• KHI: Fajr 4:21am Sunrise 5:49am
  • LHR: Fajr 3:27am Sunrise 5:05am
  • ISB: Fajr 3:22am Sunrise 5:05am
  • KHI: Fajr 4:21am Sunrise 5:49am
  • LHR: Fajr 3:27am Sunrise 5:05am
  • ISB: Fajr 3:22am Sunrise 5:05am

جسٹس بابر کیخلاف سوشل میڈیا مہم: عدالت کی ایف آئی اے کو امریکی سفارتخانے سے رابطہ کرنے کی ہدایت

شائع July 2, 2024
جسٹس بابر ستار— فائل  فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ
جسٹس بابر ستار— فائل فوٹو: اسلام آباد ہائی کورٹ ویب سائٹ

اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس بابر ستار کے خلاف سوشل میڈیا مہم، فیملی کا خفیہ ڈیٹا لیک کرنے پر توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران عدالت نے وفاقی تحقیقاتی ادارے (ایف آئی اے) کو امریکی سفارت خانے سے رابطہ کرنے کی ہدایت کردی۔

ڈان نیوز کے مطابق ہائی کورٹ کے لارجر بینچ نے اس کیس کی سماعت کی، جسٹس محسن اختر کیانی، جسٹس طارق محمود جہانگیری اور جسٹس سردار اعجاز اسحٰق بینچ میں شامل ہیں۔

سماعت کے آغاز پر ایدیشنل اٹارنی جنرل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ وزرات خارجہ کی جانب سے کچھ ڈائریکشنز دی گئی ہیں ، جسٹس محسن اختر کیانبی نے ایڈیشنل اٹارنی جنرل کو ہدایت دی کہ ڈائریکشنز کو پڑھیں ناں تاکہ پتہ تو چلے.

عدالتی ہدایت پر ایڈیشنل اٹارنی جنرل منصور اقبال دوگل نے ڈائریکشنز پڑھیں۔

انہوں نے بتایا کہ ایک انکوائری ہوئی جس کے مطابق چھ لوگوں کو ایف آئی اے نے نوٹسز جاری کئے، دو نے انکوائری جوائن کی ایک انکوائری میں آیا ہے دوسرے نے اپنا جواب بھیجا ہے، ایف آئی اے نے جن کو نوٹس کئے ان میں ایک صحافی بھی ہیں، آئی ایس آئی کی جانب سے جواب تیار ہے آج جمع کرا دیں گے۔

ان کا کہنا تھا کہ ایف آئی اے کی تین ممبر کمیٹی تشکیل دی گئی ہے ، پچھلے 3 ماہ میں 51 ہزار اکاؤنٹس لاگ ان ہوئے، آدھے اکاؤنٹس کو چیک کیا جا چکا ہے۔

جسٹس سردار اعجاز اسحق خان نے استفسار کیا کہ آپ نے تین ماہ پہلے کا کیوں شروع کیا؟ جسٹس محسن اختر کیانی نے دریافت کیا کہ کمیٹی کو ہیڈ کون کر رہا ہے ؟ منصور اقبال دوگل نے جواب دیا کہ ایف آئی اے کے ایڈیشنل ڈائریکٹر ہیں جو ہیڈ کر رہے ہیں۔

عدالت نے مزید کہا کہ ایکس کا کیا جواب آیا ہے ؟ ایڈیشنل اٹرانی جنرل نے بتایا کہ ایکس نے جواب دیا ہے کہا ہے امریکی ایمبیسی سے رابطہ کریں ، ایکس نے ہائی کورٹ کو جواب نہیں دیا۔

