کہ حکومت کے خلاف بڑھتے ہوئے مظاہروں کے سبب معیشت کو ایک طرف کر دیا ہے، جس کے نتیجے میں کاروبار کو مؤثر انداز میں چلانا مشکل ہوگیا ہے۔
کچھ تاجروں اور صنعتکاروں نے نوٹ کیا کہ گزشتہ سال کے مقابلے میں معاشی بہتری نظر آئی ہے تاہم مستقل سیاسی خلفشار نے استحکام کی امیدوں کو توڑ دیا ہے۔
ایک برآمدکنندگان عامر عزیز نے بتایا کہ حکومت میں استحکام کا کوئی اشارہ نہیں ہے، جو معیشت میں بڑھتے ہوئے خطرے کی عکاسی کرتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ اورہائی کورٹس کی جانب سے سیاسی اور کرپشن کے معاملے پر ریمارکس نے ہماری بے چینی میں اضافہ کیا ہے، خاص طور پر ہماری مستقبل کی حکمت عملیوں کے حوالے سے، عامر عزیز نے زور دیا کہ جامع معاشی اور سیاسی روڈ میپ بنانے کی ضرورت ہے تاکہ سرمایہ کاری کو راغب کیا جاسکے۔
کراچی میں مقیم ایک ہیڈ آف ریسرچ نے نوٹ کیا کہ تاجروں کو معاشی مستقبل کے حوالے سے صورتحال واضح نہیں ہے اور موجودہ حکومت نے طویل المدتی نمو کے لیے کوئی حکمت عملی مرتب نہیں کی۔
کچھ بینکرز کا خیال ہے کہ اسٹیٹ بینک شرح تبادلہ کو منیج کر رہا ہے، اور یہ استحکام ایک ہی بار میں ختم ہو سکتا ہے۔
ان اقتصادی چیلنجوں کے درمیان تجزیہ کاروں نے کچھ مثبت پہلوؤں کو بھی نوٹ کیا، جیسے کہ سعودی سرمایہ کاروں کی پاکستانی اثاثوں میں دلچسپی عارضی طور پر ملک کے بیرونی کھاتوں کو تقویت دے سکتی ہے۔
تاہم، اگلے مالی سال قرضوں کی ادائیگی کے لیے 25 ارب ڈالر کی ضرورت ہے اور مسلسل تجارتی خسارہ ان کو فائدہ پہنچانے کے لیے خطرہ ہے۔