• KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • KHI: Asr 4:07pm Maghrib 5:43pm
  • LHR: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm
  • ISB: Asr 3:24pm Maghrib 5:01pm

گوادر: بلوچ یکجہتی کمیٹی کا احتجاج، سیکیورٹی فورسز سے جھڑپوں کے بعد 3 ہلاک، متعدد گرفتار

شائع July 29, 2024
فوٹو: ڈان
فوٹو: ڈان

بلوچستان کے مختلف علاقوں میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کے احتجاج کے دوران شرکا کی سیکیورٹی اہلکاروں سے جھڑپوں کے نتیجے میں کم از کم 3 افراد ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے، اس دوران تقریباً 20 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔

ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق حکام کی جانب سے رکاوٹیں کھڑی کرنے کے باوجود لوگوں کی بڑی تعداد بلوچ راجی مچی (بلوچ قومی اجتماع) کے لیے صوبے بھر سے گوادر کی میرین ڈرائیو تک جانے میں کامیاب ہوئی۔

ذرائع نے ڈان کو بتایا کہ تلار چیک پوسٹ پر سیکیورٹی فورسز کی جانب سے قافلے کو روکنے کے بعد 2 افراد ہلاک اور 2 زخمی ہوئے, حکام نے دعویٰ کیا کہ ہجوم نے مبینہ طور پر چیک پوسٹ پر حملہ کیا، جس کے نیتجے میں سیکیورٹی فورسز اپنا دفاع کرنے کی کوشش کررہی تھی۔

مزید برآں، میرین ڈرائیو پر جمع ہونے والے مظاہرین کو منتشر کرنے کے لیے حکام کی جانب سے آنسو گیس کے استعمال پر شروع ہونے والی جھڑپوں میں ایک شخص اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھا اور 8 افراد زخمی ہوئے، اس دوران تقریباً 20 افراد کو گرفتار بھی کیا گیا۔

محکمہ صحت کے حکام نے جھڑپوں کے دوران اموات کی تصدیق کرتے ہوئے ڈان کو بتایا کہ ہسپتال میں 3 لاشیں اور 8 زخمی افراد موجود تھے، 2 زخمیوں کو تربت منتقل کر دیا گیا ہے۔

ڈان نے بلوچستان کے وزیر داخلہ ضیا اللہ لانگو اور صوبائی ترجمان شاہد رند سے رابطہ کرنے کی کوشش کی، لیکن ان سمیت دیگر متعلقہ حکام سے رابطہ نہیں ہو سکا۔

بعد ازاں گوادر میں اجتماع سے خطاب کرتے ہوئے بی وائی سی کی رہنما ڈاکٹر مہرنگ بلوچ اور دیگر نے کہا کہ عوام کے حقوق اور صوبے کے وسائل کے تحفظ کے لیے اپنی جدوجہد جاری رکھیں گے، انہوں نے مطالبہ کیا کہ بلوچ عوام کے قاتلوں کو گرفتار کرکے انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے اور سیکیورٹی فورسز کے زیر حراست مظاہرین کو فوری رہا کیا جائے۔

نظام زندگی مفلوج

مکران سمیت جنوبی بلوچستان کے مختلف علاقوں میں نظام زندگی ٹھپ ہو کر رہ گیا، گوادر جانے والی سڑکیں اور شاہراہیں دن بھر بند رہیں، مستونگ میں دھرنے کے باعث حکام نے سڑک بلاک کر دی، کوئٹہ کراچی شاہراہ پر بھی ٹریفک موجود نہیں تھی۔

مستونگ، قلات، نوشکی، خضدار، نوشکی، دالبندین، آواران، لسبیلہ، چاغی، نوکنڈی، گوادر، تربت اور پسنی میں بھی مکمل شٹر ڈاؤن ہڑتال کی گئی۔

اسی طرح بی وائی سی کارکنوں نے ہائی ویز اور بین الصوبائی سڑکوں پر کم از کم 14 مقامات پر دھرنا دیا، کوئٹہ میں ریڈ زون کی طرف جانے والی سڑکیں بند کر دی گئیں اور سیکڑوں پولیس اور لیویز اہلکار سکیورٹی کے لیے تعینات کر دیے گئے۔

بی وائی سی کی سیاسی حمایت

بلوچستان نیشنل پارٹی (بی این پی مینگل) اور نیشنل پارٹی کے رہنماؤں نے بی وائی سی کے پرامن حامیوں کے خلاف طاقت کے استعمال کی مذمت کی۔

بی این پی کے رہنما ساجد ترین ایڈووکیٹ نے کہا کہ ان کی پارٹی بھی مظاہروں میں شرکت کرے گی, انہوں نے نشاندہی کی کہ گوادر میں لوگ اب بھی صاف پانی کا مطالبہ کر رہے ہیں، حکومت پر زور دے رہے ہیں کہ پرامن احتجاج کی اجازت دی جائے۔

انہوں نے کہا کہ بلوچ اور پشتون عوام کو جان بوجھ کر بنیادی حقوق سے محروم رکھا جارہا ہے، جس سے کشیدگی میں اضافہ ہو رہا ہے اور لوگوں کو مسلح مزاحمت کی طرف دھکیلا جا رہا ہے۔

نیشنل پارٹی کے رہنما اسلم بلوچ اور کلثوم نیاز بلوچ نے بلوچستان میں سیاسی عدم استحکام کا ذمہ دار وزیراعلیٰ سرفراز بگٹی کی قیادت میں بلوچستان حکومت کو ٹھہرایا۔

انہوں نے الزام لگایا کہ موجودہ صورتحال سے غیر سیاسی قوتیں فائدہ اٹھا رہی ہیں اور حکومت بلوچستان میں جان بوجھ کر بدامنی پھیلا رہی ہے، انہوں نے دعویٰ کیا کہ اس وقت سول مارشل لا نافذ ہے، اور ’کٹھ پتلی حکومت‘ جان بوجھ کر حالات خراب کر رہی ہے۔

کارٹون

کارٹون : 22 نومبر 2024
کارٹون : 21 نومبر 2024