بعد ازاں ڈائریکٹر سائبر کرائم نے عدالت کو پروجیکٹر کے ذریعے تفصیلات بتائیں۔

ان کا کہنا تھا کہ 39 اکاؤنٹس اس مہم میں شامل تھے، 29 کی پہچان نہیں، 10 کی پہچان ہے، ایف آئی اے کو ایکس کا جواب آگیا ہے، انہوں نے کہا کہ امریکی ایمبیسی سے رابط کر لیں، ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے کہا کہ وزارت خارجہ کے ذریعے رابط کر سکتے ہیں۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے ایف آئی اے کو امریکی ایمبیسی سے رابطہ کرنے کی ہدایت کر دی۔

جسٹس محسن اختر کیانی نے دریافت کیا کہ کیا پاکستان میں ان کمپنیز کے دفاتر نہیں ہیں؟ ایڈیشنل اٹارنی جنرل نے جواب کہ نہیں، ان کمپنیز کو کہنے کے باوجود انہوں نے پاکستان میں دفاتر نہیں بنائے، جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ ہماری حکومت کی طرف سے قانون سازی نہ ہونے کی وجہ سے ایسا ہو رہا ہے؟ سائبر سیکیورٹی قوانین کے حوالے سے اُن کی اپنی پالیسیز ہیں، کیا پاکستان کی طرف سے اُن کمپنیز سے کوئی رابطہ کیا گیا ہے؟ اِن کمپنیز کے ساتھ مشاورت کر کے قوانین بنائیں گے تو وہ یہاں دفاتر بنا لیں گے۔

عدالت نے استفسار کیا کہ کیا یہ اکاؤنٹس وہ ہیں جنہوں نے مہم شروع کی ؟ ایف آئی اے حکام نے بتایا کہ 39 اکاؤنٹس اس مہم میں بڑھ چڑھ کر شامل تھے۔

بعد ازاں ایف آئی اے ڈائریکٹر نے ایکس پر شروع ہونے والے مختلف ہیش ٹیگز کی تفصیلات بتائیں۔

انہوں نے کہا کہ مختلف ہیش ٹیگز چلانے والے پانچ اکاؤنٹس کی شناخت معلوم ہوئی ہے ،آزاد کشمیر کے شہری خواجہ محمد یاسمین کے اکاؤنٹ سے یہ پیش ٹیگ شروع ہوا لیکن اس نے انکوائری جوائن نہیں کی۔

عدالت نے حیرانی کا مظاہرہ کرتے ہوئے دریافت کیا کہ یہ نیلم ویلی میں بیٹھا ہے جسٹس بابر ستار پر اس کا کیا اعتراض ہو سکتا ہے ؟ حیران کن ہے، ایف آئی اے حکام نے کہا کہ کراچی کے شہری سید فیضان رفیع نے ایک ہیش ٹیگ شروع کیا ، اس کو نوٹس کیا اس نے جواب دیا کہ میں بیرون ملک ہوں, ہم نے 29 جولائی کو دوبارہ طلبی کے نوٹس جاری کئے ہیں۔

ایف آئی اے کو ایک اکاؤنٹ اسمعیل کا بھیجا گیا بیان عدالت کے سامنے پڑھا گیا۔

بعد ازاں نیشنل کمپیوٹر ایمرجنسی رسپانس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر حیدر عدالت کے سامنے پیش ہوئے، انہوں نے کہا کہ ابھی 10 ملازمین میرے ساتھ ہیں ، اسسٹنٹ رجسٹرار عرفان خان کا کہنا تھا کہ وزارت خارجہ کے ذریعے ایکس کو لکھا ہے ، جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ جن کی شناخت ہو رہی ہے ان کی انکوائری کریں ، ڈیجیٹل ثبوت سامنے رکھ کر تحقیقات آگے بڑھائیں۔

بعد ازاں عدالت نے کیس کی سماعت موسم گرما کی تعطیلات کے بعد تک ملتوی کردی۔

یاد رہے کہ 3 جون کو اسلام آباد ہائی کورٹ میں جسٹس بابر ستار کے خلاف سوشل میڈیا مہم اور فیملی کا ڈیٹا لیک کرنے پر توہین عدالت کیس کی سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ہدایت دی کہ جنہوں نے سوشل میڈیا مہم کا آغاز کیا ان کا پتا لگائیں۔

