حکومت کا ارکان پارلیمنٹ، ججوں کے لیے مفت بجلی ختم کرنے پر غور
انڈیپنڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کو ادا کیے جانے والی کیپیسٹی چارجز پر بڑھتی ہوئی تنقید کے درمیان وزارت توانائی نے بیوروکریٹس، ججوں، ارکان پارلیمنٹ اور دیگر عہدیداروں کے لیے مفت بجلی کے فوائد کو ختم کرنے کا منصوبہ تیار کرلیا ہے۔
ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق جیو ٹی وی کی رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ اس تجویز میں تمام سرکاری اور نیم سرکاری اداروں بشمول بیوروکریٹس، ججز اور ارکان پارلیمنٹ کے لیے مفت بجلی بند کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
تاہم، ایکس (سابقہ ٹویٹر) پر ایک پوسٹ میں وزیر دفاع خواجہ آصف نے اس تاثر کو مسترد کیا کہ پارلیمنٹیرینز کو مفت بجلی ملتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ ارکان پارلیمنٹ کو مفت بجلی کی سہولت نہیں ملتی، میں اپنی ذاتی جیب سے ادا کیے گئے 35 سال کے بجلی کے بل دکھا سکتا ہوں۔
تاہم خواجہ آصف نے مشورہ دیا کہ ججوں اور بیوروکریٹس سے ان کے بجلی کے فوائد کے بارے میں پوچھا جائے۔
نیوز چینل کی رپورٹ میں دوسرے مرحلے میں تمام اداروں کے لیے مفت پیٹرول کی سہولت ختم کرنے کی تجویز کا بھی اشارہ دیا گیا ہے۔
وزارت کی یہ تجویز ایسے وقت میں سامنے آئی ہے جب ملک شدید مالی بحران سے گزر رہا ہے، جس میں غیر ملکی قرضوں کی وجہ سے اضافہ ہوگیا، ماہرین کا کہنا ہے کہ حکومت کو ڈیفالٹ سے بچنے اور برآمدات کو 60 ارب ڈالر تک بڑھانے کے لیے غیر معمولی اقدامات کرنے چاہئیں۔
بتایا گیا ہے کہ وزارت کی تجویز کے مطابق صرف صنعتوں اور کاروباروں کو ہی جائز سہولیات فراہم کی جائیں گی، جبکہ فیکٹریوں کے لیے زیادہ سے زیادہ ڈیمانڈ انڈیکیٹر (ایم ڈی آئی) چارجز کو کم کرنے کی تجویز بھی زیر غور ہے۔
پاور ڈویژن کے اجلاس میں نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) اور آئل اینڈ گیس ریگولیٹری اتھارٹی (اوگرا) کی کارکردگی کا جائزہ لینے کی تجویز بھی پیش کی گئی۔
جمعہ کو، فیڈریشن آف پاکستان چیمبرز آف کامرس اینڈ انڈسٹری (ایف پی سی سی آئی) نے آئی پی پی کے مالکان کے خلاف سپریم کورٹ میں درخواست دائر کرنے کے منصوبوں کا اعلان کیا، جس میں ان کے منصوبوں کے آڈٹ کا مطالبہ کیا گیا۔
کراچی پریس کلب میں ایک پریس کانفرنس میں، عوامی پاکستان پارٹی کے رہنما اور سابق وزیر خزانہ مفتاح اسمعیل نے ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکوز) پر بجلی کے بلوں سے زیادہ چارج کرنے کا الزام لگایا، جو بجلی کے بلند نرخوں کی وجہ سے ملک کے عدم استحکام میں معاون ہے۔
دریں اثنا، پاکستان بزنس فورم (پی بی ایف) کے صدر خواجہ محبوب الرحمن اور اس کے جنوبی پنجاب کے چیئرمین ملک طلعت سہیل نے آئی پی پیز کے ساتھ بجلی کی خریداری کے معاہدوں (پی پی اے) کو تنقید کا نشانہ بناتے ہوئے کہا کہ یہ مناسب غور و فکر کے بغیر کیے گئے ہیں جس سے قوم اور صنعت کو معاشی تباہی کی طرف دھکیل دیا گیا، ان خدشات کا اظہار جنوبی پنجاب کی تاجر برادری نے ملتان میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے کیا۔
خواجہ محبوب الرحمن نے کہا کہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں میں بجلی کی ایک مقررہ کم از کم مقدار کی خریداری کو لازمی قرار دیا گیا ہے، جس میں صرف چینی آئی پی پی کی ادائیگی 2 ارب ڈالر کے قریب ہے اور حکومت فی الحال ان قرضوں کی ادائیگی کے شیڈول کو حتمی شکل دے رہی ہے۔
پی بی ایف کے صدر نے مطالبہ کیا کہ وفاقی حکومت آئی پی پیز کے فرانزک آڈٹ کرائے، جس میں سرمایہ کاری، تکنیکی اور مالیاتی آڈٹ شامل ہیں، تاکہ کسی بھی مالی بے ضابطگی یا ممکنہ مجرمانہ رویے کی نشاندہی کی جا سکے، انہوں نے آئی پی پیز کے رپورٹ کردہ ایندھن کے استعمال اور اخراجات کی درستگی کی تصدیق کے لیے فیول آڈٹ کا بھی مطالبہ کیا۔
ملک طلعت سہیلنے وفاقی حکومت پر زور دیا کہ وہ آئی پی پیز کے ساتھ معاہدوں پر دوبارہ گفت و شنید کرے تاکہ ٹیرف ایڈجسٹمنٹ، ادائیگی کی شرائط اور معاہدے کی ذمہ داریوں کو حل کیا جا سکے، انہوں نے متبادل توانائی کے وسائل تلاش کرنے، پن بجلی اور قابل تجدید توانائی کو فروغ دینے اور آئی پی پی کے مالکان کو ڈالر کے بجائے روپے میں ادائیگی کرنے کی تجویز پیش کی تاکہ ممکنہ طور پر 55 کھرب روپے کی بچت کی جا سکے۔