ایم کیو ایم رہنماؤں کو اپنی سیاسی زندگی کے لیے ایک بار پھر فساد چاہیے، مولا بخش چانڈیو

شائع July 3, 2024
پیپل پارٹی کے سینئر رہنما مولا بخش چانڈیو— فائل فوٹو: پی پی آئی
پیپل پارٹی کے سینئر رہنما مولا بخش چانڈیو— فائل فوٹو: پی پی آئی

پیپلز پارٹی کے رہنما مولا بخش چانڈیا نے کہا ہے کہ متحدہ قومی موومنٹ پاکستان(ایم کیو ایم) کے رہنماؤں کو اپنی سیاسی زندگی کے لیے ایک بار پھر فساد چاہیے لیکن ان سے کہتا ہوں کہ لوگوں کو نہ لڑائیں اور انتشار پیدا نہ کریں۔

مولا بخش چانڈیو نے حیدرآباد میں میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ دو روز قبل نقلی ایم کیو ایم کے قائد نے وہی زبان استعمال کی جو وہ اکثر کرتے ہیں، ایم کیو ایم کے چار گروپ ہیں اور اصلی ایم کیو ایم کا اللہ کو ہی پتا ہے۔

انہوں نے خالد مقبول صدیقی کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ خالد مقبول کے لہجے میں تلخی ہے تو آخر ایسی کیا ہدایات ہیں، آپ ہر حکومت میں رہتے ہیں، موجیں کرتے ہیں اور پھر اچانک لہجہ تبدیل ہوجاتا ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ نے بانی متحدہ کے نام پر موجیں کی ہیں، بانی متحدہ کو ہم دعا دے رہے ہیں کہ وہ سلامت رہیں۔

مولا بخش چانڈیو نے کہا کہ ہم اردو بولنے والوں کو اردو بولنے والا سندھی سمجھتے ہیں اور اردو اور سندھی بولنے والے شعور رکھتے ہیں، وہ آپ کو جانتے ہیں۔

ان کا کہنا تھا کہ آپ پیپلز پارٹی کے قائدین کو بُرا بھلا کہیں گے تو یہ نوجوانوں کو قبول نہیں، آپ کو اپنی سیاسی زندگی کے لیے ایک بار پھر فساد چاہیے لیکن میں اردو بولنے والوں کو کہتا ہوں کتنی بار آپ ان کی باتوں میں آئیں گے۔

انہوں نے کہا کہ آپ جمہوریت کے ہر دور میں تارہ مسیح بن کر آجاتے ہیں، آپ نے بانی ایم کیو ایم کے نام پر موجیں کیں اور اب اسے لاوارثوں کی طرح چھوڑ دیا۔

ان کا کہنا تھا کہ اردو اور سندھی بولنے والوں سے اپیل کرتا ہوں کہ فتنے فساد کی سازش کو ناکام بنائیں، آپ پردیسی نہیں بلکہ آپ پاکستان کے شہری اور سندھی ہیں۔

پیپلز پارٹی کے رہنما نے کہا کہ ایم کیو ایم کے قائدین سے کہہ رہا ہوں کہ لوگوں کو نہ لڑائیں اور انتشار پیدا نہ کریں، آپ کو نوکری پر کوٹہ ملتا ہے تو کس کو دیتے ہیں، امداد ملتی ہے تو کس کو دیتے ہیں۔

انہوں نے کہا کہ ہم پاکستان کے دشمن نہیں، زرداری صاحب کے خلاف کتنے کیسز بنائے گئے لیکن ہمارے قائدین نے کبھی پاکستان کے خلاف بات نہیں کی۔

واضح رہے کہ چند دن قبل کراچی میں دیگر رہنماؤں کے ہمراہ پریس کانفرنس کرتے ہوئے خالد مقبول صدیقی نے کہا تھا کہ 16 دسمبر 1971 کو سانحہ سقوط ڈھاکا کے چند دن بعد 22 یا 23 دسمبر کو ذوالفقار علی بھٹو نے اقتدار سنبھالا اور انہوں نے اِدھر ہم، ادھر تم کا نفرت انگیز نعرہ لگا کر پاکستان کی تقسیم کی سازش پر سیاسی مہر ثبت کی تھی۔

انہوں نے کہا تھا کہ اسمبلیوں میں جانے والوں کو ٹانگیں توڑنے کی دھمکیاں دینے والے ذولفقار علی بھٹو کو دوسرا کام یہ دیا گیا کہ تعداد کے بعد اب معیار پر ہاتھ ڈالا جائے۔

ان کا کہنا تھا کہ 22 دسمبر 1971 کو اقتدار سنبھالا تھا اور 2 جنوری 1972 کو نیشنلائزیشن کے نام پر تمام اسکول، کالجز، بینک، انشورنس کمپنیاں، صنعت، تجارت کو نیشنلائزیشن کے نام پر جاگیرداری کی نذر کردیا، قومیانے کے بجائے ہتھیا لیا گیا۔

کارٹون

کارٹون : 4 اکتوبر 2024
کارٹون : 3 اکتوبر 2024