2 جون کو اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس بابر ستار کے خلاف سوشل میڈیا مہم، فیملی کا ڈیٹا لیک کرنے پر توہین عدالت کیس سماعت کے لیے مقرر کردیا تھا۔

23 مئی کو جسٹس بابر ستار کے خلاف سوشل میڈیا مہم پر توہین عدالت کیس کی کازلسٹ جسٹس محسن اختر کیانی کی رخصت کے باعث منسوخ کردی گئی تھی۔

14 مئی کو سماعت کے دوران جسٹس محسن اختر کیانی نے ریمارکس دیے کہ اس کیس میں ہمیں انٹر سروس انٹیلی جنس (آئی ایس آئی)، انٹیلیجنس بیورو (آئی بی)، ملٹری انٹیلیجنس (ایم آئی) سمیت تمام خفیہ اداروں کے کردار کو دیکھنا ہے۔

واضح رہے کہ 6 مئی کو جسٹس بابر ستار نے ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کو لکھے گئے خط میں انہیں نشانہ بنانے والی سوشل میڈیا مہم کے بارے میں بتایا تھا، خط میں انہوں نے انکشاف کیا کہ آڈیو لیکس کیس میں مجھے یہ پیغام دیا گیا ہے کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔

28 اپریل کو جسٹس بابر ستار کے خلاف سوشل میڈیا مہم پر اسلام آباد ہائی کورٹ نے اعلامیہ جاری کیا تھا۔

اعلامیے میں اسلام آباد ہائی کورٹ نے جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ، بچوں کی امریکی شہریت، امریکی جائیدادوں اور فیملی بزنس پر وضاحت دی تھی۔

اعلامیے کے مطابق جسٹس بابر ستار نے آکسفورڈ لا کالج اور ہاورڈ لا کالج سے تعلیم حاصل کی، انہوں نے امریکا میں پریکٹس کی اور 2005 میں جسٹس بابر ستار امریکی نوکری چھوڑ کر پاکستان آگئے اور تب سے پاکستان میں کام کر رہے ہیں، جسٹس بابر ستار کی والدہ 1992 سے اسکول چلا رہی ہیں۔

اعلامیے میں کہا گیا تھا کہ جسٹس بابر ستار کے پاس اس وقت پاکستان کے علاوہ کسی اور ملک کی شہریت نہیں، جسٹس بابر ستار کے گرین کارڈ کا اس وقت کے چیف جسٹس کو علم تھا، جسٹس بابر ستار کے جج بننے کے بعد ان کے بچوں نے پاکستانی سکونت اختیار کی۔

اعلامیے میں بتایا گیا تھا کہ جسٹس بابر ستار کی پاکستان اور امریکا میں جائیداد ٹیکس ریٹرنز میں موجود ہے۔

مزید کہا گیا تھا کہ سوشل میڈیا پر جسٹس بابر ستار کے خلاف ہتک آمیز اور بے بنیاد مہم چلائی جا رہی ہے، سوشل میڈیا پر جسٹس بابر ستار کی خفیہ معلومات پوسٹ اور ری پوسٹ کی جا رہی ہیں، جسٹس بابر ستار، اُن کی اہلیہ اور بچوں کے سفری دستاویزات سوشل میڈیا پر پوسٹ کیے جا رہے ہیں۔

بعد ازاں اسلام آباد ہائی کورٹ نے چیف جسٹس کے خط کو درخواست میں تبدیل کر کے توہین عدالت کی کارروائی کا فیصلہ کیا تھا۔

یاد رہے کہ جسٹس بابر ستار اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان 6 ججوں میں سے ایک ہیں جنہوں نے ملک کے انٹیلی جنس ادارے کی طرف سے عدالتی امور میں مداخلت کی شکایت کی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 7 جولائی 2024
کارٹون : 5 جولائی 2024